برطانیہ کے میڈیکل سکول میں داخلے کا معیار پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ یو کے کی یونیورسٹی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے تعلیمی امتحانات میں اچھے نتائج کافی نہیں ہیں۔ ایک طالب علم کو اپنی سکول سے باہر کی سرگرمیوں اور تجربات پر ایک personal statement لکھنی ہوتی ہے۔ انہیں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ کیسے ایک ہمدرد انسان ہیں۔ زیادہ تر بچے خیراتی تنظیموں کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور کچھ ہسپتالوں میں وقت گزارتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا ایک IQ امتحان ہوتا ہے۔ یہ آئی کیو ٹیسٹ فیصلے کرنے کی صلاحیت، ٹیم ورکنگ اور اچھی بات چیت جیسی خصوصیات کی جانچ کرتا ہے۔
چند طلبہ کو پھر انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے۔ انٹرویو میں دوبارہ یہ جانچا جاتاہے کہ آیا طالب علم کے پاس اچھا ڈاکٹر بننے کی قابلیت ہے کہ نہیں۔ ان سے اخلاقی مخمصوں کے علاوہ یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ بعض مشکل حالات سے کیسے نمٹیں گے۔ اچھے جوابات دینے والے طلباء کو میڈیکل سکول میں داخلے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ برطانیہ میں، یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف اچھے gcse یا Alevels (میٹرک اور ایف ایس سی) سکور حاصل کرنے سے طالب علم اچھا ڈاکٹر نہیں بن جاتا۔
میڈیکل سکول میں مریض کی بات تحمل سے سننے اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی مہارت نہ صرف سکھائی جاتی ہے، بلکہ اس کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر پاکستان کا کوئی ڈاکٹر یوکے میں کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے plab امتحان میں بھی یہیں ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
وہ برطانیہ کےبچے جن کے والدین کی آمدنی کم ہو یا وہ کم سماجی اقتصادی علاقے یا سکول میں رہتے/پڑھتے ہیں تو ان کے داخلے کا معیار آسان کر دیا جاتا ہے۔ درحقیقت غریب پس منظر کے بچوں کی یونیورسٹیوں میں سیٹوں کی ایک مقررہ تعداد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیاں سمجھتی ہیں کہ ہر طالب علم اپنے پس منظر سے قطع نظر مساوی مواقع کا مستحق ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بس ڈرائیور کا بچہ اس وقت لندن کا میئر ہے (صادق خان)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں