جنگل کی عدالتیں/اظہر سید

سپریم کورٹ کے حکم پر بنی خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو سزا سنائی تو لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عدالت ہی غیر آئینی قرار دے دی ۔ فیصلہ دینے والا ایک جج لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بن گیا اور ایک جج سپریم کورٹ پہنچ گیا ۔اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی شنوائی کیلئے آج تک نہ جسٹس گلزار نے کیس فکس کیا نہ موجودہ چیف جسٹس نے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے الیکشن کمیشن کو بارہ گھنٹے میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دے دیا تھا ۔

سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد جب گرفتار ہوئے انکی شنوائی کیلئے عدالت کا جج ہی کئی ماہ تک تعینات نہیں کیا گیا ۔فواد حسن فواد کی اپیل جب سپریم کورٹ پہنچی تو چیف جسٹس سات ماہ تک اس اپیل پر بیٹھ گیا اور کیس کی شنوائی نہ ہونے دی ۔

جنرل مشرف نے جب مارشل لا لگایا تو سارے جج لائین بنا کر حلف لینے کیلئے پہنچ گئے صرف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے انکار کیا اور میڈیا ٹرائل کا سامنا کیا ۔چیف جسٹس ارشاد مارشل لا لگنے پر اس قدر پرجوش تھے فوجی آمر کو تین سال تک آئین میں ترمیم کا حق دے دیا ۔

حمزہ شہباز کی وزارت اعلی کے خلاف عدالتی فیصلے میں آئین دوبارہ لکھا گیا اور اس فیصلہ پر قانونی حلقوں میں تاحال افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔

نواز شریف کے خلاف پاناما فیصلہ ملک کی عدالتی تاریخ کا وہ سیاہ چہرہ ہے جس نے بعض ججوں کے مکرو چہرے بھی بے نقاب کر دیے ہیں ۔اب اس فیصلے کے نتیجے میں چین سی پیک بند ہونے کی وجہ سے ناراض ہو چکا ہے ۔ملک نادہندہ ہو چکا ہے ۔اسوقت کا آرمی چیف جس نے “الیکشن میں “دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست ” کی ٹویٹ کی تھی کہتا ہے ہمارہ پاناما فیصلے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ججوں کا نواز شریف کے ساتھ مسئلہ تھا ۔

عمران خان کہتا ہے پاناما فیصلہ جنرل باجوہ کے جے آئی ٹی میں بھیجے گئے دو فوجی افسران کی وجہ سے ہوا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔
نواز شریف کو عدالتیں کہتیں تھیں جب تک عدالت میں پیش نہیں ہونگے اپیل کی شنوائی نہیں ہو گی لیکن عمران خان کو چار ماہ کے بغیر ہڈی ٹوٹے پلستر کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ویڈیو لنک پر پیش ہونے کی سہولت دی جاتی ہے ۔

عدالتوں کے متعلق عوامی تاثر اس حد تک منفی ہو چکا ہے کسی بینچ میں ججوں کے نام دیکھ کر فیصلے کی سو فیصد درست پیش گوئی کر دی جاتی ہے۔

دنیا کے ہر ترقی یافتہ مہذب ملک میں فوجی قیادت اپنے ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ سختی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں جبکہ پاکستان کے دو فوجی آمر جنرل ضیا اور جنرل مشرف بیانگ دہل میڈیا انٹرویو میں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا کہہ چکے ہیں اور فوجی آمروں کو یہ جرات صرف ضمیر فروش ججوں کی وجہ سے ہوتی ہے جو مارشل لا لگتے ہی لائین بنا کر حلف لینے کیلئے ایک دوسرے کو دھکے مارتے ہیں اور منتخب وزراء اعظم کو مالکوں کے حکم پر آئین میں دئے گئے طریق کار سے ہٹ کر فارغ کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج اس ملک کا جو حال ہو چکا ہے اور جس طرح ادارے بے توقیر ہو چکے ہیں مرکزی کردار ضمیر فروش ججوں،آئین شکن فوجی آمروں ،پالتو میڈیا اور سیاستدانوں کا ہے ۔ہمارے منہ میں خاک اس ملک کو اگر کچھ ہوا ذمہ دار یہی ضمیر فروش اور خود غرض لوگ ہونگے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply