آخر انسان کو کیا درکار ہے؟/سعید ابراہیم

انسان ایک انتہائی پیچیدہ مظہر ہے اور علم کی ترقی اس پیچیدگی کو صرف واضح ہی نہیں کر رہی بلکہ اس میں اضافہ بھی کر رہی ہے۔مگر اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اسے سمجھا نہیں جاسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان کو سمجھنے کیلئے اگر ہم ایک بنیادی سوال کا تعیّن کرلیں تو شائد معاملہ قدرے آسان ہوجائے اور وہ سوال یہ ہے کہ انسان کی حقیقی ضرورت کیا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی ضروتوں کی فہرست تو بے انت ہے مگر اس کی ہر ضرورت چاہے کم تر درجے کی ہو یا اعلیٰ درجے کی، اسکی تکمیل کا آخری نتیجہ صرف اور صرف تسکین کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ ان ضرورتوں میں کئی ایسی ہیں جو دنیا بھر کے انسانوں میں مشترک ہیں، جیسے کہ روٹی، کپڑا ، رہائش، تعلیم اور علاج ۔ انسان ہونے کے ناطے لازم ہے کہ دنیا بھر کے انسان کم از کم یہ بات طے کریں کہ دنیا کے ہر فرد کی یہ ضرورتیں بہرحال پوری ہونی چاہئیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر سب انسانوں کی یہ تین بنیادی نوعیت کی ضرورتیں باآسانی پوری کیوں نہیں ہو پارہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے چالاک قسم افراد نے ، جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، ایک ایسا معاشی نظام نافذ کررکھا ہے جس کے نتیجے میں وسائل کا ایک بڑا حصہ ان کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس قبضے کو جائز ثابت کرنے کیلئےانہوں نے کئی طرح کے مقدس اور عقلی جواز گھڑ رکھے ہیں۔ جیسے کہ تقدیر، ذہانت، قابلیت وغیرہ۔
ضرورتوں کی تکمیل کیلئے درکار وسائل خود بخود وجود میں نہیں آجاتے بلکہ انھیں پیدا کرنا پڑتا ہے اور اس کیلیے محنت درکار ہوتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ محنت کا عمل بھی انتہائی پیچیدہ اور دلچسپ ہوتا چلا جارہا ہے اور اس محنت سے ہر وہ شے پروڈیوس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو انسانوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔اس میں صرف جسمانی راحت یا تسکین سے متعلق ضرورتیں ہی نہیں بلکہ ذہنی ضرورتیں بھی شامل ہیں، جیسے کہ ادب اور جملہ فنون۔
پروڈکشن کے حوالے سے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ اقلیتی گروہ جسے ہم تخلیقی کہہ سکتے ہیں اور دوسرا وہ اکثریتی گروہ جو تخلیق کردہ اشیاء یا سہولتوں کواپنے سیکھے ہوئے ہنر کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افراد کیلئے پروڈیوس کرتا ہے۔ سرمائے کی پیدائش کیلئے یہ دونوں عوامل لازم و ملزوم ہیں۔ اب ضرورت ہے تو صرف یہ کہ حاصل شدہ سرمائے روئے زمین پر موجود ہر انسان تک پہنچایا جائے تاکہ وہ مناسب انداز میں زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی پروڈکٹو صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرسکے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ضرورت چاہے کم تر درجے کی ہو یا اعلیٰ درجے کی، اسکی تکمیل کا آخری نتیجہ صرف اور صرف تسکین کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی حقیقی ضرورت تسکین ہی ہے جس کا انحصار بے شمار اور ضرورتوں کی تکمیل پر ہے۔
ہر فرد اپنے مزاج اوردلچسپوں کے حوالے سےدوسروں سے مختلف ہوتا ہے بلکہ مسلسل مختلف ہونے کے پراسیس میں رہتا ہے۔اسے وہی کام کرنے میں لطف آتا ہے جو اس کی طبع سے میل کھاتا ہو۔ سو انسانی زندگی کا ایک انتہائی ضروری تقاضہ یہ ہے کہ افراد کو ایسا تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ اُس کام کو آئڈنٹیفائی کرسکیں جو انھیں لطف دیتا ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply