سیاسی اختلاف رائے/مرزا مدثر نواز

اسد حسین ایک پڑھی لکھی‘ وسیع المطالعہ‘ ذہین اور مسکراتے چہرے والی شخصیت ہے جو دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا فن بھی بخوبی جانتا ہے۔ محفل چاہے جتنی بھی سنجیدہ و پریشانی کے بادلوں میں گھری و مبتلا ہو‘ اس کا ادا کیا ہوا ایک جملہ ماحول کو خوشگواری میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ ایک سیاسی جماعت کا بھی حد سے زیادہ جیالا ہے اور اپنی جماعت کے بارے میں کسی بھی منفی رائے کو سننا پسند نہیں کرتا۔ سیاسی اختلاف رائے و تقسیم ہمارے معاشرے میں اس حد تک آگے جا چکی ہے کہ اسد حسین جیسانفیس شخص بھی بعض اوقات اپنی رائے دیتے ہوئے اخلاقی حدود سے تجاوز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ہر کوئی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے دفاع میں مصروف عمل ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے دانشوروں و قریبی دوستوں نے بھی سینگ پھنسائے ہوتے ہیں۔ اچھے و مضبوط تعلقات میں ان سیاسی شخصیات کی بدولت دراڑیں پڑ چکی ہیں جن تک عام لوگوں کی رسائی ہی ممکن نہیں۔محبوب و مطاع کی محبت و تعظیم اور مبغوض و مطرود سے بغض و استکراہ طبیعت انسانی کا قدرتی مقتضا ہے اور نوع انسانی کے لیے راہ عمل کی سب سے بڑی آزمائش اسی میں ہے کہ فطری امیال و جذبات میں عدل و اعتدال ملحوظ رکھا جائے۔ محبت اور تعظیم کا معاملہ انسانی قلب کے لیے نہایت نازک واقعہ ہوا ہے اور اس میں بے اعتدالی صراط مستقیم سے بھٹک جانے کا سبب ہے۔

انسانوں کے اندر طرح طرح کے لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک کی رائے دوسرے سے مختلف ہے۔ ان کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ مختلف اسباب سے ایک اور دوسرے کے بیچ میں ناخو ش گواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ اونچ نیچ اور یہ فرق سماجی زندگی میں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ باقی رہیں گے‘ کسی حال میں انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے زندگی اور کامیابی کا صرف ایک ہی ممکن راستہ ہے۔ وہ ”باوجود“ کے اصول کو اپنی پالیسی بنائے۔ وہ مخالفتوں کے باوجود لوگوں کو اپنا موافق بنانے کی کوشش کرے‘ ناخوشگواریوں کے باوجود اپنے لیے خوشگوار زندگی کا راز دریافت کرے۔ اس کے خلاف عداوتیں اور سازشیں کی جائیں تب بھی وہ اس یقین کے ساتھ آگے بڑھے کہ وہ اپنے مثبت عمل سے تمام منفی باتوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دنیا میں زندہ رہنے کی یہی واحد صورت ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ اگر برداشت اور رواداری کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو اس زمین پر ایک خاندان بن سکتا نہ ایک ملک۔ اس دنیا میں اختلاف کا موجود ہونا اتنا ہی فطری ہے جتنا خود انسان کا موجود ہونا۔ جہاں انسان ہوں گے وہاں اختلاف ہو گا‘ خواہ یہ انسان ایک مذہب اور کلچر کے ہوں یا کئی مذاہب اور کلچر کے۔ ایسی حالت میں انسان کو دو میں سے ایک چیز کا نتخاب کرنا ہے‘ یا تو وہ اختلاف کو برداشت کرے یا اختلاف کو برداشت نہ کر کے دوسروں سے ہمیشہ لڑتا جھگڑتا رہے۔ ہمارا کا م صرف اپنی رائے و دلائل کا اظہار ہے چاہے کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے۔ ہمیں ہر گز یہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے کہ میری رائے حتمی و حقیقی و اٹل ہے اور دوسرے پر لازم ہے کہ وہ اس سے اتفاق کرے۔ ہمارے لیے انتخاب کا موقع اختلاف اور بے اختلاف میں نہیں ہے بلکہ اختلاف کو برداشت کرنے یا اختلاف کو برداشت نہ کرکے مر جانے میں ہے۔ اگر ہم زندگی چاہتے ہیں تو وہ صرف اختلاف کو برداشت کرنے ہی میں مل سکتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا جو امکان ہے وہ لڑ کر خود کو برباد کر لینے کا ہے۔ اس کے سوا کسی تیسرے انتخاب کا ہمارے لیے موقع نہیں۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply