مصنوعی ذہانت کیا ہے؟/1-ندیم رزاق کھوہارا

مصنوعی ذہانت

کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں داخل ہوتے ہی پہلا سبق جو سیکھنے کو ملا تھا۔۔ وہ تھا

Computers are stupid…

“کمپیوٹر احمق ہوتے ہیں۔”

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ورچوئل یونیورسٹی کے استاد محترم الطاف صاحب نے یہ سبق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کمپیوٹر صرف وہی کرتے ہیں جس کے لیے ہم انہیں پروگرام کرتے ہیں۔ اس سے کم زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ سر الطاف صاحب اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن جوں جوں کمپیوٹر سائنس سے واقفیت بڑھتی گئی۔ توں توں اندازہ ہوتا گیا کہ کمپیوٹر اب اسٹوپڈ نہیں رہے۔ وہ دور گیا جب کمپیوٹر صرف وہی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جس کے لیے انہیں پروگرام کیا جاتا تھا۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر سوچنے اور سمجھنے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے مصنوعی ذہانت کا آغاز ہوتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کا موضوع اس وقت پوری دنیا میں زیرِ بحث ہے۔ سائنسی حلقوں سے لے کر عوامی حلقوں تک، حکومتی سطح سے نجی سطح تک، اقتدار کے ایوانوں سے فیکٹریوں، کارخانوں تک۔۔۔ ہر جا مصنوعی ذہانت کا ہی چرچا ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔۔۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو آنے والے دور میں ہر جگہ ہر مقام پر نظر آئے گی۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ انسانی میں تین قسم کی ٹیکنالوجی کی ایجاد نےتاریخ کا رُخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔پہیہ، کمپیوٹر، اور اب مصنوعی ذہانت۔۔۔ مصنوعی ذہانت ابھی ابتدائی مراحل پر ہے۔ اور اس کے انسانی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس مضمون میں ہم آپ کو اکیسویں صدی کی اس اہم ترین ایجاد پر تفصیل سے آگاہ کریں گے۔ تو چلیے شروع کرتے ہیں زمانہ قبل از تاریخ سے۔۔۔ جب مصنوعی ذہانت دیومالائی کرداروں کی صورت عام ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے ایک نظر اس سوال پر کہ آخر مصنوعی ذہانت ہے کس بلا کس چڑیا کا نام؟ یہ کوئی خاص مشین ہے یا پروگرام؟

مصنوعی ذہانت کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت جسے بعض اوقات مشینی ذہانت بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل ایسی ذہانت ہے جو مشین کی جانب سے ظاہر ہو بالکل ویسے جیسے انسانوں میں ذہانت ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسانوں میں پائی جانے والی ذہانت کا پرتو مشین میں پائی جانے والی ذہانت۔۔۔ جسے مصنوعی ذہانت کا نام دیا گیا ہے۔ کوئی مشین جو بہ یک وقت ہارڈویئر اور سافٹ وئیر کے ایک ایسے امتزاج پر مبنی ہو جو کہ انسانی ذہن کی طرح اپنے اردگرد پائے جانے والے ماحول سے سیکھ کر مسائل کو حل کر سکے۔ یہ مشین کمپیوٹر کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے اور کسی صنعتی آلے کی صورت میں بھی۔۔۔ گویا انسانوں کی طرح ذہانت کا مظاہرہ کرنے والی مشین کو مصنوعی ذہانت کے ذمرے میں گردانا جائے گا۔ مصنوعی ذہانت کو مختصراً اے آئی بھی کہا جاتا ہے۔ جو کہ Artificial intelligenceکا مخفف ہے۔

کمپیوٹر سائنس میں مصنوعی ذہانت کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ ” یہ ایک ایسا نظام ہے جو نا صرف ڈیٹا پر دی گئی ہدایات کے مطابق عمل کرتا ہے بلکہ اس میں ڈیٹا سے سیکھنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اس اکتساب کو یہ نظام مختلف طرح کے عوامل سر انجام دینے میں استعمال کرتا ہے۔ یہ ڈیٹا کا تجزیہ کر کے خودکار طریقے سے کامیابی کے امکانات کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔”

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک مصنوعی ذہین مشین کے لیے کامیابی سے کیا مراد ہے۔ تو ہم یوں سمجھ لیتے ہیں کہ جب کوئی مشین مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا اجر اسے بِٹ 1 جبکہ ناکامی کی صورت میں 0 کی صورت ملتا ہے۔ اس کی مزید تفصیلات آگے چل کر۔۔۔فی الحال واپس تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی تاریخ 

تہذیب کی ابتداء سے ہی انسان ایک ایسی مافوق الفطرت شئے  کے سحر میں مبتلا رہا ہے جو انسان بلکہ انسان سے بھی بڑھ کر ذہین ہو۔ کسی بھی تہذیب سے ملنے والی قدیم داستانوں کو پڑھیں تو اکثر ان میں ایسی مادی چیزوں کا تذکرہ ملے گا جو کہ انسان کی طرح ہی سوچتی، عمل کرتی اور انسانوں کی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔ کہانیوں سے ہٹ کر تین سے چار سو قبل مسیح کے دور میں پیدا ہونے والے ریاضی دانوں اور فلاسفروں کی توجہ ایسے خیالات و مساوات پیش کرنے پر رہی جنہیں استعمال کر کے کوئی مشین انسان کی طرح کام کر سکے۔ جس کا بنیادی مقصد انسانوں کی زندگی کو آسان بنانا تھا۔

مصنوعی ذہانت کی وسطی تاریخ 

وہ دور ہے جب انسان ایک ایسی مشین ایجاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو حساب کتاب کے کام کو آسانی سے سر انجام دے سکے۔ سترھویں اور اٹھارہویں دو صدیوں پر محیط اس جدوجہد کا نتیجہ انیسویں اور بیسویں صدی کی ابتداء میں کمپیوٹر کی صورت میں ملا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے مصنوعی ذہانت کی جدید تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے۔

جدید تاریخ 

بیسویں صدی کی ابتداء سے ہی انسان جیسی مشین کا خیال سائنس فکشن ناولوں اور ڈراموں کی زینت بننے لگا۔ سال 1921 میں چیکو سلواکیہ کے ڈرامہ نگار کا لکھا گیا ڈرامہ ” روزمز یونیورسل روبوٹ” وہ پہلی دستاویز ہے جس میں لفظ روبوٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔ یعنی انسان کی مانند ایک ایسی مشین جو انسان کی طرح ہی ذہین ہے۔ اسی دہائی میں مشہور سائنس فکشن فلم “میٹروپولس” میں پہلی بار ایک انسان نما روبوٹ کو پردہ اسکرین پر دکھایا گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ انسان نما غیر انسانی ذہین مشینوں کا تخیل ہر سمت سے ابھر کر سامنے آنے لگا۔ بات تخیل سے بڑھ کر عمل کی جانب قدم رکھ چکی تھی۔ پچاس کی دہائی تک جب کہ ابھی صرف چار بٹ والا پراسیسر بھی ایجاد نہیں ہوا تھا لیکن کمپیوٹر سائنس کے ماہرین مصنوعی ذہانت کی جانب قدم بڑھا چکے تھے۔

ایسے میں یہ سوال بھی اٹھنے لگے تھے کی مصنوعی ذہانت پر مبنی مشین کیا کرنے کی اہلیت رکھتی ہو گی۔ اس کا جواب 1950 میں سر ایلن ٹیورنگ نے اپنے مشہور عالم ٹیورنگ خیالی تجربے کے ذریعے دیا۔

ٹیورنگ ٹیسٹ کے مطابق ایک کمرے میں ایک انسان بیٹھا ہوا ہے۔ اس سے ملحق دیگر دو کمروں میں سے ایک میں انسان اور ایک میں ذہین کمپیوٹر موجود ہے۔ اب پہلے والا انسان ان دونوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ لیکن اسے مخصوص تناظر میں ان دونوں سے سوالات کر کے یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ ان میں سے انسان کون سا ہے اور مشین کون سی۔۔۔ سوالات کی تعداد یا وقت طے کردہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیسٹ بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اگر نتائج پچاس فی صد سے زائد مشین کے حق میں آئیں یعنی کہ اسے انسان سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ مشین مصنوعی ذہانت سے لیس ہے۔ اور ایک انسان کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ وہ ایک انسان نہیں بلکہ مشین ہے۔

ساٹھ کی دہائی تک مصنوعی ذہانت کا خیال مقبولیت کی انتہاؤں کو پہنچ چکا تھا۔ تب تک ایسے خودکار صنعتی روبوٹ بھی ایجاد ہو چکے تھے جو کارخانوں میں انسانوں کی جگہ کام کر رہے تھے۔ لیکن یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ تب تک مصنوعی ذہانت کے لیے مختلف پروگرامنگ زبانیں تشکیل دی جا چکی تھیں جن میں LISP سرِ فہرست ہے۔ لیکن اس کی راہ میں عملی رکاوٹ مناسب ہارڈ وئیر کا نہ ہونا تھا۔ اس ضمن میں مؤر کا قانون کارآمد رہا۔ جس کے مطابق کسی ایک چپ پر ٹرانسسٹر کی تعداد ہر دو سال میں دوگنی ہوتی رہے گی۔ یہ باقاعدہ قانون نہیں تھا لیکن کمپیوٹر ہارڈویئر کی صنعت میں اسے قانون کا درجہ حاصل رہا۔ نتیجہ یہ کہ ہر سال ہارڈوئیر کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا اور اسی مناسبت سے مصنوعی ذہین مشینوں کا خیال بھی فروغ پاتا رہا۔

سال 1956 میں ڈارٹ ماؤتھ کالج میں پہلی بار مصنوعی ذہانت پر ایک ورکشاپ منعقد کی۔ جس میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور آئی بی ایم کے پانچ تحقیق دانوں نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ کے بعد مصنوعی ذہانت باقاعدہ طور پر ایک مضمون کی شکل اختیار کر گئی۔ اور اس پر تحقیقی مضامین پیش کیے جانے لگے۔

پہلی خزاں کا دور 

لگ بھگ دو دہائیوں تک تحقیق جاری رہنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں مصنوعی ذہانت پر تحقیق کے دروازے بند ہو گئے۔ یہ وہ دور تھا جسے اے آئی پر خزاں کے دور سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ خزاں کئی برس تک طاری رہی۔ یہاں تک کہ “ایکسپرٹ سسٹم” پر توجہ بڑھنے لگی۔ یہ اے آئی پر مشتمل ایسے پروگرام تھے جو کہ کسی خاص موضوع پر مخصوص حدود قیود میں رہتے ہوئے پیشہ ور انسانوں کی طرح مہارت دکھا سکتے تھے۔ ایکسپرٹ نظاموں کے دور میں مصنوعی ذہانت ایک بار پھر اربوں ڈالر کی صنعت کی شکل اختیار کر گئی۔ اور اس پر ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی تحقیق ہونے لگی۔ لیکن نوے کی دہائی کے اواخر میں ڈیسک ٹاپ/ پی سی کے عروج پاتے ہی عالمی اداروں کی مصنوعی ذہانت پر توجہ ایک بار پھر کم ہونے لگی۔ اور یوں اے آئی پر ایک اور دور آیا۔۔۔ طویل خزاں کا دور۔۔۔۔

دوسری خزاں کا دور 

اس بار مصنوعی ذہانت پر خزاں بہت لمبے عرصے کے لیے اُتری۔ جہاں ایک طرف پی سی، ونڈوز اور دیگر آپریٹنگ نظاموں کی مقبولیت عروج کی نئی بلندیوں کو چھو رہی تھی اور کمپیوٹر گھر گھر کا حصہ بن رہے تھے وہیں دوسری طرف مصنوعی ذہانت کا کوئی نام لیوا نہ  تھا۔ اے آئی کی زبان LISP پر مبنی مشینیں آہستہ آہستہ منظرِ عام سے غائب ہوتی گئیں۔ اور یہ موضوع کھٹائی میں پڑتا گیا۔ کمپیوٹر ایک سٹوپڈ مشین کے طور پر جو کہ آپ کے دیے اشاروں پر آپ کی خواہش کے مطابق عمل کرتا تھا، ہر گھر میں گھر کرتا گیا۔ دو دہائیوں تک ٹریلین ڈالر صنعت سے وابستہ کسی بھی فرد کو مصنوعی ذہانت کا خیال نہ ستایا، یہاں تک کہ صدی کے اختتام پر مصنوعی ذہانت کے شعبے سے ایک دھماکہ خیز خبر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ خبر یہ تھی کہ کمپیوٹر چِپ بنانے والی مشہور زمانہ فرم آئی بی ایم کی جانب سے مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ شطرنج کھیلنے والے کمپیوٹر “ڈیپ بلیو” نے اس وقت کے ورلڈ شطرنج چیمپئن گیری کیسپروف کو چھ گیم کے سیٹ میں ساڑھے تین کی نسبت سے ہرا دیا۔ ایک انسان پر مشین کی فتح کی یہ خبر جنگل کی آگ بن کر پھیلی۔ اور ہر ایک کو حیران کر گئی۔ مصنوعی ذہانت ایک بار پھر سے خواص و عوام کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ لیکن یہ فتح اچانک نہیں ہوئی تھی۔ اس کے پیچھے آئی بی ایم کا سالوں پر محیط کام تھا۔ اس سے پہلے ڈیپ بلو مشین گیری سے دو بار ہار چکی تھی۔ لیکن سابقہ غلطیوں سے خودکار طریقے سے سبق سیکھا اور ہارڈوئیر کی طاقت میں اضافے سے یہ مشین اس قابل ہوئی کہ ورلڈ چیمپئن کو مات دے سکے۔

دراصل مؤر کے قانون کے مطابق کمپیوٹر پراسیسر چِپ کی طاقت میں دن بدن ہونے والے اضافے اور ریاضیات، شماریات و معاشیات جیسے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے اثر و رسوخ نے اسے ایک بار پھر اس قابل کر دیا تھا کہ اے آئی پر چھائی خزاں کا دور ختم ہو اور پھر سے بہار لوٹ آئے۔

نیا ہزاریہ، نئی صدی، نئی بہار

اکیسویں صدی اور نئے ہزاریے کے آغاز سے ہی اے آئی تقریباً ہر صنعت میں دخل انداز ہونے لگی تھی۔ سال 2011 میں آئی بی ایم کے تیار کردہ مصنوعی طور پر ذہین واٹسن کمپیوٹر نے ایک براہ راست ٹی وی کوئز شو میں حصہ لیا۔ اور اس شعبے میں چیمپئن مانے جانے والے دو انسانوں کو مات دے کر مقابلہ جیت لیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ مصنوعی ذہانت اب اپنے قدم گاڑ چکی۔ اور کہیں نہیں جانے والی۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اے آئی پر اخلاقی و خدشاتی سوال اٹھنے لگے۔

سال 2015 اور 16 میں گوگل کی تیار کردہ الفا گو مشین نے پے در پے “گو” نامی کھیل میں ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کو شکست دے کر اپنا سکہ جما لیا۔ یاد رہے یہ کھیل شطرنج کی بہ نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ڈھائی ہزار سال قدیم اس کھیل میں کڑوروں چالیں چلی جا سکتی ہیں۔ اور جوں جوں کھیل کے استعمال ہونے والے بورڈ کی جسامت بڑھاتے جائیں، اس کی چالوں کی تعداد اربوں کھربوں تک جا پہنچتی ہے۔ الفا گو مشین جو کہ گوگل کے مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگرام “ڈیپ مائنڈ” کی مدد سے تیار کی گئی ہے، نے پسِ منظر میں بہ یک وقت کروڑوں چالوں کو پراسیس کر کے ان میں سے بہترین کو چُنا اور بالآخر وقت کے ماہر ترین کھلاڑی کو بھی مات دے دی۔

یہ تو تھی مصنوعی ذہانت کی تاریخ۔۔۔ اب اس سے پہلے کہ ہم اس کی تکنیکی تفصیلات کی جانب جائیں۔ ذرا ایک نظر کہ اس وقت اے آئی کس مقام پر کھڑی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply