عملیت پسندی۔۔حسان عالمگیر عباسی

ناقص سوچ کے مطابق جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو سیکولرازم نے جنم لیا۔ امام اپنی سطح پہ دین کے مذہبی عناصر، علوم اسلامیہ، تاریخ و دیگر امور میں جت گئے۔ نظام میں خلافت کے مقابل بغاوت کے عناصر دیکھنے کو ملے۔ خلافت یعنی خدا کے نظام کو مسترد کر کے اس نظام کی بنیادیں استوار کرنا شروع کر دیں جس کا فوری نتیجہ اسلام بحیثیت نظام بنیادیں ہلنے لگیں۔ گرتی ہوئی دیوار کو موروثیت، ملوکیت اور آمریت نے دھکیلنا شروع کر دیا۔ بادشاہ اور عوام میں فاصلے پیدا ہو گئے۔ مشورے کی اہمیت کو جھٹلا دیا گیا۔ خزانہ بادشاہ و اس کے حواریوں کی عیاشیوں کے لیے رہ گیا۔ جو خلافت کی بات کرتا اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا۔ احتساب کا نظام مفلوج الحال ہو گیا۔ جب صاحبانِ امامت نے دین کو یوں مسترد ہوتے ہوئے دیکھا تو بجائے طاقت ور حکمرانوں سے کھلی بغاوت کرنے کے یا عوام کو اکسانے کے اس کام پہ توجہ دی جو مذہبی عناصر کہلائے جا سکتے ہیں۔ عملیت پسندی سے زیادہ تھیوری کی بنیاد فراہم کرنا شروع کر دی۔ بلاشبہ اماموں نے بھی اس راستے میں بہت سی تکالیف برداشت کیں لیکن عملیت پسندی یا بے دین حکمرانوں کو برداشت کیے رکھا یہاں تک کہ کئی صدیاں مسلمانوں کی حکمرانی قائم رہی جہاں اسلام بحیثیت دین جزوی سہی لیکن کلیت کے درجے پہ فائز نہیں رہا۔ ایسے میں وہ کام ہو گئے جس سے عوام الناس آج بھی فایدہ لے رہی ہے۔ فقہ تب بنتی ہے جب نظام خدا کے اصولوں کے مطابق ہو لیکن خدائی نظام کی مفلوج الحالی نے فقہ مرتب کر لی۔ اسے تجدید کہہ لیں یا وقت کی اہم ضرورت دونوں صورتیں ہی جائز ہیں۔

یقیناً آج بھی عملیت پسندی ہی وقت کا تقاضا ہو سکتا ہے لیکن جب تلوں میں تیل ہی نہ بچے اور برگر سوچ کے متحملین جگہ جگہ ملیں یا ان کی سوچ غیر برگرز پہ حاوی ہو یا ان کے والدین ان کے ماڈل کو بہتر تصور کرتے ہوئے خواہش رکھتے ہوں کہ ان کی نسل بھی گنے کے رس پہ ماڈرن مشروبات کو ترجیح دیں تو ایسے متاثرین کے ہوتے ہوئے کوئی موثر عملیت مشکل لگ رہی ہے۔ آج دین اسی طرح مفلوج الحالی کا شکار ہے جیسے خلافت کے تیس سال کے بعد سے اب تک رہا ہے۔ یزید کو للکارنے والے حسینیوں کو صرف باتوں کی حد تک تلاش کیا جا سکتا ہے۔ عوام یکسو ہی نہیں ہے۔ ان کو علم ہی نہیں ہے کہ اسلام ایک سسٹم کا نام ہے۔ ایسے بچے جو سکرین کے غلام ہوں اور سکولز بند ہونے پہ ڈھولکیا بلوا لیں اور زندگی کا مقصد سمجھے بنا وقت کو فضولیات میں صرف کر رہے ہوں یا بالوں پہ تیل لگانا بزرگوں کا کام تصور کرتے ہوں ان سے عملیت پسندی کی امید باندھنا مشکل ہے۔ پوری طرح سے دماغ کولونائزڈ ہیں۔ خدا کا نظام صرف قرآن و حدیث میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

اب نعرے بازی یا اس طرح کی دیگر سرگرمیاں ہی ہیں جو کم از کم سیکولر ازم کے مخالف بیانیے کی ترجمانی کرتی ہیں۔ البتہ نعرے بازی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ ماڈرن ازم اور نئے ٹرینڈز کو شعار بنانا اور پر کشش پروگرامات ضروری ہیں۔ یہ حقیقت پسندانہ تناظر میں بات کہی جا رہی ہے۔ ان مثالوں کو محض ترجمانی کے لیے تحریر کا حصہ بنایا ہے۔ یہ مثالیں ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ یہ پروٹو ٹائپس یا ماڈلز ہیں۔ امت مسلمہ پوری طرح سے متاثرین میں شامل ہے اور موثر عملیت پسندی کی گنجائش نہیں نظر آ رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سب کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے جو کم از کم فرقہ وارانہ سوچ، آپسی کشیدگی اور تعصب سے کسی حد تک پاک ہیں۔ ہر ایک کے پیچھے نماز پڑھ لینا بھی ایک سوچ ہے۔ اقامت دین کا تصور ہونا بھی غنیمت سے کم نہیں وگرنہ بندوں کو بندوں کی غلامی میں دینا تو چل ہی رہا ہے۔ دین یعنی اسلام بحیثیت نظام کی سوچ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے۔ اگر یہ سوچ ہے اور روز بروز پنپ رہی ہے تو عملیت پسندی وقت کا تقاضہ ہی نہیں ہے یا ٹائنمگ کا تقاضہ کر رہی ہے۔ سید مودودی رح نے اسے تین نسلوں کا کام گردانا ہے۔ ایک وہ جو بنیاد ڈالتی ہے، دوسری وہ جو دیوار بناتی ہے اور تیسری جو چھت ڈالتی ہے۔ شارٹ کٹس، انڈر گراؤنڈ سرگرمیاں اور بلٹ کی جگہ صبر، استقامت، اعلانیہ ممکنہ کوشش اور بیلٹ کو ٹولز بنایا جائے۔

Facebook Comments