اکثر ہم دیار غیر (خاص طور پہ سعودی عرب) میں رہنے والوں کو پوچھا جاتا ہے, پوچھنے والی کوئی فیملی ہوتی ہے یا ایک دو بندے
اور اُس کے بعد پوچھنے والا اپنی کہانی سناتا ہے۔
کہانی کچھ یوں ہوتی ہے۔
یہ میرے بھائی کی تصویر ہے (جو کہ پرانی ہوتی ہے اور اکثر انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوتی ہے ) اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اس کے کفیل نے اس کو پاکستان بھیجنے کے دس ہزار ریال مانگے ہیں آپ ہماری مدد کردیں اگر تو آپ سعودی عرب میں نئے ہیں یا آپ کو نہیں پتہ کہ یہ لوگ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں آپ مدد کردیتے ہیں اور جیسے ہی آپ مدد کرتے ہیں یہ لوگ آنسو بہاتے ہوئے اور پیسوں کا تقاضہ کرتے ہیں اور چند مہینوں کے بعد آپ اسی شخص کو کسی اور جگہ یہی ڈرامہ کرتے دیکھتے ہیں تو آپ کو دکھ ہوتا ہے کہ اس نے دھوکہ کیا!
دوسری کہانی!
آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہوتے ہیں یا مسجد نبوی (ص) میں موجود ہوتے ہیں کیونکہ ایسی جگہ انسان جذباتی کیفیت میں ہوتا ہے اسی لیےدل بھی نرم ہوتا ہے،
آپ کے پاس ایک معزز فیملی(بظاہر) آتی ہے اور پوچھتے ہیں آپ کون سی زبان جانتے ہیں انگلش، اردو، عربی ؟
(یعنی یہ لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں)
آپ اپنی زبان بتاتے ہیں اور اس کے بعد آپ کو یہ کہانی سننے کو ملتی ہے
ہم دبئی یا کسی اور ملک سے عمرہ کرنے آئے تھے جس بیگ میں ہمارے پاسپورٹ اور پیسے تھے وہ گم ہوگیا ہے یا کسی نے چھین لیا ہے آپ ہماری مدد کردیں آپ رب کی رضا کے لیے ان کی مدد کردیتے ہیں اگر تو آپ سعودی عرب رہتے ہیں تو آپ ان کو کہیں اور بھی اسی طرح کا ڈرامہ کرتے دیکھ ہی لیں گے!
تیسری کہانی!
آپ کے پاس ایک پراڈو ، لینڈکروذر یا کوئی مہنگی کار آکے رکے گی اس میں ایک پاکستانی فیملی موجود ہوگی (زیادہ تر پاکستانی ایسا کام کرتے ہیں، اب کچھ سعودی بھی اس کاروبار کو اپنا رہے ہیں )
وہ لوگ کہیں گے ہمارا پرس یا بیگ کالوں (حبشی) نے چھین لیا ہے یا گم ہوگیا ہے اور پٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں ہیں آپ ہماری مدد کردیں یا کوئی بچہ ساتھ ہوگا اور کہا جائے گا کہ میری بیوی ہسپتال داخل ہے علاج کے لیے پیسے کم پڑ گئے ہیں مدد کردیں
آپ مدد کردیتے ہیں اور چند مہینوں ،چند سال یا چند دنوں کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب کسی اور جگہ پہ کسی اور کو ایسی ہی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنے والا ہر کوئی جھوٹا ہوتا ہے لیکن اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جن کا ذریعہ معاش ہی یہ ہوتا ہے اب کون پاگل آسان کام چھوڑ کے اپنے ہزار ریال کی دیہاڑی کا نقصان کرے اور اس کے بدلے سخت کام کرکے سو ریال کی دیہاڑی لگائے۔
جب دوسرے ممالک کے لوگ آکے ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستانی یہ کام خانہ کعبہ میں کرتے ہیں یا ہم خود دیکھتے ہیں تو سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔
اگر آپ کوئی ایسا کیس دیکھیں تو تفتیش کریں اگر وہ واقعی ہی ضرورت مند ہوں تو ان کو تھوڑے سے پیسے دے کے ٹرخائیں مت بلکہ ان کی پوری مدد کریں تاکہ ان کو کسی اور کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے لیکن زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ یہ جھوٹے ہوتے ہیں جب آپ ان سے تفتیش کریں گے تو ان کا جھوٹ کھل جاتا ہے اور یہ آپ کے پاس سے کھسک جاتے ہیں۔
پھر پانامہ لیکس ہو یا کوئی اور کرپشن کی کہانی مجھے سن کے نہ تو دکھ ہوتا ہے اور نہ ہی حیرانگی،کیونکہ ہم خود کون سا ایماندار ہیں کہ ہم پہ عمر بن عبدالعزیز (رح) جیسے حکمران مسلط کیے جائیں ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں