نماز تراویح کے لئے کیسی مشاورت؟۔۔ذیشان نور خلجی

پوری دنیا لاک ڈاؤن کے دور سے گزر رہی ہے اور اب پاکستانی گورنمنٹ نے بھی اس میں مزید دو ہفتے کی توسیع کر دی ہے۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آنے والے دن وباء کے لحاظ سے مزید سخت ہوں گے۔ اس وقت جب کہ پوری دنیا میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو چکا ہے ماسوائے چند ایک ناگزیر شعبوں کے۔ اور تمام مذہبی مقامات بھی بند ہوچکے ہیں۔ وہ چاہے ویٹی کن کا چرچ ہو، اسرائیل کی دیوار گریہ یا پھر سعودی عرب کا کعبۃ اللہ۔ بلکہ خبر ہے کہ سعودی حکومت نے اس رمضان نماز تراویح بھی موقوف کر دی ہے۔ گو عمرہ اور طواف پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔ اور سعودی حکومت کا یہ اقدام انتہائی دانشمندانہ بھی ہے۔ واقعی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں اور مذہب کی بنیادی تعلیم بھی تو یہی ہے۔ اگر سعودی عرب اپنی مذہبی جذباتیت کو لے کے ان مقامات کو بند نہ کرتا تو اس وقت امت مسلمہ بہت بڑی تباہی سے دو چار ہوتی۔ اس کے علاوہ ایران نے بھی اپنی زیارات اور شہداء کربلا کے روضے بند کر دیے ہوئے ہیں تاکہ زائرین کے ذریعے وائرس پھیل کر باقی دنیا میں نہ جائے۔

لیکن پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کی منطق ہمیشہ سے نرالی رہی ہے اور اس دفعہ بھی جب حکومت نے مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے پر پابندی لگائی تو ان لوگوں کی طرف سے ایک شور بلند ہوا۔ گو حکومت نے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ مساجد کے خادمین با جماعت نماز کا اہتمام کر سکتے ہیں ،ایسے ایک مسلم معاشرے کے شعائر اذان اور نماز بھی قائم رہیں گے اور وائرس کا پھیلاؤ بھی نہیں ہوگا۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے مقامات پر جمعہ کے اجتماعات بھی منعقد کیے گئے ہیں اور جب پولیس نے ان نمازیوں کو روکنے کی کوشش کی تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگلے دن کی بات ہے کراچی کے علاقے پیر آباد کی ایک جامع مسجد میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی گئی۔ جس پر علاقہ ایس ایچ او نے موقع پر پہنچ کر انہیں روکنا چاہا تو نمازی حضرات نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور یہ خیال بھی نہ کیا کہ ایک خاتون پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔

واضح رہے مساجد کو بند کرنے سے پہلے حکومت نے تمام مکاتب فکر کے علما کو اعتماد میں لیا تھا اور ان سے مشورے کے بعد ہی یہ سارا لائحہ عمل اپنایا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ علماکی اکثریت نے اس بارے واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے کی بجائے گول مول بات کرنے کو ترجیح دی۔ میرا خیال ہے حکومت کو علماءسے رائے لینی ہی نہیں چاہیے تھی۔ بھلا حکومتی پالیسیاں بنانے میں ان علماکا کیا کام؟ حکومت کو اگر اتنا ہی شوق تھا تو وہ آئینی طور پر موجود اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرتی۔ لیکن ان عام علماسے رجوع بھی حکومت کی سیاسی مجبوری تھی کہ مذہب کے معاملے میں خود سے اٹھائے گئے اقدام کے نتیجے میں عوامی فضاء بھی خلاف ہو سکتی تھی۔ لیکن اس عفریت سے تو جان پھر بھی نہ چھوٹی۔ اور یہاں علماکے بارے میں کہوں گا کہ یہ ان کی بھی مجبوری تھی کہ واضح موقف اپنانے کے بعد وہ کس منہ سے اپنے معتقدین کے پاس جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اب وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا ہے کہ نماز تراویح کے لئے ہم پھر سے علما اکرام سے مشورہ کریں گے۔ یعنی کی گئی غلطی کو پھر سے دوہرایا جائے گا۔ جناب وزیر صاحب ! آپ اس صورت میں ان حضرات سے مشورہ کریں ،اگر پہلے ان کے مشورے سے کچھ فائدہ ہوا ہے۔ اور ویسے بھی ایک عام سوجھ بوجھ کا حامل شخص بھی اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ کسی بھی قسم کا اجتماع سراسر ہلاکت پر مبنی ہے تو نماز تراویح کو قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور ایسے میں اس پر کوئی دو رائے ہونی ہی نہیں چاہیے۔ ویسے بھی آپ جن حضرات سے مشاورت کی سوچ رہے ہیں یہ تو وہ لوگ ہیں جو کبھی ایک چاند پر متفق نہیں ہو سکے تو یہ حکومت وقت کو کیا ڈائریکشن دیں گے؟ اس لئے آپ کو چاہیے کہ خود دو ٹوک موقف اپنائیں اور نماز تراویح پر نیک نیتی سے پابندی عائد کریں۔ زندگی رہی تو یہ رمضان آتے ہی رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply