افغان مہاجرین کا بڑھتا عالمی بحران /قادر خان یوسف زئی

سوویت یونین کی افغانستان میں شکست کے بعد 14اپریل1988کو جنیوا معاہدے کے نتیجے میں بننے والی حکومت بنی لیکن بدترین خانہ جنگیوں کی وجہ سے افغان طالبان نے اقتدار حاصل کرکے قدامت پسند سخت گیر حکومت قائم کی۔ نائن الیون واقعے کے بعد امریکہ نے افغانستان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور دو دہائیوں بعد29فروری2020کو دوحہ معاہدے کے تحت فوجی انخلا ء مکمل کیا، عالمی برداری کی  توقعات کے برعکس افغان طالبان نے31اگست 2021کو افغانستان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا اور انہیں ماضی کے مقابلے میں سخت مزاحمت کا سامنا بھی نہیں ہوا۔ خانہ جنگی کے خدشات ظاہر کئے گئے تھے لیکن قوت کے بھرپور استعمال میں امریکہ جیسی عالمی طاقت کو افغانستان سے انخلا ء کرنے پر مجبور کرنے والے امارات اسلامیہ کے سامنے کوئی مخالف دھڑا کھڑا نہ رہ سکا اور تیزی کے ساتھ ملک سے فرار ہوگئے۔

یہاں قابلِ  ذکر امر یہ ہے کہ سوویت یونین کے قبضے اور بعد ازاں خانہ جنگی کے بعد لاکھوں مہاجرین نے پڑوسی ممالک میں پناہ لی۔ امریکہ کے ساتھ افغان طالبان نے پُر تشدد دور گزارا اور اس دوران بھی افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نقل مکانی کرتی رہی۔ جب امریکہ نے افغانستان سے مکمل طور پر انخلاء  کردیا تو اس کے بعد ایک پالیسی کے تحت ملک سے بڑی تعداد میں افغانیوں کو نکالا گیا۔

اقوام ِ متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق سال 2020 تک ایک اعشاریہ پانچ ملین افغان مہاجرین پاکستان گئے جب کہ ایران میں 7لاکھ 78ہزار،جرمنی میں ایک لاکھ 81ہزار، ترکی میں ایک لاکھ 29 ہزار، آسڑیا میں 46ہزار چھ سو،فرانس میں 45ہزار، یونان میں 41ہزار،سویڈن میں 31ہزار تین سو، سویٹرزلینڈ میں 15ہزار4سو، بھارت میں 15ہزار ایک سو، اٹلی میں 13ہزار 4سو، برطانیہ میں 12ہزار 6سو، آسٹریلیا میں 12ہزار 4سو، بیلجئم میں 8ہزار 9سو، انڈونیشیا میں 7ہزار6سو افغان مہاجرین نے پناہ حاصل کی۔ یو این ایچ سی آر کی مطابق دنیا بھر میں 2اعشاریہ6ملین افغان مہاجرین قانونی طور پر رجسٹرڈ ہیں جن میں سے2اعشاریہ2ملین افغانی صرف پاکستان اور ایران میں رجسٹرڈ ہیں (غیر قانونی مہاجرین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے) جب کہ افغانستان میں 3اعشاریہ5ملین افراد آئی ڈی پیز ہیں۔

نیٹو بلاک نے معمولی تعداد میں اپنے سہولت کار افغانیوں کو سخت گیر پالیسی کے تحت اپنے ممالک میں آباد کاری کا عندیہ دیا، تاہم اس وعدے پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ برطانیہ نے قریباً  20  ہزارفغان مہاجرین کو قبول کرنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن ابتدائی طور پر صرف پانچ ہزار افغان مہاجرین کی آباد کاری کے لئے پالیسی اپنائی اور یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ  باقی 15 ہزار افغان پناہ گزینوں کا مستقبل کیا ہوگا۔اس کے علاوہ جرمنی نے بھی افغان مہاجرین کو قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا، یہ تعداد زیادہ سے زیادہ 10 ہزار بتائی گئی لیکن اس پر بھی مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد1500کے قریب افغان مہاجرین ازبکستان میں داخل ہوئے اور خیموں میں رہ رہے ہیں۔ افغان طالبان ہنر مند اور تعلیم یافتہ شہریوں کے انخلا کے حامی نہیں ہیں لیکن ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ تحفظات کا شکار ہیں ۔

امریکہ نے افغان مہاجرین کے بحران میں پڑوسی ممالک کو بھی ان کا بوجھ اٹھانے کی اپیل کی تھی اور افغانستان کے پڑوسی کی حیثیت سے چین کو بھی یاد کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ نے چینی ترجمان ہوا چن ینگ سے اس بابت دریافت کیا کہ کیا چین افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے، اس پر ہوا چن ینگ نے محتاط رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ”افغان مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کو افغان دھڑوں کو بات چیت اور مذاکرات میں مدد کرنی چاہیے، تاکہ افغانستان اب تنازعات اور جنگیں نہ کرے، جس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مزید مہاجرین نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ، افغان طالبان حکومت کو جنگ کو روکنے اور آبادی کو ”مستحکم” کرنے کی اجازت دیتے ہوئے، اقتدار کی ہموار منتقلی کے حصول کے لئے ایک جامع سیاسی فریم ورک قائم کرنے کی ضرورت ہے“۔

پاکستان، ایران نے مزید بڑے بوجھ اٹھانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن اس کے باوجود ایک بڑی تعداد پہلے سے رہنے والے افغان مہاجرین کی سہولت کاری کی وجہ سے داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم افغانستان کی سرحد سے جڑے ملک چین میں افغان مہاجرین پناہ لینے کے لئے کسی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے داخل نہیں ہوئے، با الفاظ دیگر مہاجرین کی ترجیحات میں چین شامل ہی نہیں اور افغانستان سے سرحد ملنے کے باوجود پناہ نہیں لینا چاہتے۔ افغانستان کے ساتھ چین کی سرحدواخان کوریڈور، اس راہداری کا رقبہ تقریباً 400 کلومیٹر ہے، جو مشرق مغرب میں ہے اور چین میں 100 کلومیٹر ہے۔ جغرافیائی محل وقوع میں اس کا ماحول بہت سخت اور راہداری بہت تنگ ہے، اس راہداری کا ایک حصہ اکثر برفانی پہاڑوں سے ڈھکا رہتا ہے اور ناقابل رسائی ہے، اعداد و شمار کے مطابق، برفانی پہاڑی احاطہ میں، سال کے صرف دو مہینے گزار سکتے ہیں اپنے سخت قدرتی ماحول کی وجہ سے اس راہداری کا کوئی ٹھوس استعمال نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی پناہ گزین چین نہیں آیا۔ افغان مہاجرین نے پاکستان اور ایران کا رخ اپنے مذہبی و روایتی رجحان کے باعث کیا۔ جب کہ دیگر ممالک میں ترقی یافتہ معیشت کی وجہ سے کسی بھی طریقے سے داخل ہونے والے افغان مہاجرین نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کا رخ کیا۔ نیز افغان ن مہاجرین نے سخت قوانین کی وجہ سے عرب ممالک سمیت چین کو بھی ترجیح نہیں دی اور زیادہ تر افغان مہاجرین کا رخ مغربی ممالک کی طرف رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

افغانستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی سِرے پر ایک زمین سے گِھرا ہوا ملک ہے، ملک کا 4/5 حصّہ پہاڑی اور سطح مرتفع ہے، جبکہ جنوب مشرقی سرحدیں جنوبی ایشیائی برصغیر، شمال مغربی وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا سے ملتی ہیں، اس کا خصوصی جغرافیائی محل وقوع اور خطہ، اسے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے درمیان مواصلاتی شریان بناتا ہے، جنگیں افغانستان کی تاریخ کا حصہ ہیں، حملہ آوروں کا بار بار حملہ، طویل جنگیں اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔7اکتوبر 2001 ء کو امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی جنگ کے نتیجے میں افغانی، جنگ کی آگ سے بچنے کے لئے ہر جگہ فرار ہوگئے، زیادہ تر سرحد کی طرف، اور جنگ کے اثرات اور بنجر قدرتی ماحول نے 3.5 ملین سے زیادہ افغانوں کو فرار ہونے اور پناہ گزین بننے پر مجبور کیا اگرچہ افغانستان کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور واخان کوریڈور کی باؤنڈری لائن بھی موجود ہے لیکن چین افغان مہاجرین سے متاثر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی پناہ گزین چین آیا۔ ثقافتی اختلافات بھی ناگزیر ہیں چین افغان مہاجرین کے لیے روایتی پناہ گاہ نہیں ہے اور چینی پناہ گزین عام طور پر صرف جزیرہ نما کوریا اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہی نظر آتے ہیں کیونکہ یہ مقامات چین کے قریب ہیں اور چین کے روایتی رسم و رواج اور ثقافت سے زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ اور افغانستان میں زیادہ تر پناہ گزین مشرق و مغرب کے ہمسایہ ممالک، پاکستان اور ایران کی جگہیں ان کی بقا کے لیے موزوں ہیں، اور وہ صرف مقامی علاقے میں کچھ انتہائی نچلی سطح کی نوکریاں کرتے ہیں اس کے لئے بھی غیر قانونی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک چھوٹی سی تعداد اقتصادی طاقت اور تعلقات کے پس منظر کی وجہ سے ترقی یافتہ یورپی اور امریکہ گئے، انہیں افغانستان کی اشرافیہ سمجھا جا سکتا ہے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے نزدیک امریکہ، برطانیہ یا یورپ میں انہیں مستقل سکونت مل سکتی ہے اور شورش زدہ افغانستان سے زیادہ انہیں اُن ممالک میں فوری جگہ مل سکتی ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی حیثیت اور مرتبہ زیادہ ہو جاتا ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply