ڈپریشن سے نجات کے آسان طریقے /ثاقب لقمان قریشی

انسان زمین پر لاکھوں سال  سے آباد ہے۔  انسانی آبادی طویل عرصے تک زمین پر پائے جانے والے عام جانداروں کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتی رہی۔ زمین پر انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ اس وقت ہونا شروع ہوا جب انسان نے کھیتی باڑی کرنا شروع کی۔ یہ زمانہ کوئی بہت زیادہ قدیم نہیں بلکہ دس بارہ ہزار سال پرانی بات ہے۔ انسانی آبادی میں دوسرا بڑا اضافہ چار پانچ سو سال پہلے صنعتی انقلاب کے دور میں ہونا شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں نئی صنعتیں لگیں، نئے اوزار ،کام کے نت نئے طریقے دریافت ہوئے۔ اس دور میں میڈیکل سائنس نے بھی ترقی کی۔ جس کے نتیجے میں انسان کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ہُوا۔

زمین کے وسائل اپنی جگہ اتنے ہی ہیں لیکن انسانی  آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2021 کے اختتام تک دنیا کی کُل آبادی سات عشاریہ آٹھ ارب تھی۔آبادی میں اضافے کی وجہ سے زمین کے وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مقابلے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

ہم نے جس صدی میں آنکھ کھولی اسے ڈگری کی صدی کہا جاتا تھا۔ انسان ڈگری کر لیتا تھا تو اسے نوکری مل جاتی تھی۔ موجودہ صدی میں حالات مختلف ہیں۔ اس صدی کو نئے خیالات کی صدی کہا جاتا ہے۔ اس صدی میں بہتر زندگی جینے کیلئے کچھ نیا کرنا پڑے گا۔

مقابلے کے اس دور نے جہاں ایک طرف انسان کی طرزِ  زندگی کو بہتر بنایا ہے تو دوسری طرف بہت سے ذہنی اور جسمانی مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔

میں نہ تو ماہرِ  نفسیات ہوں اور نہ ہی موٹیویشنل سپیکر لیکن میں بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مسائل سے نجات دِلا چکا ہوں۔ جسمانی بیماریوں کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ باآسانی ظاہر ہو جاتی ہیں جن کے بعد ان کا علاج اور احتیاطی تدابیر شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے برعکس نفسیاتی مسائل نہ تو ظاہری طور پر نظر آتے اور نہ ہی ان کی شدت کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے۔ صرف انسان کی باتوں اور حرکات سے اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سات سال قبل میں ڈپریشن کا شکار ہُوا۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے میں نے نفسیاتی مسائل کو پڑھنا شروع کیا۔ معذور افراد کا ہر نیا دن ایک نئی جنگ کی طرح شروع ہوتا ہے اس لیے ہم لوگ ماضی میں نہیں رہتے۔ مجھے نہ تو ماضی کے کسی واقعے پر ندامت تھی اور نہ ہی مستقبل کا خوف تھا۔ خیر میں چند ماہ بعد ڈاکٹر کے پاس گیا ،بلڈ پریشر چیک کروایا تو وہ کچھ  زیادہ تھا۔ پھر کچھ ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ کولیسٹرول لیول ہائی تھا۔ پھر میں نے کولیسٹرول کی وجوہات کو پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ میری طرز ِ زندگی درست نہیں ہے۔ میں اس زمانے میں پانی کے شاید تین چار گلاس جبکہ چائے آٹھ سے دس کپ پیتا تھا۔ میں بچپن سے باقاعدگی سے ورزش کرتا ہوں، فرائی چیزیں نہیں کھاتا، خوراک سادہ اور نارمل استعمال کرتا ہوں۔ لیکن پانی کی کمی نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

پڑھنے والوں کو میرا پہلا مشورہ یہ ہے کہ جب تک ہم جوان اور تندرست ہوتے ہیں اس وقت تک ہمارا جسم اپنے ساتھ کی جانے والی تمام کوتاہیوں کو برداشت کرتا رہتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب جسم غلطیاں برداشت نہیں کرتا۔ اس لیے متوازن غذا کا استعمال کریں اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ جسم کے بنیادی ٹیسٹ ضرور کروائیں جس سے آپ کو جسم کے اندر ہونے والی کمی بیشیوں کا اندازہ ہوگا اور آپ محتاط طرزِ زندگی اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔

چار سال قبل میں نے محسوس کیا کہ ایک دوست معمولی سی باتوں پر زیادہ پریشان ہو جاتا ہے۔ وجوہات جاننے کی کوشش کی تو اس نے انکار کر دیا۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے کہا میں ڈیڑھ سال سے ماہر نفسیات سے دوائی لے رہا ہوں فرق نہیں پڑ رہا۔ میں نے کہا میں آپ کو چند مشورے دوں گا جن پر عمل کرکے آپ دو ہفتوں میں ڈپریشن سے نجات حاصل کر سکتے ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

واک یا ورزش
جسمانی سرگرمیوں کے دوران ہمارا جسم محنت کر رہا ہوتا ہے اس دوران جسم سے مثبت مادے خارج ہوتے ہیں۔ جو فیصلہ سازی اور حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت فراہم کرتے ہیں۔ میں نے اسے کہا آپ نے آدھا گھنٹہ واک کرنی ہے اور اکیلے کرنی ہے اور اس دوران گانے نہیں سننے۔ کیونکہ یہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے گانے مثبت سوچوں کے راستے میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔
میڈیٹیشن
موجودہ دور میں ہم نے اپنی زندگی کو اتنا مصروف کر لیا ہے کہ ہمارے پاس اپنے لیئے ہی وقت نہیں ہے۔ میں نے دوست کو مشورہ دیا کہ صبح یا رات کے وقت اپنے آپ کو کم از کم بیس منٹ تک کسی کمرے میں بند کر لینا ہے۔ جسم کو ڈھیلا ڈھالا کرکے آنکھیں بند کرکے بیٹھ جانا ہے۔ کوشش کرنی ہے کہ ذہن میں کوئی سوچ نہ آئے۔ اگر سوچ آئے بھی تو وہ اس دن یا آنے والے دن سے متعلق ہونی چاہیئے۔ ماضی اور مستقبل سے متعلق نہیں ہونی چاہیے۔
ڈائری لکھنا
ڈائری لکھتے وقت ہمارا ذہن، نظریں اور جسم کاغذ کے ایک ٹکرے پر موکوز ہوتے ہیں۔ ذہن کا گرد و غبار نکالنے کا سب سے اچھا طریقہ ڈائری لکھنا ہے۔
سیلف ہیلپ پر کتابیں پڑھنا
ہمارے ذہن میں ہر وقت خیالات کے انبار لگے رہتے ہیں۔ یہ ہر وقت بھٹکنے کیلئے تیار رہتا ہے اسلیئے ہر تین سے چھ ماہ بعد ہر شخص کو سیلف ہیلپ پر کوئی کتاب یا کوئی بڑی ڈاکومینٹری دیکھنی چاہیئے۔ اس سے ذہن کو لگام ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔
لوگوں کی مدد کرنا
ہمیں دن میں کوئی ایسا کام کرنا چاہیئے جس سے کسی کی مدد ہوسکے۔ یہ کام دکھاوے، تعریف یا پیسے کیلئے نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ کرنے سے ہمارا ذہن مطمئن رہتا ہے۔ ہمیں اپنے جینے کا مقصد سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
یکم جنوری کو ہمارے دوست کی شادی ہوئی ہے۔ یہ نوکری بھی کرتا ہے۔ کاروبار بھی کرتا ہے اور دن میں ایک گھنٹہ رننگ بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ  اسے آنے والے دنوں میں ڈھیروں خوشیاں نصیب فرمائے۔
یہ ہے وہ طرزِ زندگی جس کو اپناتے ہوئے ڈپریشن سے بچا بھی جاسکتا ہے اور نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply