مقبوضہ کشمیر میں تانڈو ناچ

مقبوضہ وادی کشمیر میں مخدوش صورت حال کے بیچ ایک کے بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہو رہا ہے جس سے پوری وادی متاثر ہو کر جیسے پابند سلاسل کی جا رہی ہے۔ چنانچہ حالیہ ماہ کے دوران کشمیر میں وہ طالب علم جو سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آئے ، جس کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں طالب علم زخمی ہو گئے۔ حتیٰ کہ کئی ایک کو گرفتار بھی کیا گیا۔ یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے تاہم اسے قابو میں کرنے کے لیے حکومت نے وادی میں چل رہے ان تعلیمی اداروں کو فی الحال مقفل کر دیا تآنکہ حالات کسی قدر سدھر جائیں ۔ اس کے لیے پوری وادی کو پچھلے زمانے کی طرف دھکیلنے کے لیے یہاں چل رہے ہیں انٹرنیٹ کو بھی تالا بند کر دیاگیا ۔ تاہم ابھی تک حالات سدھرنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہاں وادی کشمیر میں ایسے دعوے کرنا کہ حالات سدھر رہے ہیں ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ۔ حالیہ ماہ کی 9تاریخ کو وادیٔ کشمیر میں ضمنی انتخابات کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس دوران یہاں 9جانوں کا نقصان ہوا ، سینکڑوں کی تعداد میں زخمی اور درجنوں کے قریب گرفتار کر لیے گئے۔ لیکن حالات تبدیلی و بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہی ہوتے جا رہے ہیں ۔ بہر حال یہاں وادی کشمیر میں کسی بھی قسم کے انتخابات میں زرخرید ووٹ ڈلوا کر امن کا خواب دیکھنا خواب خرگوش والی بات ہے کیوں کہ آج کی اس دنیا میں ووٹ جو بھی ڈالتا ہے اس کے پیچھے کوئی جذبۂ قومیت نہیں بلکہ اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ بات زبان زد عام ہے کہ آج کے لوگ ووٹ ڈالنے سے قبل ہی اپنے ووٹ کا مول دیکھ لیتے ہیں اور جس کے ذریعے سے جتنا ’’دھن‘‘ وصول ہو سکتا ہے اسے اپنا ووٹ دے دیتے ہیں ۔ ایک طرف اگر اس صورت حال کا سامنا ہے تو دوسری طرف ایک بہت بڑا طبقہ جو ذی حس لوگوں پر مشتمل ہے وہ اس ووٹنگ کے نام سے ہی دور جا بیٹھتے ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ یہ رائے دہندگی کا استعمال کر کے انہیں اگرچہ وقتی طور پر کچھ حاصل ہو جائے گا لیکن اصل میں ان کا یہ ووٹ ڈالنا ہی فضول مشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طبقہ ووٹ نہ ڈالنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ جموں وکشمیر میں حال ہی میں جو نامنہاد پولنگ کا پہلا مرحلہ ۹؍ اپریل کو ہوا اس کے نتیجے میں سرینگر،بڈگام اور گاندربل اضلاع میں نہ صرف ہو کا عالم رہا بلکہ بھارت نواز کشمیری لیڈران نے بھی برملا اس بات کا اظہار کیاکہ ’’موجودہ حکومت پرامن ماحول میں پولنگ کرانے میں ناکامیاب ہو گئی۔‘‘ اس دوران دن بھر وادی میں کرفیو جیسا منظر سامنے آیا کیوں کہ لاکھوں کی تعداد میں فوج ، پولیس اور نیم فوجی دستے گلی گلی اور کوچے کوچے پر تعینات کر دئے گئے تھے۔ جن کی وجہ سے ہی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پھر زخمی ہو گئے اور ہزاروں نوجوانوں کوگولیوں ، پیلٹ اورپاوا کے استعمال کا تحفہ دے کر تین سو کے قریب زخمی کر دئے گئے جب کہ 9 نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ یہ اس ووٹنگ کا پہلا مرحلا تھا، جس میں نہ کوئی مقصد کارفرما تھا اور نہ ہی اس سے کوئی مسئلہ کا حل ہو سکتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ ڈرامے بازیاں یہاں وادی ٔکشمیر میں صرف اس لیے کی جا رہی ہیں کہ یہاں پر اپنی غاصبیت برقرار رہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جونکنے کی یہ ایک ناکام کوشش ہے جس کا پہلا سیریل 9؍ اپریل کو ہوا اور دوسرا 12؍ اپریل کو ہونا تھا تاہم یہاں حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے فی الحال 25مئی تک ملتوی کر دیا گیا۔بلکہ اب جس کے بارے میں اندرونی رپورٹوں کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ فی الحال انتخابات کی اس دورسری نشست کے مرحلہ کو التوا میں رکھا جائے گا۔ جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن پارٹی کے لیڈر جناب فاروق عبداللہ نے اس تناظر میں اپنی زرخرید زبان سے اس بات کا کھل کر اعلان کیا کہ ’’جموں وکشمیر کی موجودہ مخلوط حکومت پرامن ماحول میں پولنگ کرانے میں ناکامیاب ہو گئی‘‘ انہیں شاید یہ بات یاد ہی نہیں ہے کہ انہوں نے وادیٔ کشمیر میں کب ایسا ماحول پایا جو نامنہاد ووٹنگ کے لیے سازگار تھا۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے وجود سے لے کر آج تک حکومت ہند کی پیروی میں ہی تو زندگی گزاری ہے۔ 1994 ء میں کشمیری عوام کو اپنے حق ’’حق خود ارادیت‘‘ سے روکنے اور اس تحریک کو دھبانے کی ناکام کوشش کے طور پر یہی لوگ سامنے آئے تب کون سا ایسا ماحول قائم تھا جسے امن اور آشتی کا ماحول کہا جاسکتا ہے؟ دراصل یہ ان ہند نواز سیاسی لیڈروں کی ڈرامہ بازیاں ہیں جو نہ صرف پورے اقوام عالم کو بلکہ بھارت دیس سے وابستہ تمام ریاستوں میں رہنے والے لوگوں کو غلط انداز سے دکھا رہے ہیں ۔ تاکہ اپنی کرسی اور اپنا اَنا برقرار رہے۔ زرخرید اور مفاد پرست ان سیاسی لیڈروں کی بے شرمی دیکھئے جو ’’موجودہ حکومت پرامن ماحول میں پولنگ کرانے میں ناکامیاب ہو گئی‘‘ کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جموں وکشمیر کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا۔ جنہوں نے یہاں کے لوگوں کو اس بات کا اصل سبق سکھایا کہ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت کہتے کسے ہیں ۔ وقت وقت پر اپنی زبان کو بدل بدل کر عوام کو دھوکہ دیا، تاکہ اپنی کرسی برقرار رہے ،چاہے لوگ مرے یا جئیں ۔ جموں وکشمیر میں ’’اخوان ‘ ‘(سرکار نواز بندروق بردار) کا وجود کس دور میں ہوا؟ ٹاسک فورس کن کی ایجاد ہے؟ یہاں فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں کو لاکر کشمیر سے وابستہ لوگوں کی جانیں تلف کرانے کا ذریعہ کون لوگ بنے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو آج ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ،جو برابر ان کی ہی اپنی پالیسی ہے کہ وہ وادی کشمیر میں جمہوریت اور انسانیت کا قتل کر رہے ہیں ۔ بہر حال وادی کشمیر کے لوگوں کا ان سے کوئی کام نہیں ، بلکہ ان جیسے زرخرید سیاسی لیڈروں سے کوئی امید رکھنا تو دور کی بات ہے ان پر کسی بھی قسم کا بھروسہ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جموں وکشمیر کے لوگ کر رہے ہیں ۔ ان کے مگرمچھ کے آنسو جب بھی بہتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ آنسوئوں کا ریلا انسانیت کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کو ختم کرنے کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ جمہوریت اور امن کے ماحول کی باتیں کرنے والے شاید اپنی حرکتوں سے ذہنی طور واقف نہیں ؟ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ ان کی بھارت نوازی کی راہ اختیار کرنے سے انسانیت کا خون کتنا بہایا جا چکا ہے۔ وادی میں ہندنواز سیاسی لیڈران جو جموں وکشمیر کے ہی باشندے ہیں لیکن ان کی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کشمیری ہو کر غیر کشمیریوں کے استحکام کی سوچ رہے ہیں ، یہاں موجود انسانیت کا خون بہا کر ان لوگوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارا کشمیر پر تسلط برقرار رہے۔ یہ سیاسی لیڈر شاید اپنے اندر وہ دل اور وہ عقل نہیں رکھتے جس کا ایک عام انسان میں ہونا ضروری ہے۔ انسان فطرت کے اعتبار سے اپنی قوم کا وفادار ہوتا ہے، وہ چاہے عام انسان ہو یا خاص لیکن جموں وکشمیر میں یہ ٹولہ اس قدر ذہن وقلب سے خالی ہے کہ انہیں اپنی کرسی کے حصول کی خاطر یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم کن کا لہو بہا رہے ہیں ؟ کشمیر میں رہ کر کشمیری ہونے کا دعویٰ کر نے والے ’’(گھر کے بھیدی) اپنے ہی گھر کو جلا رہے ہیں ، اپنے ہی گھر سے وابستہ افراد کی جان کے درپے ہیں ‘‘ کیا سچ مچ ان کے ذہن وقلب میں حس باقی نہیں رہی؟ حال ہی میں جو نامنہاد پولنگ کا ڈراما کھیلا گیا جس میں سات فیصد کے قریب ووٹنگ ہونے کا دعویٰ کیا گیا، ان کے اسی دعویٰ کو ہی تسلیم کرتے ہوئے اگر بھارت نواز موجودہ مخلوط سرکار سے سوال کیا جائے کہ کیا یہ شرحِ ووٹنگ ان کی آنکھوں کو کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ کشمیر کا بچہ ، بوڑھا اور جوان چاہے وہ مردہو یا عورت، نہیں چاہتا ہے کہ ان کا مستقبل بھارت سے وابستہ رہے؟ کبھی یہی زرخرید سیاست دان بھارت کی رضامندی کے لیے یہاں وادیٔ کشمیر کی حالت کو بدامنی میں تبدیل کرنے والوں کی تعدادپانچ فیصد کہہ دیتے ہیں لیکن جب بقول ان کے ہی سات فیصد لوگ ہی پولنگ کا حصہ بنتے ہیں تب ان کے منہ پر تالے چڑھے رہتے ہیں ، اس وقت یہ نہیں کہتے کہ 93؍ فیصد لوگ ہم سے ناراض ہیں ، وہ ہمیں پسند ہی نہیں کرتے، وہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں نہ کہ کسی بناوٹی پولنگ کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب حقیقت پر سے پردہ اٹھ جاتا ہے تو ان پر جیسے سانپ سونگ جاتا ہے ۔ پانچ فیصد کے مقابلے میں 93؍ فیصد کی عمل کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتنی بے وزنی بیان بازی ہے جو ان کے ذریعے سے وقت وقت پر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں جموں وکشمیر کی مخلوط سرکار کی کرسی پر براجمان محبوبہ مفتی صاحبہ نے اپنی ایک مخصوص مجلس میں زرخرید پارٹی ورکروں کو سنگ بازوں کے سامنے نہ جھکنے اور باہر آکر ووٹ دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جس طرح بندوق کلچر ختم ہو گیا اسی طرح پتھرائو کلچر بھی ختم ہو جائے گا، لہٰذا آپ کو لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ‘‘ اسی طرح ایک اور بیان میں بھارت کے فوجی سربراہ اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بیان جس میں پتھرائو کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی پر کہا کہ ’’کشمیر ایک سال میں ہی بدل جائے گا، پتھرائو کرنے والے ناقابل برداشت ہیں اور سنگبازوں کو نتائج بھگتنے ہوں گے۔‘‘ ان جیسے تقاریر کے حاشیہ کو سن کر ایک عام انسان سے لے کر ایک معصوم بچہ بھی ہنس دیتا ہے کیوں کہ بیان بازاکثر وبیشتر بیان بازی کرتے ہوئے چوک جاتے ہیں ، انہیں خیال ہی نہیں رہتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں ۔ محبوبہ مفتی صاحبہ، فوجی سربراہ بپن راوت اور راج ناتھ سنگھ سے اگر سوال کیا جائے کہ اگر ان بندوق برداروں کا کلچر ختم ہو گیا ہے ، ان سنگ بازوں اور احتجاجی لوگوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یا انہیں دھمکی دینے سے ہی کشمیر کے حالات جلد ہی تبدیل ہو سکتے ہیں تو وادی میں یہ 10 لاکھ فوج کس لیے؟ بندوق اگر صرف 150افراد کے ہاتھوں میں ہے تو یہ پورے بھارت بھر میں خوف طاری کیوں ؟کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ ’’جب کسی شخص یا قوم و ملک کے حکمران کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ اپنی زبان سے کیا کہہ رہا ہے، تو عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ قوم کی نائو خطروں کے بھنور میں آچکی ہے۔ کیوں کہ جس طرح ایک اناڑی شخص کے ہاتھ میں گھر کی بھاگ ڈور رکھنا تباہی والا قدم ہے ،اسی طرح ایک ایسے شخص کو ذمہ داری کے قابل سمجھنا جسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کب کیا زبان پر لا رہا ہے بڑے خطرے کی نشانی ہے۔ اگرچہ اس میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی شاطرانہ بول چال سے لوگوں کو دھوکے کا شکار کر دیتے ہیں تاہم زبان جب تک دھوکہ دے سکتی ہے تو دے لیکن اس دھوکے میں بقا نہیں ہوتی، ایک نہ ایک دن اس کا واضح ہونا طے ہے۔ تب یہی قوم اور یہی لوگ جو ان کی ہاں میں ہاں میں ملایا کرتے تھے اس کے باغی اور دشمن بن جاتے ہیں کیوں کہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ’’وہ جسے سمجھ بیٹھے تھے نافع ،وہی قوم کے دغاباز نکلے۔‘‘ آج بھارت کی مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیرکی مخلوط سرکار کو اسی مرض میں مبتلا پایا جا رہا ہے، انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ کب کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے؟ حالیہ پولنگ کے بعد انسانی جانوں کے ساتھ کھیل کر جب 9نوجوانوں کی موت واقع ہو جاتی ہے تو بناوٹی رنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ’’ جن نوجوانوں کی موت واقع ہوئی ہے ان میں اکثر نوعمر ہیں جو مسائل کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔‘‘ اس پر مزید کہتے ہیں کہ ’’امن کے لیے تشدد کا راستہ نہیں بلکہ امن وامان کے ماحول کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ جب 100میں 7؍افراد زرخرید پولنگ کے میدان میں آجائیں تو اس وقت کی یہ بیان بازی کہ ’’وقت کی ضرورت ہے کہ سبھی لوگ ایک ساتھ آگے آئیں اور تشدد کے اس چکر کو روکنے میں ہماری مدد کریں ۔‘‘ کرنا ان کی شایان شان نہیں ۔ اصل حقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش میں یہ حکمران خود ہی پردہ اٹھانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ جموں وکشمیر کی اصل صورت حال کیا ہے اس کا جواب آئے روز یہاں ہو رہے واقعات سے پوری دنیا کوپہنچ رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ آج پوری دنیا کی نظروں میں آچکا ہے، البتہ اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے اقوام عالم بشمول مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ورنہ مسئلہ کی نوعیت سے اقوام عالم کا ایک ایک شہری پوری طرح سے واقف ہیں۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply