کیا مذہب کا محرک خوف ہے؟/ڈاکٹر اظہر وحید

ڈاکٹر ناصر رضا اعوان کے گروپ کے ایک رکن کہ ہمارے ہم جماعت کے چچا ہیں، یورپ میں ایک عرصے سے مقیم ہیں، ایک عام پاکستانی کی نسبت کافی زیادہ خوش حال زندگی گزار چکے ہیں، وہاں گورنمنٹ کے اداروں میں بطور کنسلٹنٹ کام کر چکے ہیں، وہ اپنی اس تحقیق پر مصر ہیں کہ مذہب کا بنیادی محرک خوف ہے۔ محترم المقام انکل خود گویا ہیں کہ عرصہ پچھتر برس تک ایک لادینی رجحان کے ساتھ زندگی گزارنے کے بعد جب مذہب پر تحقیق کا شوق پیدا ہوا تو انہوں نے مذاہب کی تاریخ پڑھنا شروع کی، جس کے بعد ان پر یہ انکشاف ہوا کہ انسان خوف کے زیر اثر ہی مذہب اور خدا کے تصور کے طرف راغب ہوا ہے۔ ازاں بعد انہوں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا تو اس تحقیقی نکتے پر ان کا یقین مزید پختہ ہو گیا، کیونکہ قرآن میں متعدد جگہ پر ”تقویٰ“ اختیار کرنے کا حکم ہے، اور تقویٰ کا ترجمہ ہر جگہ انہوں نے ”ڈرنا“ ہی پڑھا ہے۔ مزید براں یہ کہ قرآن سے انہیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ دراصل ایک بہت بڑی قوت ہے، ایک بہت بڑا شعور ہے، جس نے فطرت کے قوانین اور ضابطے بنائے اور اس کائنات کو ان ضابطوں پر چلنے کی تدبیر کی۔

ہمارے دوست کے انکل ہمارے بھی انکل ٹھہرے، اور میں اپنے تمام انکلان کا دل کی گہرائی سے احترام کرتا ہوں۔ اس احترام میں یقین مانیں کسی خوف یا ڈر کا عنصر ہرگز شامل نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اپنے دوستوں کے بزرگوں کا اسی طرح احترام کروں، اسی طرح ادب کروں، ان کے سامنے ایسے ہی عجز و انکسار اور اخلاق کا مظاہرہ کروں جس طرح میں اپنے خاندان کے بزرگوں کا کرتا ہوں۔ حاشاوکلا! میں ان میں سے کسی سے ڈرتا ورتا بالکل نہیں، اور مجھے ذرہ برابر بھی ان سے خوف نہیں۔ بس مجھے بزرگ چہروں کا احترام کرنا اچھا لگتا ہے۔ جس طرح ایک معصوم بچے کی چہرے کا مطالعہ اچھا لگتا ہے، اسی طرح بزرگ چہروں کی زیارت بھی میرے دل کو اچھی لگتی ہے، شاید یہ میرے دل کی غذا ہے، میرا دل اس سے تقویت حاصل کرتا ہے۔ جب میں چہروں کی زیارت میں مصروف ہوتا ہوں تو سوچنا بھول جاتا ہوں۔ میرے اردگرد لوگ، ظاہر کی نظر سے دیکھنے والے، میرے دل کے حال سے بے خبر لوگ سمجھتے ہیں، شاید میں ڈر گیا ہوں، سہم کر رہ گیا ہوں، شاید کسی نادیدہ خوف کی وجہ سے سراسمیہ ہو گیا ہوں، شاید کسی ڈر نے میری زبان گنگ کر دی ہے، حالانکہ میری دل کی کیفیت سے آگاہ دوست، جنہیں میں اہلِ دل کہتا ہوں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ شخص حیرت میں ہے، ایک کیف، کیفیت اور وارفتگی میں ہے، اب یہ دلیل اور منطق کی دنیا سے آزاد ہو چکا ہے، یہ سبب اور نتیجے کی سائنس سے باہر نکل چکا ہے۔

بڑے ادب سے گزارش ہے کہ مذہب کی طرف راغب ہونے کا بنیادی عنصر اگر خوف اور ڈر ہے تو اس کا لامحالہ مطلب یہ ہوا کہ مذہبی لوگ خوفزدہ اور ڈرپوک لوگ ہوتے ہیں۔ کیا ڈرے ہوئے لوگ قابلِ بھروسہ ہوتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اہلِ مذہب میں کوئی بہادر نہ پایا جائے گا، کہ بہادر لوگ تو مذہب کی طرف راغب ہونے کے بنیادی وصف یعنی خوف سے مامون و محفوظ ہیں۔ تاریخ کے اوراق سے مذہب وصول کرنے والوں نے ان اوراق کو کس طاقِ نسیاں میں رکھ دیا ہے جن میں خیبر، بدر اور کربلا کی تاریخ رقم ہے۔ حضرت بلالِ حبشیؓ آخر کس ”خوف“ کے زیرِ اثر ظالموں کا ظلم سینے پر سہتے تھے اور ”احد احد“ کہتے تھے؟ سرفروشی مذہب فروشوں کے ہاں نہیں پائی جاتی اور نہ مذہب سے برگشتہ لوگ کسی رن میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ خوفزدہ شخص تو نظریہ ضرورت کی قید میں ہوتا ہے، وہ زمینی حقائق کو ”آسمانی حکم“ سمجھ کر قبول کر چکا ہوتا ہے۔ اقبالؒ نے بھی خوب تاریخ اور فلسفہ پڑھا تھا، مغربی فلسفہ و تاریخ اس کا خاص مضمون تھا، وہ تھا ہی ڈاکٹر آف فلاسفی…. معلوم نہیں اس نے کس بنیاد پر ”شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن“ کہہ دیا اور یہ بھی کہ ”مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“۔ بہرطور اقبالؒ کی بلند اقبالی ایک الگ موضوع ہے، اس سے اقتباسِ بیان تو کیا جا سکتا ہے، شاید اکتسابِ فیض نہیں، کہ اکتسابِ فیض کے لیے بہت زیادہ حوصلہ چاہیے…. اس کے لیے بندے کو ماننا پڑتا ہے…. اللہ کو ماننے کے لیے اللہ کے بندے کو ماننا پڑتا ہے۔ اقبالؒ سے کسی مغربی مفکر نے پوچھا تھا کہ وہ کس دلیل پر خدا کو مانتے ہیں تو اس کے جواب میں اقبالؒ نے کہا کہ میں خدا کو صرف اس لیے مانا ہوں کہ ہمارے رسول محمد نے کہا ہے کہ خدا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اقبالؒ ایسا فلسفی اور محقق خدا کے ہونے پر بے شمار دلیلیں پیش کر سکتا تھا، سائنس فلسفے اور منطق کی مدد سے اسے لاجواب کر سکتا تھا، لیکن اس نے اپنی عقل کو خاموش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا۔ اس نے خدا پر یقین کی بنیاد تاریخ پر رکھی، نہ فلسفہ اور نہ کوئی دلیل، بلکہ اپنے ایمان کی دلیل محمد مصطفیٰ کی ذات بنائی:
اب دلیلوں کی کوئی ضرورت نہیں
جب دلیلِ خدا آپ کی ذات ہے

عجیب بات ہے، ہم سائنسی علم کو سائنس کے مورخین سے نہیں لیتے بلکہ سائنسدانوں سے لیتے ہیں، میڈیکل نالج کو بھی میڈیکل سپیشلسٹ سے لیتے ہیں، ہسٹری آف میڈیسن لکھنے والوں سے وصول نہیں کرتے۔ حیرت ہے، ہم مذہب کو مورخین سے کیسے لے لیتے ہیں؟ صاحبانِ فہم و دانش مذہب کو براہِ راست مذہب پیش کرنے والوں سے لیتے ہیں۔ تاریخ مورخ کا بیان ہے، مورخ بدل گیا تو بیان بدل جائے گا۔ تاریخ میں ظالم بھی گذرے ہیں اور مظلوم بھی! ظالم کے تنخواہ یافتہ مورخین کا بیان اور ہے اور ظلم جھیلنے والوں کا بیان اور! کتاب اور صرف کتاب کافی ہوتی تو دین میں تفرقے پیدا نہ ہوتے۔ کتاب میں حقیقت کا بیان ہے، حقیقت بذاتِ خود نہیں۔ حقیقت کا بیان سننے والا اسے اپنی فہم کے مطابق سمجھے گا…. ممکن ہے حقیقت سے مختلف سمجھ لے۔ بیانِ حقیقت اور حقیقتِ بیان دو مختلف چیزیں بھی ہو سکتی ہیں۔ کتاب اور صرف کتاب تو سائنس کی دنیا میں بھی ناکافی ٹھہرتی ہے۔ ورائے سائنس کسی جہان کی حقیقت سمجھنے کے لیے صرف کتاب پر اکتفا کرنا ناسمجھی ہی ٹھہرے گا؟ کتاب کو جب صاحبِ کتاب سے جدا کر لیا جائے تو ”اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ“ کا محاورہ ایک تلخ تجربہ بن کر سامنے آتا ہے۔ دین کو قرآن سے لیں اور قرآن کو صاحبِ قرآن سے۔

دین اسلام سمجھنے کے لیے تاریخی کتب پڑھنے کے بجائے سیرت کا مطالعہ کریں۔ مفہومِ دین بھی سمجھ میں آ جائے گا اور روحِ دین بھی عیاں ہو جائے گی۔

ہم بعض تراجم پر بغیر تحقیق کے، اندھا اعتقاد dogmatic belief کر لیتے ہیں، لفظ کی حقیقت تک نہیں پہنچتے…. لفظ کا اصل مفہوم آنکنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ لفظ ایک علامت ہے اور علامت کسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے، اس اشارے سے درست سمت دریافت کرنا مسافر کا اپنا کام ہے۔ لازم نہیں کہ علامت کا ترجمہ درست سمت کا تعین بھی کرے۔ اسی لیے ٹریفک اشاروں پر صرف لفظ نہیں لکھے جاتے بلکہ علامتیں بھی ڈال دی جاتی ہیں، کیونکہ بسا اوقات ایک ہی لفظ مختلف زبانوں میں مختلف مفہوم ادا کر رہا ہوتا ہے۔ ایک لفظ جب دوسری زبان میں جاتا ہے تو درست ترجمہ ہونے کے باوجود اپنا اصل مفہوم برقرار نہیں رکھ پاتا۔ خاص طور جب عربی ایسی فصیح زبان اردو ایسی نوزائیدہ زبان میں مترجم ہو رہی ہو تو ایسی ناہمواریوں کا سامنا قدم قدم پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فارسی کا لفظ ”شادی“ اردو کی شادی سے مختلف ہے، فارسی میں شادی خوشی کے ہم معنی ہیں جب کہ اردو میں شادی کے مفہوم سے سب لوگ آشنا ہیں۔

اسی طرح عربی میں تقویٰ کا ترجمہ جس نے بھی عجلت میں ”ڈرنا“ کر دیا ہے، اس نے عجب ظلم ڈھایا ہے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ لیا جاتا کہ ایک انسان جب کسی کانٹے دار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتا ہے تو اپنے کپڑے اور دامن سمیٹ کر، ان سے بچ کر گزرتا ہے، یہ دنیا اور مرغوباتِ دنیا مسافر الی اللہ کے لیے کانٹے دار جھاڑیاں ہیں اور وہ ان سے بچ کر گزرتا ہے…. یہ ”تقویٰ“ ہے، اور وہ متقی ہے، اسی کے لیے قرآن کتابِ ہدایت بنا دی گئی ہے۔ اب تقویٰ کا ترجمہ اردو میں ”ڈرنا“ کس حد تک روا ہے، اہلِ معانی بخوبی جانتے ہیں۔ اب وہ محتاط مسافر جسے اپنے لباسِ عفت کی سلامتی عزیز ہوتی ہے، کانٹوں سے ”ڈرتا“ ہے؟ عربی میں ڈرنے کے لیے جو لفظ رائج ہے، وہ ”حذر“ ہے، جس سے ”حذر الموت“ نکلا ہے، اور یہ ایک جگہ یوں استعمال ہوا ہے ”ویحذرکم اللہ نفسہ“ اللہ تمہیں اپنے نفس سے ڈراتا ہے۔ نفسِ خدا سے وہی ڈرے گا جو اپنے نفس کا عرفان حاصل کر چکا ہو۔ حاصل عبادت عرفانِ خدا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے ”وہ عبادت فائدہ نہیں دیتی جو تمہارے عرفان میں اضافہ نہیں کرتی“ ڈرنے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے عربی کے دیگر الفاظ میں لفظ ”خشیعت“ ہے، جس کے معنی ”دل کا جھکنا اور دل کا گداز ہونا“ ہے۔ اگر ڈرنا ہی ہے تو محبوب کی ناراضی سے ڈرو۔ اگر جھکنا ہی ہے تو اس کے رعبِ جمالِ ِکے سامنے جھکو…. اس کی راہ میں دل بچھا ؤ۔۔  دیدہ و دل فرشِ راہ کرو! عابد اور معبود کے تعلق کو محب اور محبوب کے تعلق میں بدلنا عارفین کا کام ہے۔ دین سمجھنا ہے تو تاریخ کی کتابوں سے نہ سمجھیں…. کتابیں نامکمل ہیں اور تاریخ ابھی راستے میں ہے۔ دین کی تفہیم کے لیے دین عطا کرنے والی ذات کی طرف رجوع کرنا ہو گا، اور اس کی ذات کے عرفان کے لیے اس کے نور کے عارفوں کی طرف!!۔

Advertisements
julia rana solicitors

عام مفہوم میں خوفِ خدا کے معنی اس کی ناراضی کے ڈر سے اس کی حکم عدولی سے بچنا ہے۔ اسے ڈرا ہوا، سہما ہوا انسان نہیں چاہیے، بلکہ اسے کوئی مبتلائے محبت درکار ہے…. اسے سوزِ دل مطلوب ہے!! محبت کرنا انسانی فطرت ہے، اور انسان محبت ہی میں اپنے بنانے والے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ فطرت اور دینِ فطرت کا خالق انسان کی اسی فطرت کو مخاطب کرتا ہے۔ اللہ محبت ہے اور محبت کا تقاضا کرتا ہے۔ ارشاد ہے ”جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کی محبت اللہ کے لیے شدید ہے“ مثال دی جاتی ہے ”یہ لوگ اللہ کے غیر سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے محبت کرنی چاہیے“۔ حکم دیا گیا”اے نبی! ان سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ خود تم سے محبت کرے گا“۔ اللہ سے محبت اللہ کی طرف بڑھنے والوں کا بنیادی محرک ہے۔ حکم ہے ”ففرو الی اللہ“ …. ”اللہ کی طرف فرار اختیار کرو….“ یعنی بے اختیار اس کی طرف بھاگو۔ ڈرنے والا مخالف سمت میں بھاگتا ہے، موافق سمت میں نہیں۔ ذات کی سمت کا تعین خوف اور ڈر نہیں، بلکہ محبت کرتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply