محبت کی روشنی۔۔۔۔۔۔ حامد یزدانی

یہ 1997 کی ایک سہ پہر کا ذکرہے ۔ قیامِ پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی۔ مجھے ریڈیو ڈوئچے ویلے ( دی وائس آف جرمنی) کی اردو سروس کے لئے لاہور میں چند خصوصی انٹرویو زریکارڈ کرنا تھے۔ آئی اے رحمان، منّو بھائی اور عاصمہ جہانگیر سے ملنے کے بعد میں  نامور ادیب اشفاق احمد خان صاحب  کے ہاں پہنچا۔اشفاق صاحب  نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کے لئے کہا اوربائیں جانب رخ کر کے  آواز دی: ’بانو! بھئی چائے لا دینا ، ہمارے یزدانی صاحب آئے ہیں۔‘  اشفاق صاحب  تعلقات میں اس پرسنل ٹچ  کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے  اور اسے خوب برتتے تھے ۔اردو ادب کی ’بانو آپا‘ یعنی بانو قدسیہ  صاحبہ چائے کی ٹرے لئے تشریف لے آئیں اور پاس بیٹھ کر چائے بنانے لگیں تو اشفاق صاحب نے میری آمد کا مقصد دوہرایا ۔ اس پر میں نے بانو آپا کو بھی بات کرنے کی دعوت دی ۔ وہ مسکراتے ہوئے بولیں: ’ خاں صاحب ہیں نا۔ میں کیا کروں گی بات ؟ میں اپنا کام کر رہی ہوں ۔ چینی کتنے چمچ  لیں گے آپ چائے میں؟‘ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اشفاق صاحب بولے: ’یزدانی ! میں تمہیں ایک بات بتاؤں ،دو لوگوں  کی بیرونِ ملک  سے واپسی پر مجھے دلی خوشی ہوئی ایک تم ہو اور ایک ہمارا شاہد ملک ۔اتفاق سے تم دونوں بیرونی نشریاتی اداروں سے منسلک ہو اور دونوں لکھتے وکھتے بھی ہو۔ شاہد کو جانتے ہو نا تم؟ وہ بی بی سی کے لئے کام کرتا ہے‘۔ میں نے استاذی شاہد ملک صاحب سے اپنے متعلمانہ اور محبانہ تعلق کا مودبانہ ذکر کیاتو وہ محبت پر بات کرنے لگے۔ کہنے لگے:’ تم چونکہ مغرب میں رہ چکے ہو اس لئے تم شائد  یہ بات سمجھ سکو  کہ ہمارامشرقی  تصورِ محبت مغرب سے  بہت مختلف ہے۔ اُدھر محبت کا تصور زبانی کلامی ’’ آئی لو یو‘‘ کا محتاج ہوتا ہے اور اس کا دائرۂ اثر جسمانی اور نفسانی سا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں محبت کا مفہوم کہیں زیادہ وسعت کا حامل ہے کیونکہ اس میں ادب و احترام کا جذبہ بھی شامل ہوتا ہے جو روحانیت سے علاقہ رکھتا ہے۔صحابہ ؓ کی پیغمبر ﷺ سے محبت، مرید کی اپنے مرشد سے محبت،شاگرد کی استاد سے محبت  اور یہ سب۔۔۔”

لاہور میں ہوئی اس گفتگو  کے کوئی بیس اکیس برس بعد  اب عمر کے اس حصّے میں اور دنیا کے اس آخری شمالی خطے میں  آج یادوں کا جو البم میرے روبرو ہے اس کی بہ ظاہر بلیک اینڈ وہائٹ تصاویر میں مجھےمحبت کے کئی شیڈز دکھائی دینے لگے ہیں ۔ انہی رنگوں میں ایک رنگ خدمت کا بھی ہے۔  خدمت کا رنگ  بھی ادب و احترام کے قبیل ہی سے ہے اور خدمت سے مزیّن محبت کا یہ مفہوم عملی طور پر سیکھا  سکھایا جاتا تھا۔
یہ 1968 کا ذکر ہے میں سات برس کا ہوں گا جب انجمنِ ترقیٔ اردو کے روح رواں، نامور محقق و شاعر  اور والد صاحب کے استادِ محترم مولانا افسر صدیقی امروہوی صاحب کراچی سے لاہور تشریف لائے تھے اور انہوں نے ہمارے  چھوٹے سےگھر کو ہی شرفِ قیام بخشا تھا۔ ان کی آمد پر والد صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ انہیں گویا سمجھ نہیں آتاتھا کہ اپنے استاد کی خدمت کیسے کریں۔  وہ بزرگ اگرچہ سادہ طبیعت کے  مالک ایک درویش منش ہستی تھے مگر پھر بھی  والد صاحب صبح ناشتے سے لے کر مولانا کی دن بھر کی مصروفیات تک اور پھر شام کی چائے سے رات کے کھانے تک  ایک ایک مرحلے پر اس بات کو یقینی بنانے میں کوشاں دکھائی دیتے کہ کوئی بات استاد ِ گرامی کی توقع یا مزاج کے خلاف  نہ ہو جائے ۔ میں اگر یہ کہوں کہ والد صاحب عملی طور پر ان کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے تو غلط نہ ہوگا۔
یہ اس واقعہ سے کوئی بارہ برس بعد  یعنی1980کی بات ہے۔ میں والد صاحب کے ساتھ ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے گوجرانوالہ گیا۔ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی سُرخ و سفید بس سے اترے تو میرے ہائی سکول کے استاد ( خواجہ عبدالمنان) راز کاشمیری صاحب نے ہمارا  بہت محبت آمیز خیر مقدم کیا اورمشاعرہ گاہ پہنچانےسے پہلے اپنے ہاں  جانے پر اصرار کیا۔  راز صاحب  بذاتِ خود بہت نفیس صاحبِ دیوان شاعر تھے اور دینی وادبی حلقوں میں ادب کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ  والد صاحب سے مشورۂ سخن کرتے تھے اور بہت محبت سے انہیں استاد کہتے اور لکھتے تھے۔ والد صاحب کچھ عرصے سے عارضۂ قلب میں بھی مبتلا تھے۔ دن بھی گرمی کے تھے اور راز صاحب کے گھر کی دوسری منزل تک پہنچے تو  دبلا پتلا ہونے کے باوصف والد صاحب کی سانس کچھ پھول سی گئی۔ راز صاحب  فکر مند ہو گئے۔ انہیں بڑے احترام سے صوفے پر بٹھایا اور خود فرش پر بیٹھ کر ان کے پاؤں دبانے لگے۔ میں نے یہ دیکھا تو  عرض کی :’سر!آپ ہٹئے ، اوپر بیٹھیے،میں دباتا ہوں۔‘ راز صاحب  نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’تم اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے ہو کہ اسے نیچے بیٹھانہیں دیکھ سکتے اور میرےاستاد نے جو میرے لئےاتنی زحمت اٹھائی ہے میں ان  کی خدمت نہ کروں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے !؟۔‘
اور یہ اسّی کی دہائی کےاوائل کا ذکر ہے ۔ میں  اپنے بچپن کے  ہم جماعت دوستوں محمد شاہد اور تنویر احمد  کے ساتھ مل کر ہر شام   نیو لاہور انگلش کالج  جایا کرتا تھا   بی اے کی انگریزی کی تیاری کے لئے۔ اس کالج کے روحِ رواں تھے  پروفیسر ملک واصف علی واصف صاحب جو ایک صوفی مفکر کے طور پر بھی اپنا وسیع حلقۂ اثر رکھتے ہیں۔ واصف صاحب  تب  تک یہ کالج نابھہ روڈ سے گلشنِ راوی  اپنے نئے گھر  میں منتقل کر چکے تھے۔ملک صاحب کے پڑھانے کا انداز منفرد بھی تھا اور دل چسپ بھی ۔ مجھ پر ان کی خصوصی شفقت کا سبب یقینا ً یزدانی صاحب سے ان کا تعلقِ خاطر تھا۔ہو سکتا ہے کہ میرے ذوقِ شعر گوئی کا بھی اس میں کچھ کچھ ہاتھ ہو۔ بہر حال  ایک روز کلاس ختم ہونے پر ملک صاحب نے مجھ سے پوچھا : ’کیا تم جانتے ہو احسان دانش صاحب سخت بیمار ہیں ؟‘ میں نے عرض کیا : ’ جی سر، اخبار میں پڑھا تھا۔ وہ میو ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈمیں ہیں۔‘ ملک صاحب نے کہا: ’ تو تم ابھی تک ان کی تیمار داری کے لئے نہیں  گئے ۔میری بات سنو، کل کلاس میں آنے سے پہلے ہسپتال سے ہو کر آنا ۔ مجھے دانش صاحب کی صحت کی خبر چاہئے۔‘ میں نے کہا: ’’سر ! وہ تو  آئی ۔ سی ۔یُو  میں ہیں۔ مجھے کہاں اندر جانے دیں گے!۔ ‘ تب استادِ محترم فرمانے لگے: ’ اگر اندر نہ جانے دیں تو  دس منٹ وارڈ کے باہر ہی کھڑے ہو کر آجانا۔ لیکن جانا ضرور۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں۔ انہوں نے ہمیں، ہمارے دور کو ، ہماری زندگی کو بہت کچھ دیا ہے۔ ان کا حق ہے ہم پر۔ اور ہمارا فرض ہے ان کا احترام کرنا، ان کی عزت کرنا ، ان کی خدمت کرنا۔‘ یہ ان بزرگوں کا، ان اساتذہ کا طریقِ تربیت تھا   جو رسمی تعلیمی کورس کا حصہ نہ تھا  مگر تہذیب کا ایک لازمی جزو تھا۔ ہمیں زندگی کی یہ تعلیم دینے کی وہ کوئی فیس نہیں لیتے تھے ۔ بس تہذیبی ورثہ سمجھ کر اپنے شاگردوں تک منتقل کرنا  اپنا فرض جانتے تھے۔
اور یہ غالبا ً اسّی کے اواخرکا ذکر ہو گا  جب لاہور کے مال (روڈ)پر واقع ایک ہوٹل میں میرے بڑے بھائی ممتاز صحافی  سیّد ساجد یزدانی کے اعزاز میں ایک خصوصی  تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اس میں صحافی، ادیب اور فلمی دنیا سے متعلق کئی نامورہستیاں شریک تھیں۔ اسے اتفاق کہہ لیجئے یا ہماری خوش بختی کہ اس تقریب  میں والد صاحب بھی شریک تھے  جبکہ اس رنگا رنگ  اجتماع کی صدارت اداکار محمد علی کر رہے تھے۔تقریب میں تقریریں ہوئیں،  کئی دل چسپ باتیں ہوئیں ، ملاقاتیں ہوئیں۔ تقریب کے اختتام پر صاحبِ صدارت محمد علی نے اپنے مخصوص ریڈیائی  لہجے  میں خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ’ جب میں پہلی بار ساجد سے ملا تو حیرت ہوئی کہ ایسا مہذب اور مؤدب قسم کا نوجوان فلم انڈسٹری میں کیا کررہا ہے؟ لیکن جب معلوم ہوا کہ یہ یزدانی  صاحب  کا صاحبزادہ ہے تو میری حیرت اس خوشگوار احساس میں بدل گئی کہ تہذیب انسان گھر ہی سے سیکھتا ہے اور جس کی تربیت یزدانی جالندھری جیسے معتبر و مستند ادیب و  شاعر   اور شائستہ انسان نے کی ہو اسے کوئی ماحول خراب نہیں کر سکتا۔ وہ جہاں بھی جائے گا شرافت اور محبت کی کہانی ہی رقم کرے گا۔‘
اور آج یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے اپنی زندگی کی کتاب  میں جا بہ جا بکھرے محبت کے کیا کیا فسانے یاد آرہے ہیں ۔ ذہن کے افق پرتہذیب اور محبتوں کی امین کتنی ہی ہستیوں کے دل نشیں عکس ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی  بکھیرتے دکھائی دے رہے ہیں اوریزدانی صاحب کی دھیمی دھیمی صدا میری سماعت کے پردے پر ابھرتی چلی جارہی ہے:
بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سُو
اُڑا رہا ہے کوئی صورتِ غبار مجھے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply