سماج (19) ۔ سماجی تنوع/وہاراامباکر

رومی سلطنت جب انحطاط پذیر ہوئی تو یہ الگ ٹکڑوں میں بٹ گئی جو ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اندلس میں طائفے الگ ہو جانے کے بعد طوائف الملوکی کا دور بھی رومی سلطنت کے خاتمے کی طرز کا تھا۔ کسی سوسائٹی میں پڑنے والے شگاف دوستانہ نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

معاشروں کے اپنے اندر کئی طرح کے ذیلی گروہ ہوتے ہیں اور جب ایک گروہ کا تعلق دوسرے کے ساتھ معاندانہ ہو جائے، اس کی شناخت ناقابلِ برداشت ہو جائے اور رویہ قابلِ قبول کی حد سے تجاوز کرنے لگے کیونکہ قابلِ قبول کی حد پر اتفاق نہ ہو ۔۔۔ تو معاشرے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ زندگی کیسی ہونی چاہیے؟ گروہ ان کے بارے میں اپنی کہانی رکھتے ہیں۔ جب ایک کہانی دو میں تقسیم ہو جائے جن کے درمیان اختلاف عبور نہ ہو سکیں تو پھر یہ دو الگ کہانیاں اور پھر الگ معاشرے بن جاتے ہیں۔
اس عمل کو ماڈل کرنے کا کام فابیو سانی نے کیا ہے۔ اور ان عوامل کی نشاندہی کی ہے جو کسی سوسائٹی کو دولخت کر دیتے ہیں۔ اور ایسا ہونا تاریخ میں بارہا نظر آتا ہے۔ معاشروں کی تعمیر اور ان کی شکست و ریخت ایک مسلسل جاری عمل ہے۔
اور ایسا ہم یہ صرف ماضی میں نہیں، آج کے معاشروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
مثلاً، ٹیٹو کی موت، معاشی مشکلات اور کمیونزم کے ناکام ہو جانے نے یوگوسلاویہ کو توڑ دیا۔ کیونکہ ان کو باندھنے والی کہانی باقی نہیں رہی تھی۔ اور الگ ہو جانے والے حصوں کی آپس میں تلخیاں جنگوں اور بڑے پیمانے پر اموات کا سبب بنیں۔ اور یہ تلخیاں اب بھی جاری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چرچ آف انگلینڈ 1994 میں تقسیم ہو گیا۔ یہاں پر مسئلہ خواتین کے مذہبی راہنما بننے کی اجازت کی وجہ سے ہوا۔ جن لوگوں کے لئے یہ فیصلہ وہ حد تھی جس کو پار کر لئے جانا ناقابلِ قبول تھا، وہ الگ ہو گئے۔ اس لئے کہ ان کے لئے یہ اپنے گروپ کی شناخت کے اصول سے ہی ہٹ کر کیا جانے والا عمل تھا۔ اسی طرح، جب اٹلی میں کمیونسٹ پارٹی نے مین سٹریم سیاست میں شمولیت اختیار کی اور اپنا نام تبدیل کر لیا تو اس فیصلے نے پارٹی کو توڑ دیا۔ اپنی اصل سے وابستگی کی اصول پر ایک الگ گروپ پرانے نام کے ساتھ بن گیا۔
ان دونوں واقعات میں، ایک طرف وہ ممبران تھے جن کی لئے شناخت میں یہ ترمیم بہتری کی طرف سفر کا حصہ تھا۔ ان کے لئے یہ تبدیلی گروہی مضبوطی میں اضافہ کرنے کا باعث تھیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ تھے تبدیل ہونے والے اصول وہ تھے اپنی شناخت برقرار رکھنے والے کے لئے لازم تھے۔ ان کے لئے یہ تبدیلی قبول نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس تناؤ نے گروہوں کو توڑ دیا۔
اور بننے سے بکھر جانے تک کی یہ کہانیاں ہمیں ہر قسم کی تنظیموں میں عام نظر آتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانی اس قسم کی تبدیلیوں سے معاشروں پر ہونے والے اثرات کو سٹڈی کرتے ہیں۔
گروہوں کی ٹوٹ پھوٹ میں ہونے والی عام طور پر تقسیم میں ایک طرف روایت پسند ہوتے ہیں جو اصل شناخت سے ہٹنے کو مشکل سے قبول کرتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جو بیرونی اثرات سے دور رہتا ہے اور پرانی خاصیتیں برقرار رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اور ایسا ہونا نیا نہیں۔ یہ قدیم طرزِ زندگی والے گروہوں میں بھی رہا ہے۔ آج کی سیاسی اصلاحات میں انہیں کنزرویٹو، نیشنلسٹ، روایت پسند وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر میں “کالی بھیڑ” خطرناک ہے اور اسے شروع میں ہی روک دیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ایسا رویہ بڑھ کر گروہ کا معنی ختم کر سکتا ہے اور یکجہتی توڑ سکتا ہے۔ اس گروہ کی نظر میں ممبران کا اپنی شناخت کے بارے میں ہم خیال ہونا اہم قدر ہے۔ اور یہ ممبران سے وفاداری کا تقاضا کرتا ہے۔
دوسری طرف، (عام طور پر کناروں پر) ریڈیکل ہوں گے۔ اور یہ اپنے نقطہ نظر کے بارے میں متحد ہوں گے۔ ان کے خیال میں تبدیلی بہتری کا راستہ ہے۔ اور انکے نقطہ نظر میں وہ، جو تبدیلی کے مخالف ہیں، وہ مسئلے کی جڑ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جن معاشروں میں اپنے اندر کے ذیلی گروہوں میں صحت مند رسہ کشی برقرار رہے، وہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کو اپنا سکتے ہیں۔
لیکن جب یہ دونوں اس مقام پہنچ جائیں کہ اپنی شناخت ایک بڑی سوسائٹی سے زیادہ اپنے ذیلی گروہ کی شناخت سے کرنے لگیں تو پھر ذیلی گروہ کی شناخت مضبوط تر ہونے لگتی ہے۔ اور اب دوسری سائیڈ کا موقف ان کی نظر سے دیکھنے میں دلچسپی ختم ہونے لگتی ہے۔ نفسیات کی تحقیات یہ بتاتی ہیں کہ ایسا رویہ کئی بار بہت معمولی چیزوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ دور سے دیکھنے والوں کو یہ سمجھ بھی نہیں آئے گی کہ بنیادی اختلاف آخر ہے کس چیز پر لیکن اندرونی تناؤ معاشرے کو دولخت کر سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپسی رابطے بے کار ہونے لگتے ہیں۔ اور یہ تباہ کن ہوتا ہے۔ کیونکہ پھر وہ وقت آ جاتا ہے جب دونوں اطراف میں “ہم” یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خالص اور اصل ہیں جبکہ دوسرے غلط ہیں اور ساتھ ساتھ evil بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ وجہ ہے کہ الگ ہو جانے کے بعد دوستانہ روابط مشکل سے بنتے ہیں۔ معاشروں کے اس طریقے سے ٹوٹ جانے کی وجہ خوراک یا جگہ کی کمی نہیں ہے۔ یہ شناخت کا انہدام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سٹڈی بتاتی ہے کہ لوگ دوسری سوسائٹی کا تصور کسی دوسری نوع کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ pseudospeciation ہے۔ الگ ہو جانے والے گروہ میں شناخت کے نشان ویسا کردار ادا کرتے ہیں جیسے کہ جین۔ اور یوں، نئے سے نئے گروہ وجود میں آتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر کسی اینتھروپولوجسٹ کے لئے کام زیادہ مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ الگ معاشرے ایک دوسرے سے الگ نہیں رہتے۔ ہم ہر وقت تجارت کرنے، ادھار لینے، اپنا لینے، چرا لینے کو تیار رہتے ہیں۔ تعلقات کا یہ جال بھی ساتھ ہی ساتھ بُنتا جاتا ہے۔
زمینی زندگی کے بارے میں لکھی “انواع کی ابتدا” میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے
endless forms most beautiful and most wonderful
اور ہم جانتے ہیں کہ اس رنگارنگ زندگی کی ان گنت، شاندار اقسام اور تنوع کی خوبصورتی آسانی سے نہیں آئیں۔ الگ معاشروں اور گروہوں میں بٹی انسانیت بھی ویسی ہی شاندار ہے۔ اور اس میں تنوع کی یہ خوبصورتی بھی آسانی سے نہیں آئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply