کاش ہم اُس بچے کی تقلید کرلیں۔۔محمد حسین ہنرمل

پچھلے دنوںمرحوم خان عبدالغفار خان (باچاخان )کی آپ بیتی میری زندگی اور جدوجہد (زما ژوند او جدوجہد) پڑھنے کا موقع ملا تو ایک چھوٹامگر بڑا سبق آموزواقعہ بھی نظرسے گزرا۔ اس آپ بیتی میںوہ اپنے بیٹے خان عبدالولی خان کی زبان لکھتے کہ’’ لندن میں قیام کے دوران ایک صبح جب میں اپنی قیام گاہ سے باہر نکلا تو سامنے درخت سے ایک سیب گراہوا تھا اور کچھ فاصلے پرایک چھوٹا بچہ بھی کھڑا تھا۔ میں نے بچے کوسیب اٹھانے کا اشارہ کیا مگر بچے نے نہایت جواب دیا کہ’’ یہ سیب میرا نہیں ہے‘‘۔غور کیاجائے تولندن کے معاشرے میں پَلے پُوسے اس معصوم بچے کے ان چار پانچ لفظوں میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے ۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر ہم ان چند الفاظ پر عمل کریں تو صرف ہماری نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ؟لیکن بدقسمتی ہمارے ہاں یہ عادت درآئی ہے کہ ہماری ڈکشنریوں میں ‘‘یہ میرانہیں ‘‘ کے الفاظ سرے سے موجود نہیں ہیں بلکہ فقط ’’ہرچیزمیری ہے اور میراہے‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ ہم اپنے جائز حقوق کیلئے تو دوسروں کو بھی جاں سے مارنے اور خود کو قربان توکرسکتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق پرہاتھ صاف کرنا بھی ہماری ایک قبیح عادت رہی ہے ۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے بدعنوانی کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بدعنوانی کے حوالے سے سال دوہزاربیس کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کیلئے ایک مایوس کن خبر تھی۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں پاکستان میں حالیہ حکومت کے دور میں پچھلے سال بدعنوانی مزید بڑھ گئی ہے ۔ یعنی پاکستان دوسال پہلے کرپشن کی لعنت سے ایک سو بیس گز کے فاصلے پر کھڑا تھا لیکن اب ایک سوسترہ گز کے فاصلے پر آکر یہ ملک مزید بدعنوانی کاشکار ہوچکاہے۔ کرپشن یا بدعنوانی کو پوری دنیا میںایک ناسور سمجھاجاتاہے اور اس ناسور کو شکست دیئے بغیر کسی ملک کی معاشی حالت سدھر نہیں سکتی ۔ کرپشن ہی کی وجہ سے نہ صرف ایک ملک میں غربت اپنی انتہائی حدود کو چھوجاتی ہے بلکہ اسی لعنت ہی کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے ۔اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اس ملک میں لگ بھک سات کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو ملک کی ساکھ اور کریڈیبلیٹی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور ہر ادارے میں قابل رحم حد تک بدعنوانی کی وجہ سے امراء طبقہ مزید مستحکم ہورہا ہے اور غریب غریب تر ہوتاجا رہا ہے ۔ رسالت مآب ﷺ نے ایک مرتبہ غربت کے بارے میں فرمایا ’ یعنی قریب ہے کہ غربت بندے کو کفر کی طرف لے جائے ‘‘۔خاکم بدہن اگر اس ملک میں کوئی بندہ غربت اور مسلسل محرومی کے ہاتھوں کسی بڑے جرم ، خودکشی یا کفرکی طرف مائل ہوجاتا ہے تو اس ناقابل معافی گناہ میں وہ سب لوگ برابر کے شریک ہونگے جن کی بدعنوانی کی وجہ سے یہ بے چارہ مفلوک الحال ہوچکا ہے۔کرپشن کو شکست دینا ناممکنات میں سے نہیں لیکن اس کے خاتمے کیلئے وسیع بنیادوں پر قابل عمل اور غیرجانبدار اسٹریٹیجی اپنانا لازمی ہے ۔ اس ناسور کے خاتمے کا سب سے سادہ اور آسان سا حل یہ ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ ’’ہرچیز ہماری نہیں ہے‘‘۔صدر اور وزیراعظم کو اپنی جائز تنخواہ اور مراعات کے علاوہ اگر قومی خزانے سے مزید پیسہ لینے کا موقع ملتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے خداکو حاضر ناظر جاں کر فیصلہ کرے کہ ’’ اپنی تنخواہ اور جائز مراعات کے علاوہ بیت المال سے پیسہ لینامیراحق نہیں بلکہ اس میں قوم کے بچے بچے کا حق ہے ‘‘۔ایک وفاقی اور صوبائی وزیر کو بھی یہی فارمولا اپنے اوپر لاگو کرنا چاہیے کہ تنخواہ اور وزارت کے ماہ وسال کے دوران قانون کی رو سے ملنے والی تمام تر مراعات کے علاوہ ایک روپیہ بھی اس کاحق نہیں بنتا۔ فوجی اوردوسرے دفاعی ادارے کا آفیسر ہو یاکسی صوبے کا گورنر اوروزیراعلیٰ ہو ۔ ایم این اے ہو یا ایم پی ا ے ،سیکرٹری اور ڈائریکٹر یا پروفیسر ،ٹیچر ، کلرک اور چپڑاسی یا خاکروب ہو،سبھی اگر ’’ہرچیز میری نہیں ہے ‘‘ والے فلسفے کو سامنے رکھ کر اس پر عمل کریں تو ایک دن میں ہی ہم بدعنوان اور بدنام لوگوں کی بجائے شفاف اور نیک ناموں کے صف میں کھڑے ہونگے ۔ میرا یقین ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل بھی ایک دن اپنی سروے کے بعد اس ملک کے بارے میں خبرجاری کرے گی کہ مذکورہ ملک میں شفافیت تسلی بخش اور قابل رشک ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہماراحکمران طبقہ ادارہ جاتی اصلاحات کی بجائے الٹا اس ادارے کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کررہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس عالمی ادارے کی رپورٹ کو مثبت لیتا اور اس سقم کا جائزہ لیتے ہوئے جہاں پر ملکی ادارے مزید بدعنوانی کا شکار ہوچکے ہیں تدارک کی سعی کی جاتی۔ دوسری طرف یہ رپورٹ آنے پر اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو طعنے دے رہی ہیں حالانکہ متعدد دفعہ اقتدار میں رہ کر انہی جماعتوں کی کریڈیبلیٹی بھی پوری قوم کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس ملک کے وسائل کو جس ناجائز اور ظالمانہ طریقوں سے پچھلی جماعتوں کے حکمران نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ، اس پر الامین والحفیظ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی یہ رپورٹ پوری قوم اور باالخصوص حکمران طبقے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور اس گھنٹی کے بجنے پر سیخ پا ہونے کے بجائے ہمیں اصلاحی اقدامات اٹھانا چاہییں۔ہمیں اپنے اندر اس بچے جیسی غیرت پیدا کرنی چاہیے جس نے ایک پرائے درخت سے گرے ہوئے سیب کو بھی ہاتھ لگانے سے گریز کیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply