سندھ کے درویش عالم دین/محمد احمد

سادگی اور سچائی کی تصویر، حقیقی معنوں میں عاشق رسول شیخ الحدیث مولانا عبدالحئی الحسینی وہ درویش اور متبحر عالم تھے، جن پر سندھ دھرتی ہمیشہ فخر کرتی رہے گی. آپ کی ولادت باسعادت 15 اکتوبر 1932 میں گھوٹکی میں ہوئی. آپ کے والد گرامی بھی عالم دین تھے. دینی تعلیم مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی سے حاصل کی، آپ کے اساتذہ میں اپنے وقت وقت کے غزالی اور رازی مولانا محمد اسماعیل بھٹو، مولانا غلام مصطفی قاسمی اور مولانا عبدالرزاق ججوی جیسے علماء شامل تھے.
اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی کی طرف سے اسکالر شپ پر آپ ازہر الہند دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی، مولانا محمد ابراهيم بلیاوی دیگر اکابرین سے کسب فیض کیا. مولانا عبدالحئی الحسینی دار العلوم دیوبند کے آخری سندھی فاضل تھے، اس کے بعد کوئی سندھی شاگرد دیوبند پڑھنے نہیں گیا. آپ نے وہاں ہر امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کرکے انعامات وصول کیے. دیوبند سے واپسی کے بعد درس وتدريس سے وابستہ ہوئے، آخری دن تک پیغمبری پیشے سے منسلک رہے، جن مدارس میں آپ نے تدریسی خدمات سرانجام دیں، ان میں مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی ،مدرسہ دار الرشاد پیر جھنڈو، مدرسہ دار الہدی ٹھیڑھی اور جامعہ اشرفیہ سکھر قابل ذکر ہیں. ہزاروں کی تعداد میں علم کے پیاسوں کی پیاس بھجائی اور تشنگی دور کی،جن میں پاکستان، ایران اور برما کے نامور علماء کرام بھی شامل ہیں. حدیث کے باب میں آپ کو خاص مہارت حاصل تھی، بڑی عقیدت اور محبت سے حدیث کا درس دیتے تھے، اس کے علاوہ دیگر علوم وفنون میں مولانا کو ید طولی حاصل تھا،بڑے بڑے مشکل فنی ابحاث چٹکی میں حل کردیتے تھے.
اپنے اساتذہ بالخصوص حضرت مدنی سے والہانہ محبت تھی، بڑی عقیدت سے ان کا ذکر فرماتے تھے. تدریس کے ساتھ آپ نے تصنیفی خدمات بھی سرانجام دیں اور مختلف رسائل میں مقالات بھی تحریر کرتے رہتے تھے. آپ کی تصانیف عربی، اردو اور سندھی میں ہیں، جن میں اکثر غیر مطبوع ہیں.
درس وتدريس کے وعظ وتبلیغ بھی فرماتے تھے، لیکن درس وتدريس اولین ترجیح ہوتی تھی.
تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جیل میں گئے،آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی شوری کے ممبر تھے، ضیاء الحق کے کٹر مخالف اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حامی تھے.
تبلیغ جماعت سے غایت محبت کرتے تھے، فرماتے تھے کہ یہ جماعت انبیاء کرام کے طریقے پر گامزن ہے، آپ لوگوں کو ان سے جڑنے کی ترغیب دیتے تھے، راؤنڈ اجتماع میں پابندی سے شرکت کرتے تھے.
عملی سیاست سے کنارہ کش تھے، لیکن جمعیت علماء اسلام سے وابستہ تھے اور حالات حاضرہ پر گہری نظر تھی. ووٹ جماعت کو دیتے تھے اور لوگوں کو یہی تلقین کرتے تھے کہ جماعت سے وابستہ رہیں.
چائے کے بے حد شوقین، بلکہ اس باب میں بڑے باذوق تھے، فرماتے تھے کہ انسان “اشرف المخلوقات” اور چائے “اشرف المشروبات” ہے. اخبار پابندی سے پڑھتے تھے اور بی بی سی پر خبریں سننا آپ کا معمول تھا.
آپ کی بیعت قطب الاقطاب حضرت حماد اللہ ہالیجوی سے تھی.
چالیس بہاریں دین متین کی خدمت میں گذاریں،لوگ ان کی خدمات کے بدلے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.
علم وعرفان کے چمکتے دمکتے یہ ستارے 31 دسمبر 1993 بروزجمعۃ المبارک ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے.
آپ کی سوانح اور دینی خدمات پر ان کے لائق فرزند اور “الولد سر لابیہ” کے مصداق مولانا خالد الحسینی نے صاحب نے شاندار کتاب سندھی زبان میں تصنیف کی ہے، جس کا اسلوب بڑا دلچسپ ہے. اب ضرورت ہے کہ حضرت کی سوانح پر ایک کتاب اردو زبان میں بھی آنی چاہیے، امید ہے کہ جلد اس کی بھی کوئی سبیل نکل آئے گی. ان شاء اللہ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply