• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک نیم پڑھا لکھا سا کتھارسس/ کیا جڑانوالہ کے 72 چرچ پاکستانی مسیحیوں کے لئے تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ؟/اعظم معراج

ایک نیم پڑھا لکھا سا کتھارسس/ کیا جڑانوالہ کے 72 چرچ پاکستانی مسیحیوں کے لئے تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ؟/اعظم معراج

جون 2022 کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق ضلع فیصل آباد کی چھ تحصیلوں میں مسحیی ووٹرز 170426 ہیں۔جن کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ فیصل آباد سٹی 80402 فیصل آباد صدر 37152سمندری 21976 ، جڑنوالہ 17626 چک جھمرہ 11296 تاندانولہ 1974۔ سانحہِ جڑنوالہ کے بعد وہاں کے چرچز کی جو تعداد سامنے آئی ہے ۔وہ 72 ہے ۔۔آبادی اور ووٹوں کا تناسب پاکستان میں تقریباّپچاس پچاس کا ہے ۔اس حساب سے مسیحیوں کی آبادی تحصیل جڑانوالہ میں 35252 ہونی چاہیئے۔ برصغیر میں مسیحیت تعلیم کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ جہاں اس تعلیم نے برصغیر کے پورے معاشرے پر دیگر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں وہی ان تعلیمی اداروں کی بدولت پہلے غاصب جن حریت پسندوں کو چور ڈاکو بنا کر پیش کرتے تھے۔ وہی پھر بھگت سنگھ، سوباش چندر بوس ۔ اور اگلے مرحلے میں ٹیگور، گاندھی علامہ اقبال و قائد اعظم بنے ۔ اس وقت جڑانوالہ والا تارکین وطن مسیحیوں کی بدولت دنیا بھرکی مسیحی این جی اوز اور ہر مسیحی مسلک سے وابستہ پیرا چرچ مذہبی ؤ سماجی تنظیموں کی ہمدردیوں سے فیضیاب ہورہا ہے ۔ لہذا اگر اس تحصیل کو ماڈل تحصیل بنا کر ہر چھوٹے بڑے گرجوں کو پانچ دن بطورِ اسکول استعمال کرنے کی ریت ڈال دی جائے، اور ہر کلیسا ایک دو پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان بچی، بچوں کو وہاں استاد مقرر کریں ۔ کوشش کریں جو بچے کام کرتے ہیں، وہ شام کو پڑھیںِ ہر گرجا اپنے ہر ممبر کے بچوں کے لئے یہ یقینی بنائے کہ ہر بچہ اسکول ضرور آئے ۔۔اس کے لئے بچوں اور والدین کو ہر طرح کی ترغیبات دیں ۔ ظاہر ہے وسائل کی اس وقت کمی نہیں۔۔ بس ان وسائل کو صحیح سمت میں لگانے پر یکسوئی دکھانی پڑے گی ۔۔۔جن منظم چرچز کے زیرِ انتظام پہلے اسکول چل رہے ہیں،وہ ان پر مزید سرمایہ کاری ترجیح بنیادوں پر بڑھا ئیں۔تو یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔ان چرچز کی عمارتوں چاہے وہ ایک کمرے کی کیوں نہ ہو کو استعمال کر کے کم پڑھے لکھے بچوں کو ای کامرس ماہرین کی مدد سے کمپوٹر یا اسمارٹ فون کے استعمال سے بہتر روزگار کے لئے بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں تو ان عمارتوں کے اس استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ پھر بھی مذہبی علماء اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں ۔ویسے میری کچی، پکی پہلی دوسری تک تعلیم قلعہ دیدارِ سنگھ ضلع گوجرنوالہ کے پریسبٹرین چرچ کی زیر تعمیر عمارت میں ہی ہوئی تھی۔اگر یہ ماڈل ایک بار پھر کامیاب ٹھہرا تو پاکستانی معاشرے میں مسیحی سماج کے لئے مذہبی قیادت کا یہ قدم فکری ،شعوری،تعلیمی، سماجی معاشی ، معاشرتی ،علمی ،تہزیبی ،مذہبی اور سیاسی انقلابات کا پیش خیمہ ہوگا۔ کیونکہ برصغیر کے مسیحیوں کے پاس اس وقت جو کچھ ہے، وہ پرانے وقتوں کے مسیحی راہنماؤں کے ایسے اقدامات کی بدولت ہے ۔اور آج یہ سماج جس تیزی سے تنزلی کی طرف گامزن ہے وہ موجودہ مذہبی قیادت کا ایسے اقدامات کو ترجیح نہ دینے کی وجہ سے ہی ہے ۔ اندازہ کریں اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے چرچز کی تعداد لاکھوں میں ہوگی یہ عمارتیں چرچ کو قائم رکھے ہوئے بھی لاکھوں اسکولوں میں تبدیل کی جا سکتی ہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply