سندھ حکومت کی کمزوریاں۔۔۔عبدالرؤف

سندھ حکومت کو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ سندھ میں بارشیں نہیں ہوتیں اگر یہاں بھی خیبر پختونخوا اور پنجاب کی طرح ہر دو تین مہینےبعد  بارشیں ہوتیں تو سڑکوں کا پول کھل جانا تھا ، حکومت کے ساتھ ان ٹھیکیداروں کے بھی مزے ہیں جو ناقص مٹیریل استعمال کرتے ہیں ، ابھی تو صرف دو بارشیں ہوئی ہیں اور سڑکیں کھلنا شروع ہوگئی ہیں ۔
مجھے اس قوم پر افسوس بھی ہوتا ہے اور قہقہے لگانے کو بھی دل کرتا ہے ، اس کی وجہ قوم کا ٹھنڈے پیٹوں سب کچھ برداشت کرنا ہے اور اس برداشت میں بحیثیت قوم میں خود بھی شامل ہوں ۔
میں روز ڈیوٹی کے لیے گھر سے جاتا ہوں اور اک مین شاہراہ سے میرا گزرہوتا ہے وہ شاہراہ دوسرے بڑے شہروں سے جاکر ملتی ہے جس کی بنا پر اس شاہراہ سے ہیوی ٹریفک گزرتی  ہے۔
اسی مین روڈ پر اتنے بڑے بڑے کھڈے پڑچکے ہیں اور ابھی حالیہ بارش کے بعد اک اور کھڈا منظر عام پر آچکا ہے ۔
لیکن افسوس انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ،مزید افسوس اور دکھ اس بات کا کہ روز اس سڑک پر سندھ کے اعلیٰ افسران گاڑیاں دوڑاتے پھرتے ہیں ، لیکن کسی افسر کی نظر ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر نہیں گئی جو کسی بھی وقت کسی بہت بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
کبھی کبھار مجھے ہمارے حکمران ہی ہمارے قاتل نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے  کہ  جانتے بوجھتےایسے معاملات کو بہتر نہیں کیا جاتا جو کسی بھی وقت کسی معصوم کی جان لے سکتا ہو ، اور ہم نے ایسے کئی حادثات دیکھے ہیں جو حکومت کی چشم پوشی کی وجہ سے ہوئے ہیں اور اس میں درجنوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اس قوم پر افسوس اور قہقہے دونوں ساتھ لگائے جائیں ، جب قوم ہی ستو پی کر مدہوش پڑی ہو، اس قوم کے حکمرانوں سے کیا گلہ ، اک سڑکوں کا رونا ہی نہیں کہ رو کر چپ ہو جائیں یہاں تو ہر چیز بگڑی ہوئی ہے ۔
اب آتے ہیں واپڈا کی طرف ، یہ وہ ادارہ ہے جس کی ذمہ داری عوام کو بجلی فراہم کرنا ہے اور ساتھ ساتھ بجلی کے انتظامات کو بھی بہتر رکھنا ہے، لیکن افسوس یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے آپ پورے شہر کا معائنہ کر کے دیکھ لیں آپ کو ہر طرف واپڈا کی قلعی کھلتی نظر آئے گی، جگہ جگہ کھمبوں سے تاریں  نیچے کو جھکی ہوئیں ،اتنی کہ سرساتھ  لگنے لگے ، کہیں کھمبے جھکے ہوئے تو کہیں گرنے کو تیار ، تاروں کے گچھے ہر گلی میں لٹکے ہوئے ، شہر میں اک اک کھمبے کے ساتھ درجنوں میٹر  لگے ہوئے ، کوئی پرسان حال نہیں ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے میرے گھر سے کچھ گلیاں چھوڑ کر آگے اک گلی میں اک کھمبے کو پلاسٹک بیگ سے ڈھانپا ہوا ہے اور اس کے دونوں طرف بانس لگا کر کھمبے کے قریب راستے کو بند کیا گیا ہے ۔وہاں موجود اک شخص نے بتایا کہ کھمبے میں کرنٹ ہے اور کسی حادثے سے بچنے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا ہے ، بھئی ! واپڈا کہاں ہے ؟ کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کوئی جواب ہی نہیں دیتے وہ بھی  سو رہے ہیں وہاں موجود لوگوں نے جواب دیا۔۔
واپڈا کا حال تو یہ ہے کہ اگر کسی محلے کا ٹرانسفارمر جل جائے یا خراب ہوجائے تو اسے واپڈا اپنے پلے سے ٹھیک نہیں کرتی بلکہ محلے والوں سے چندہ جمع کر کے ٹرانسفارمر کو دوبارہ بحال کیا جاتا ہے ، جب واپڈا سے اس بابت پوچھا جائے کہ آپ ٹرانسفارمر خود سے کیوں نہیں مرمت کرتے تو جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس محلے سے بلوں کی ریکوری نہیں ہوتی لوگ بل  نہیں بھرتے ، لیکن دکھ اس بات کا ہے جو لوگ بل بھرتے ہیں وہ بھی چندے کی لپیٹ میں آتے ہیں ، انھیں تو اکثر بل کے ساتھ ساتھ ڈیٹیکشن کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اب آتے ہیں ٹریفک پولیس کی طرف ان کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، ویسے تو تمام ٹریفک پولیس اہلکار رشوت جیسے سنگین جرم میں ملوث ہیں لیکن میری آنکھوں دیکھا حال جو میں روز ڈیوٹی پر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں ، وہ آپ کے گوش گزار کیے دیتا ہوں ،
حیدرآباد میں ہالہ ناکہ کے قریب اک پل ہے جو بینظیر کے نام سے زیر تعمیر تھا لیکن پھر اچانک اس پل پر کام روک دیا گیا ۔
معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہاں پل کے قریب اک مالک مکان نے کیس داخل کردیا کہ اس پل کی راہ میں میرا گھر ہے اور اس پل کی تعمیر کو روکاجائے جب تک مجھے انصاف نہیں ملتا ۔
عدالت کا اسٹے آرڈر ملنے کے بعد وہ پل اب تک ادھورا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام ہر وقت مفلوج رہتا ہے ، اس پل کی تعمیر اک چوک پر کی گئی تھی تاکہ اس پل کی تعمیر سے چاروں طرف سے آنے والی ٹریفک کے بے ہنگم رش کو کم کیا  جاسکے ، پل کی تعمیر سے اک فائدہ یہ تھا کہ بڑی گاڑیوں کی آمدورفت کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا تھا ، لیکن افسوس اس پل کی تعمیر کسی وجہ سے نہ ہوسکی ۔
اس رش سے بچنے کے لیے بیچ میں اک اور راستہ بنایا گیا تاکہ بڑی گاڑیوں کو اس طرف موڑ دیا جائے ، راستہ بننے کے بعد اس راستے کے موڑ پر دو پولیس اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا تاکہ بڑی گاڑیوں کو اس طرف موڑا جائے ، اک ٹریفک پولیس کا اہلکار  اور عوام پر مسلط کیا ہوا سپاہی جو ہماری جان مال کے تحفظ کا ذمہ دار ہے ، یہ دونوں اہلکار اپنی ذمہ داریاں کس طرح نبھاتے ہیں اس کی اک جھلک میں اپنے قلم کی نوک سے پیش کیے دیتا ہوں جسے میں روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ۔
میں جب بھی اس جگہ سے گزرتا ہوں وہاں تین چار بڑی گاڑیاں خاص طور پر ٹرک لائن سے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ ٹریفک پولیس اہلکار ناکہ لگا کر کھڑا ہوجاتا ہے اور اس ٹرک والے سے متبادل راستے کے لیے کہتا ہے لیکن ٹرک والا بضد کہ مجھے اسی راستے سے جانا ہے اور پھر کچھ کھسر پھسر کے بعد پولیس والا ٹرک والے سے ہاتھ ملاتا ہوا اسی راستے پر چلتا بنتا ہے جس راستے پر ابھی کچھ دیر پہلے ٹریفک پولیس والا اسے جانے سے منع کررہا تھا ، یہ تماشا میں روز اسی راستے میں دیکھتا ہوں ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ، لیکن مجھ سمیت کسی نے بھی اس پر شور نہیں مچایا ۔۔
اسی طرح اک اور روٹ ہے جو شہر کے بیچوں بیچ نکلتا ہے ، وہاں اس سڑک پر چھوٹی گاڑیاں چلتی ہیں جسے حیدرآباد کے لوگ اپنی مقامی زبان میں فور سیٹر یا منی ٹیکسی بھی کہتے ہیں ، یہ ٹیکسی جس روٹ سے گزرتی ہے وہاں اک جگہ مصروف شاہراہ ہے جسے گول بلڈنگ بھی کہا جاتا ہے یہاں اکثر ٹریفک پولیس تعینات رہتی ہے جو آتے جاتے ٹیکسی والوں سے دس روپے لیتے ہیں ، لیکن یہاں بھی مجال ہے کہ کسی نے ان ٹریفک پولیس والوں سے پوچھا ہو کہ رشوت کیوں لیتے ہو؟
اب آتے ہیں معاشرے کے ان بد کردار اور مکروہ چہروں کی طرف جو چند ٹکوں کے عوض معاشرے کے نوجوانوں میں زہر پھیلا رہے ہیں ،
حیدرآباد کے وہ پوش علاقے جہاں لوگ رہائش اختیار  کیے ہوئے ہیں وہیں کچھ منشیات فروش کھلے بندوں چرس بیچ رہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ سنا ہےکہ پاؤڈر تک بیچی جارہی ہے ان مافیاز کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ لوگ باقاعدگی سے تھانوں کو ہفتہ وار بھتہ دیتے ہیں ،
ابھی کچھ عرصہ قبل اک مشہور پولیس افسر عرفان بلوچ کو جب حیدرآباد میں تعینات کیا گیا تو کچھ ہی عرصے میں حیدرآباد شہر مافیاز سے صاف ہوگیا ، اور ہر طرف سکون ہی سکون تھا ، لیکن ان کے جانے کے بعد اک بار پھر مافیاز سر اٹھانے لگے اور اک بار پھر شہر کے پوش علاقوں میں کھلے عام نشہ فروخت کیا جارہا ہے اور کوئی پُرسان حال نہیں ،
جب ہم پر معمور محافظ ہی ان سنگین معاملات میں ملوث ہوں تو پھر شکایت کیسی؟ افسوس اس بات کا ہے کہ سندھ حکومت نے کئی قسم کی پولیس فورس بنا دی ہے ،ہر وقت شہر اور اس کے مضافات میں موٹر سائیکل پر پٹرولنگ کرتے ہیں ،لیکن افسوس ! انہوں نے بھی  اس طرف توجہ نہ دی۔۔
یہ ہمارے لیے اک بہت بڑا المیہ ہے کہ محلے کے بیچوں بیچ نشہ آور چیزیں فروخت ہورہی ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ،ریاستی اداروں کی موجودگی میں اور ان کی سرپرستی میں یہ سب تماشے ہورہے ہیں ،
نوجوانوں کا تباہ ہوتا یہ مستقبل دیکھ کر ایسا لگتا ہے ہم بحیثیت قوم تباہی کے دہانے پر ہیں ، جہاں ہر طرف معاشرتی برائیاں عروج پر ہیں اور انھیں کوئی لگام دینے کو تیار نہیں ۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply