ذمہ دار کون؟/آصف جمیل

جب بھی کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو بلاشبہ وہ کمزور قوت ارادی، کمزور معاملہ فہمی اور حد درجہ حساسیت کا شکار فرد بن کر سامنے آتا ہے جو کسی بھی مسئلے کے ممکنہ حل کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے ۔ یہاں تک تو اس شخص کی کمزوریوں اور مجرمانہ حیثیت کا تعین کیا جا سکتا ہے جس کی بِنا پر وہ اللہ کی دی ہوئی امانت کو ضائع کرتا ہے اور ساتھ میں مایوسی کا عَلمبردار بن کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔

لیکن اس تناظر میں جب وہ اس کشمکش میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کی سوچ، معاملات اور معمولات میں ایک واضح تبدیلی اس کے ساتھ رہنے والے اس کے اردگرد موجود افراد کو بھی نظر آنے لگتی ہے ۔معاشی حالات کی کمزوری یہ کوئی ڈھکی چھپی کیفیت کا نام نہیں ہوتی ہے ۔اس کا علم سب کو ہی ہوتا ہے ۔

اس دوران جب وہ زندگی کے تنگ ہوتے دائرے میں خود کو مزید محدود کرتا ہوا مزید حل سے بے بس محسوس کرتا ہے تو بجائے اس کو حوصلہ دینے کے اس کے اردگرد کے افراد اس پر مزید زمین تنگ کرتے نظر آتے ہیں ۔یہی چیز اسے مزید پست حوصلہ کا شکار کرتی ہے ۔

اور سب سے تکلیف دہ معاملہ ان لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے جو اس کے قریبی ہوتے ہیں، جس کے معاشی حالات خراب ہو جائیں تو سب کو نظر آنے لگتے ہیں اور وہ اس پر دروازے بند کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے افراد، عزیز و اقرباء بھی اس جرم میں برابر کے شریک ٹھہرائے جاتے ہیں ۔جنہوں نے ایک شخص کو اس دلدل سے نکالنے کے بجائے اسے مزید اس گرداب میں پھنسنے دیا ۔کسی بھی خودکشی کرنے والے انسان کو اس سطح پر لا کر کمزور کرنے میں ایسے رویے بھی شامل ہوتے ہیں، اور ایسے افراد کو بری ذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply