اے کاش یہ ایک خواب نہ ہوتا !
شہید ارشد شریف کی والدہ نے آج سپریم کورٹ کے روبرو عسکری ادارے کے سابق چیف اور موجودہ افسروں کو اپنے بیٹے کے قتل میں نامزد کر دیا
کیسا کڑا وقت ہے
میری فوج میرا عشق میرا مان ہے۔
کاش یہاں تک نوبت ہی نہ آتی، جونہی ارشد شریف کا جسد خاکی وطن پہنچا، عسکری قیادت اس کے گھر چلی جاتی، غمزدہ ماں کو دلاسہ دیتی ،بیوہ اور بچوں کے سروں پہ دست شفقت رکھا ہوتا، بند کمرے میں دکھیاری ماں کا دکھڑا سنا ہوتا۔
بولیں ماں جی کس نے آپ کے بیٹے پر اپنے ہی ملک کی زمین تنگ کر دی تھی کون تھا جو اس کی جان لینے کے درپے تھا؟ ہمیں بتائیں ہم شہید کا مقدمہ لڑیں گے۔
اور ایسا کرنا صرف اس لئے ضروری نہ تھا کہ ارشد شریف ایک کہنہ مشق صحافی تھا جس نے تحقیقاتی صحافت کو ایک نئی معراج بخشی بلکہ اس لئے کہ وہ تو شہیدوں کا وارث تھا جس کے باپ نے اپنی زندگانی دفاع وطن کی نذر کر دی اور اس کے جنازے میں شرکت کے لئے اس کا کڑیل بیٹا میدان جنگ سے روانہ ہوا تو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔
اور یہ قرض اس لئے بھی ادارے پر واجب ہے کہ ارشد شریف نے ہر مشکل محاذ پر جان جوکھوں میں ڈال کر پاک فوج کی ترجمانی اس خوبصورت انداز میں کی کہ پہلی بار قوم کو پتہ چلا کہ ہمارے محافظ کس طرح سخت موسموں سے لڑتے ہوئے دفاع وطن کا کٹھن فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
جرم کیا تھا اس کا ؟
یہی ناں کہ وہ سوال پوچھتا تھا
اگر وہ ill informed تھا تو آپ تو well informed تھے اس کے سوالوں کے جواب دیے ہوتے۔
چلیں وقتی طور پر مان لیا جائے کہ وہ گمراہ ہو چکا تھا یا کوئی اسے اپنی جنگ کا ایندھن بنا کر استعمال کر رہا تھا۔تو آپ اس سے بات کرتے موقع دیتے۔
کس قدر اذیت ناک ہے یہ لمحہ کہ شہداء کے وارث ہی آج اپنے محافظوں پر اپنے سپوت کے قتل کا الزام عائد کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کیا ابھی بھی ایسا ممکن ہے ؟
عسکری قیادت شہید ارشد شریف کی والدہ کے آنسو پونچھ لے ان کے قدموں میں بیٹھ کر کہے
اے ایک سپاہی کی بیوہ اور شہید کی ماں
پاک فوج تو شہداء کی وارث ہے یہ تو نگہبان ہے شہداء کے لواحقین کی
بھلا یہ کیسے اپنے گھر کے کسی سپوت کی جان لے سکتی ہے ضرور آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
ماں جی !
آپ آرام سے گھر بیٹھیں ارشد شریف کے قاتلوں کا پتہ ہم چلائیں گے۔
کاش یہ ایک خواب نہ ہوتا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں