فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا۔۔رؤف الحسن

تخیل نے خدوخال ترتیب دیے تو جذبات نے اظہار کی اجازت چاہی۔ الفاظ نے سیاہی کا لباس پہنا تو احساسات نے بھی زندگی کی رمق کو محسوس کیا۔ آنکھ نے عکس کو محفوظ کیا تو صفحہ دل پر بھی نشان باقی رہ گیا۔ یادوں کے بے ترتیب خاکوں سے گرد ہٹی تو مسکراہٹوں نے ان میں رنگوں کا جال بکھیرا۔ کانوں نے کسی کے قدموں کی چاپ سنی تو دل کی دھڑکن نے قدم سے قدم ملائے۔ ادھر ایک قدم اٹھا تو ادھر ایک دھڑکن پوری ہوئی۔

خیال کا وہ لمحہ کہ جسے نہ دیکھ سکیں نہ چھو سکیں، اتنا معتبر کیسے ہو گیا کہ وقت سحر سا پاکیزہ ٹھہرا؟ اظہار جذبات احترام کے دائرے میں مقید ہوں تو فرشتے بھی اشرف المخلوقات ہونے کی آرزو کریں۔ الفاظ حدود آشنائی سیکھ لیں تو صحیفہ الہامی سی تقدیس حاصل کریں۔ احساسات کو باطن کی شہادت ملے تو موجودات سے مقدم ٹھہریں۔ عکس زلف یار کا ہو تو آنکھ کی تشنگی برقرار رہے۔ یادوں کے چراغ آنکھوں میں جگمگائیں تو آسمان کے ستارے بھی اس کی روشنی کو ترسیں۔ اور دل کی دھڑکن کو ‘ادائے لغزش پا’ کی پہچان ہو جائے تو محبت بھی رشک کرے۔

خدا کے حکم ‘کن’ سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی تو گویا ایک کھوئے جہاں کا سراغ اس کے ہاتھ لگ گیا۔ کاتب تقدیر نے راستے بنائے تو ان پر چلنے کا اختیار انسان کو یہ کہہ کر دیا کہ اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ۔ زیست کے خاکے خود تخلیق کیے لیکن رنگوں کا اختیار فیصلہ انسانی پر یہ کہہ کر چھوڑا کہ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۔ جانوروں کے برعکس اس کو سوچنے کی صلاحیت دی تو سوچنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا کہہ کر اس کی آزمائش کی۔ مشاہدات مہیا کیے، دلائل کے انبار لگا دیے، خیر و شر کا ازلی شعور اس کی فطرت میں ودیعت کیا اور پھر قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا کہہ کر اس پر نتیجے کی مہر لگائی۔
قدرت کا یہ اصول ازلی و ابدی ہے۔ یہ ایسے ہی متعین ہے جیسے خود انسان کا اپنا وجود۔ یہی وہ قانون ہے کہ جس نے اسے وہ شرف عطا کیا کہ ملائک نے اس کی تعظیم کی۔ شعور محض حقیقت کا ادراک نہیں، باطل کی پہچان بھی اسی کا خاصہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے!

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply