چینی سوشلزم کے بارے میں ایک رائے۔۔شاداب مرتضی

چین اور یورپی یونین کے درمیان 22 جنوری کو  ایک بین الاقوامی تجارتی معاہدے پر سمجھوتہ طے پایا ہے جس پر گزشتہ سات سالوں سے مذاکرات جاری تھے۔ اس تجارتی سمجھوتے کے تحت یورپی سرمایہ کار چین میں اور چینی سرمایہ کار یورپ میں سرمایہ کاری اور تجارت کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت چین ریاستی کمپنیوں کی اجارہ داری کا دائرہ کار محدود کرے گا اور یورپی سرمائے کو زیادہ تحفظ اور ضمانتیں فراہم کرے گا۔

گزشتہ سال نومبر میں ایشیاء پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم کے اجلاس میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ژی جن پنگ نے چینی معیشت کو بین الاقوامی سرمائے کے لیے مزید کھولنے اور مختلف ملکوں سے آزاد تجارت کے معاہدے کرنے  کا اعلان کیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت چین اپنی معیشت کے مزید شعبے جو پہلے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے ممنوع تھے انہیں بین الاقوامی سرمائے کے لیے کھولے گا۔ یورپی یونین سے تجارتی سمجھوتہ اسی پالیسی کی ایک کڑی ہے۔ چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے مطابق پہلے معیشت کے 40 شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندی تھی۔ تاہم، اب چینی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ان میں سے  7 شعبوں کو غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ان شعبوں کا تعلق صنعت،  مینوفیکچرنگ، مالیاتی اور زرعے شعبہ جات وغیرہ شامل ہیں۔

چین کی فیڈریشن آف انڈسٹری اینڈ کامرس کے سربراہ، گاؤ ین لونگ، کے مطابق چین کے جی ڈی پی کا 60 فیصد، روزگار کا 80 فیصد اور تیکنیکی ترقی کا 70 فیصد حصہ نجی شعبہ  (پرائیوٹ سیکٹر) پیدا کرتا ہے جبکہ چین کا  ریاستی شعبہ (ریاستی کمپنیاں) جی ڈی پی کا صرف 40 فیصد مہیا کرتا ہے۔ 2017 میں چین میں 90 فیصد نئی ملازمتیں نجی شعبے نے مہیا کیں۔ زرعی شعبے میں، چین میں زمین کی چھوٹے پیمانے کی نجی ملکیت اور نجی کاروبار کا غلبہ ہے۔

گزشتہ سال (ستمبر 2020ء) میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی جانب سے جاری کیے گئے پالیسی بیان میں معیشت کے شعبے میں حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کے “متحدہ محاذ” کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے ذ ریعے پرائیوٹ کاروباروں کو چینی کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ سے زیادہ مربوط کیا جائے گا تاکہ چینی قوم کی معاشی عظمت کو پرشباب بنایا جائے۔ مرکزی کمیٹی کی جانب سے جاری کی گئی دستاویز میں کہا گیا:

“۔۔۔نجی معیشت میں پارٹی کے کام کو مضبوط بنانا ایک ایسا اہم وسیلہ ہے جس کے زریعے نجی معیشت پر پارٹی کی قیادت کا اظہار ہوتا ہے۔ چینی معاشی نظام کے اندرونی عنصر کی حیثیت سے، نجی معیشت ہمیشہ سے چینی ساختہ سوشلزم کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ایک اہم معاشی بنیاد رہی ہے۔ چینی عوام کے اراکین کی حیثیت سے، نجی معیشت پر عمل کرنے والے لوگ ہمیشہ “ہمارے لوگ” رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا اہم عنصر ہے جسے ہماری پارٹی کو لازمی طور پر مجتمع کرنا چاہیے اور اپنی طویل المعیاد حکومت کے لیے اس پر انحصار کرنا چاہیے۔ ہمیں چین کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے نجی معیشت کی اہمیت کو مکمل طور پر سمجھنا چاہیے، ہمیں مکمل طور پر نجی معیشت کی طویل المعیاد نوعیت کو اور نجی معیشت کے وجود اور ترقی کی ناگزیریت کو سمجھنا چاہیے، اور نئے عہد میں نجی معیشت میں متحدہ محاذ کے کام کی تخلیقی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔ یہ چیز نجی معیشت پر پارٹی قیادت کے استحکام کو مستقل بنانے میں مدد دے گی، نجی کاروبار کرنے والوں کی اکثریت کو پارٹی کے قریب تر لائے گی، اور ان عظیم الشان قوتوں کو مجتمع کرے گی جو چینی خواب کی تعمیر کے لیے مشترکہ کوشش کر رہی ہیں۔۔۔”

سو، چینی کمیونسٹ پارٹی کی “طویل المعیاد” معاشی پالیسی کا لب لباب یہ ہے کہ نجی معیشت کو، پرائیوٹ سیکٹر کو، سرمایہ داری کو، مستحکم کیا جائے۔ مرکزی کمیٹی نے اپنے بیان میں مزید کہا:

نجی معیشت میں متحدہ محاذ کے کام کو مستحکم کرنا چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ نظام کی ترقی اور بہتری کا ایک اہم پہلو ہے۔ چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ نظام کو برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے اور قومی حکومتی نظام اور حکومتی صلاحیتوں کی تجدید کے فروغ کے لیے ہمیں ہمیشہ، لازمی طور پر، چین کے بنیادی معاشی نظام سے وفادار رہنا چاہیے، اسے بہتر کرنا چاہیے، بغیر لڑکھڑائے عوامی معیشت کو مستحکم کرنا اور ترقی دینا چاہیے اور غیر عوامی معیشت کی ترقی کی بغیر ہچکچائے قیادت کرنا چاہیے، اس کی حوصلہ افزائی اور مدد کرنا چاہیے۔ نجی معیشت کے شعبے میں متحدہ محاذ کے لیے ہمیں لازما ً اچھی طرح کام کرنا چاہیے تاکہ نجی معیشت میں اصلاحات اور فروغ کے لیے قدم بڑھانے میں اور جوش و خروش سے کام کرنے میں مدد ملے، قومی حکومت میں سرگرم اور بہ رضا و رغبت شراکت ہو؛ وسائل کی فراہمی میں مارکیٹ کے فیصلہ کن کردار کو عمل میں آنے کا موقع ملے؛ حکومت کے کردار سے بہتر استفادہ کیا جا سکے؛ اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کی ادارہ جاتی برتری کے فوائد کا کامل مظاہرہ کیا جا سکے۔۔۔”.

سو، چینی سوشلزم کے نظریے کی خاصیت یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی چین میں طویل المعیاد بنیاد پر نجی معیشت کو مستحکم کرے۔ چین میں چینی قوم کی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے، اسے عظمت عطا کرنے کے لیے، نجی معیشت کو، سرمایہ داری کو، مستحکم کرنا چینی سوشلزم کا نصب العین ہے۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی اس اعتبار سے بھی امتیازی درجہ رکھتی ہے کہ اس میں سرمایہ داروں کو بھی رکنیت حاصل ہے جو انہیں اس بات کا اہل بناتی ہے کہ وہ چینی حکومت کے نمائندہ اداروں کا حصہ بنیں اور اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اوپر دیے گئے پالیسی بیان سے واضح ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی سرمایہ دارانہ مفادات کے اثر سے مسلسل مغلوب ہے اور اسی لیے ہنوز نجی معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

چین میں انقلاب (1949ء کا سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب جسے عموماً  غلط طور پر سوشلسٹ انقلاب سمجھا جاتا ہے) کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی کا مؤقف یہ تھا کہ چین ایک نہایت پسماندہ ملک ہے۔ اس کی پیداواری قوتیں بہت پسماندہ ہیں۔ اس لیے چین فورا ً سوشلسٹ معیشت کی تعمیر کا راستہ نہیں اپنا سکتا۔ اس کے لیے کم سے کم دو سے تین پنج سالہ منصوبوں کی ضرورت ہوگی یعنی تقریباً دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

تاہم سرمایہ دارانہ معیشت میں 70 سال کا عرصہ گزار دینے کے باوجود ہنوز چینی کمیونسٹ پارٹی کا مؤقف یہی ہے کہ چین کی معاشی ترقی کو اس قدر بلند کرنے کے لیے کہ اس کی پیداواری قوتیں سوشلزم کی تعمیر کے قابل ہو سکیں، سرمایہ دارانہ معیشت پر انحصار کرنا اب بھی ضروری ہے۔

گزشتہ 70 سال میں سرمایہ دارانہ معیشت کے تحت چین کی پیداواری قوتوں کی زبردست ترقی کے بعد اب کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ چینی کمیونسٹ پارٹی سرمایہ داری کا راستہ ترک نہ کرے اور چین میں سوشلزم کے قیام کے لیے انقلابی اقدامات نہ اٹھائے۔ تاہم، اس کے برعکس چینی کمیونسٹ پارٹی بین الاقوامی سرمائے کے لیے اپنی معیشت کے دروازے مزید کھول رہی ہے اور چینی سرمائے کو بین الاقوامی منڈیوں میں لگا رہی ہے۔ قومی معیشت کی ترقی کے لیے ہنوز نجی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے اقدامات اٹھا رہی ہے۔

اس اعتبار سے اگر ہم سوویت یونین، مشرقی یورپ کے سابق سوشلسٹ ممالک، شمالی کوریا یا کیوبا وغیرہ کی مثال سامنے رکھیں تو دکھائی  دیتا ہے کہ جب ان ملکوں نے سوشلزم کی تعمیر کا آغاز کیا تب ان کی معاشی ترقی کی سطح موجودہ چین کی معاشی ترقی کی سطح سے بہت زیادہ پسماندہ تھی۔ خصوصاً  سوویت یونین نے سوشلزم کی تعمیر کا کارنامہ سخت ترین سامراجی حلقہ بندی، معاشی تباہی اور سماجی ابتری کے دوران اور اپنی مدد کے لیے پہلے سے  موجود کسی سوشلسٹ ملک کے بغیر انجام دیا۔ اس کے برعکس چین کو یہ زبردست امتیاز  حاصل رہا ہے کہ اس کے پڑوس میں سوویت یونین جیسی ایک عظیم سوشلسٹ طاقت (اور  اس کے علاوہ دنیا می دیگر سوشلسٹ ملک بھی) موجود رہی ہے جس نے انقلاب کے ہر مرحلے پر چین کو ہر طرح سے مدد فراہم کی جس سے فائدہ اٹھا کر چین نہایت سرعت کے ساتھ سوشلزم تعمیر کر سکتا تھا۔ تاہم، ان زبردست موافق حالات کے باوجود چین سوشلزم کی تعمیر کی جانب نہیں بڑھ پایا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے وفد سے، 1949ء میں، گفتگو کرتے ہوئے اسٹالن نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی میں قوم پرست عناصر (سرمایہ داروں) کا اثر بڑھ رہا ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو قوم پرست عناصر مزدور طبقے کا گلا گھونٹ دیں گے:

جہاں تک میں جانتا ہوں، چینی کمیونسٹ پارٹی میں مزدوروں کی ایک پتلی تہہ ہے اور قوم پرست جذبات بہت مضبوط ہیں اور اگر آپ حقیقی مارکسی-لیننی طبقاتی پالیسیوں پر عمل نہیں کریں گے اور سرمایہ دارانہ قوم پرستی کے خلاف جدوجہد نہیں کریں گے، تو قوم پرست آپ کا گلا گھونٹ دیں گے۔ تب نہ صرف سوشلزم کی تعمیر کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ چین امریکی سامراج کے ہاتھوں میں ایک خطرناک کھلونا بن سکتا ہے۔ چین میں سوشلزم کی تعمیر کے لیے میں آپ کو پرزور تجویز دیتا ہوں کہ لینن کی زبردست تصنیف “سوویت اقتدار کے فوری فرائض” سے بھرپور استفادہ کریں۔ یہ کامیابی کو یقینی بنا دے گی۔”

1956ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پیش کردہ سیاسی اور معاشی پالیسی سے یہ واضح ہو گیا کہ اس کا ارادہ سرمایہ دارانہ عناصر کو کنٹرول کرنا اور ان کا قلع قمع کرنا نہیں بلکہ ان کے ساتھ مفاہمت کرنا اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ انقلاب کے بعد سرمایہ داروں سے مفاہمت، معیشت کی ترقی کے لیے سرمایہ داری پر مستقل، نہ ختم ہونے والا انحصار، سوشلزم کو چینی قوم کی عظمت اور نجی معیشت کے استحکام سے منسوب کرنا، یہ تمام خصوصیات چینی انقلاب کے مستقبل کے بارے میں اسٹالن کے خدشات کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس حوالے سے چینی ساختہ سوشلزم کے نظریے کے بارے میں اسٹالن نے 1949ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے وفد سے گفتگو۔میں یہ بھی کہا تھا:

آپ چینی سوشلزم کی بات کرتے ہیں۔ فطرت میں ایسی کوئی چیز نہیں۔ کوئی روسی، انگلش، فرنچ، جرمن یا اٹالین سوشلزم نہیں اسی قدر جس قدر کوئی چینی سوشلزم نہیں۔ صرف ایک سوشلزم ہے اور وہ ہے مارکسی-لیننی سوشلزم۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ سوشلزم کی تعمیر میں کسی خاص ملک کی مخصوص خاصیتوں کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ سوشلزم ایک سائنس ہے، اور ہر سائنس کی طرح، اس کے بھی بعض ضروری عمومی قوانین ہیں۔ بس کسی کو انہیں بھلا دینے کی ضرورت ہے اور ناکامی سوشلزم کی تعمیر کا مقدر بن جاتی ہے۔

چینی ساختہ سوشلزم کے بعض حامیوں کا خیال ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی کا چینی ماڈل سوویت یونین کی نئی اقتصادی پالیسی کا ہی ایک خاص نمونہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوویت روس کی نئی اقتصادی پالیسی (رہاستی سرمایہ داری) نہایت مخصوص معاشی حالات میں معیشت کے ایک محدود حصے پر لاگو کی گئی تھی اور وہ بھی صرف 6 سے 7 سال کی مدت کے لیے۔ سامراجی جنگ اور خانہ جنگی سے ہونے والی شدید تباہی نے سوویت روس کو مجبور کیا کہ وہ شہروں میں خوراک کی قلت ختم کرنے کے لیے زرعی پیداوار بڑھانے کی خاطر وقتی طور پر زعی شعبے میں سرمایہ داری کو بحال کرے۔ جب یہ عبوری دور گزر گیا تو سوویت روس نے نئی اقتصادی پالیسی ختم کر دی۔ تاہم چین 70 سال گزر جانے کے باوجود اور سرمایہ داری میں اپنی پیداواری قوتوں کی تمام تر ممکنہ ترقی کے باوجود اپنی “ننئی اقتصادی پالیسی” کو نہ صرف ترک کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس کے اقدامات واضح کرتے ہیں کہ ماضی کی طرح، وعدوں کے برعکس، اسے غیر معینہ مدت تک جاری رکھا جائے گا۔

حوالہ جات:

https://trade.ec.europa.eu/doclib/press/index.cfm?id=2115

https://www.bbc.com/news/business-54997193

https://www.eiu.com/n/china-opens-new-sectors-to-investment/

https://www.china-briefing.com/news/china-2020-negative-list-market-access/

https://trade.ec.europa.eu/doclib/press/index.cfm?id=2237

Advertisements
julia rana solicitors

https://www.marxists.org/subject/china/documents/cpc/8th_congress.htm

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply