فوج میں گزرے روز و شب(10)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

افسروں کی رہائش کے لیے تین کمرے تھے۔ بڑے کمرے میں میجر صاحب رہتے تھے اور دو چھوٹے کمروں میں, مَیں اور درّانی۔ ہر کمرے کی بخاری میں جلانے کے لیے فوج کی طرف سے ہر روز ڈیڑھ من لکڑی دی جاتی تھی جودھڑا دھڑ جلا کرتی تھی اور اس کے ساتھ مسلسل دو پانی کے جیری کین دھرے رہتے تھے کیونکہ پانی عمومی حالت میں برف کی طرح ٹھنڈا ہوتا تھا۔

دفتروں کے اُس پار ڈھلواں پہاڑ کے دامن میں فوجیوں کی دو بیرکیں تھی۔ ناردن لائٹ انفنٹری، گلگت کے سادہ افراد پر مشتمل تھی۔ مجھے جوگلگتی بطور بیٹ مین دیا گیا تھا اُ سکا نام ’’ دردانہ‘‘ تھا۔ نام تو خاصا نسوانی تھا لیکن وہ بڑا وجیہہ اور نیچی نظروں والا مرد تھا جو ہر بار بلانے پر اسی خشوع و خضوع سے سیلوٹ کرتا تھا جیسے وہ پہلی بار سیلوٹ کر رہا ہو۔ اِن فوجیوں کی وردیاں ملیشیا کے شلوار قمیض اور گلگتی ٹوپی پر مشتمل ہوا کرتی تھیں اور جرسیاں بھی عموماً ہائی نیک ہوتی تھیں۔ جانے سے پہلے مجھے بھی یونٹ سے ایسی ہی ایک جرسی فراہم کر دی گئی تھی ۔پاکستان کی مسلح افواج کی اِس خرابہ جہان میں بسائی گئی اس بے رنگ بستی کے سامنے کوئی ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر ایک پُر شور کوہستانی دریا بہتا تھا، جسے چوڑائی پر باندھے گئے لکڑی اور رسّوں کے ایک پُل سے پار کیا جا سکتا تھا۔

دریا کے اُس جانب کچھ جگہ وادی کا حصّہ تھی ۔ پھر پتھر کی ایک بہت اونچی دیوار سی تھی جس کے اوپر لگتا تھا میدان ہے۔ اِس دیوار کے ایک طرف ایک اونچا پہاڑتھا جو یوں لگتا تھا جیسے دس منٹ کی پیدل دوری پر ہے۔ پہاڑ اپنی دوری کے حوالے سے سراب کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی طرف بڑھنا شروع کر دو تو وہ دور ہوتے جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ پہاڑ کی جسامت اور حجم کے باعث نظر کا دھوکہ ہوتا ہے۔ دریا کے اِس طرف فوج کے دفتر اور بیرکوں کی سِمت زمین سے پھوٹتا ہوا چشمہ تھا جہاں سے پینے کا پانی جیری کینوں میں بھر کر لا یا جاتا تھا۔

اگرچہ اپریل کا وسط تھا لیکن برف ہر جگہ موجود تھی۔ میری یونٹ کی ڈی ٹیچ منٹ میرے علاوہ دو مَیل نرسوں پر مشتمل تھی۔ میڈیکل انسپیکشن روم، افسروں کے رہائشی کمروں سے 50گز کی دوری پر باقی کمروں کی طرح پتھروں سے بنا ہوا ایک کمرہ تھا۔ میں اپنے کئی مہینوں کے قیام کے دوران بمشکل ہی دو چار بار وہاں گیا تھا۔ اوّل تو کوئی مریض ہی نہیں ہوتا تھا اور اگر کبھی کِسی کو نزلہ زکام ہو بھی جاتا تو میل نرس مجھ سے کمرے میں آ کر ہی نسخہ لکھوا لیا کرتے تھے۔

وردی تو گِن کر میں نے تین بار پہنی تھی۔ ایک نئے بریگیڈ کمانڈر کی آمد کے موقع پر، ایک کور کمانڈر جنرل فیض علی چشتی کے دورے کے موقع پر ایک بار چھٹی پر جاتے ہوئے۔ میجر عثمان اور کیپٹن درّانی توہرروز وردی پہن کر دفتر میں جا بیٹھا کرتے تھے ۔ وقت ایسے کٹ رہا تھا جیسے منجمد ہو گیا ہو۔ دنیا سے ایسے کٹے ہوئے تھے جیسے کشتیء  نوح کے سوار ہوں۔ زندگی ایک خاص دُھر پر چل رہی تھی۔ صبح کو دردانہ آ کر بیڈ ٹی پیش کر دیتا تھا۔ پھر نہانے کے لیے ٹب میں گرم پانی بھر دیتا تھا۔ ناشتہ آجاتا تھا۔

دوپہر اور رات کا کھانا ہم تینوں مل کر میجر عثمان قریشی کے کمرے میں کھایا کرتے تھے۔ رات ہو جاتی تھی۔ کمروں میں لالٹین روشن کردی جاتی تھی اور پھر ہم اپنے کمبلوں میں گھس جاتے تھے۔ ہُو کا سناٹا ہوتا تھا۔ کِسی جانور تک کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، صرف کوہستانی دریا کا ایک ہم آہنگ سا شور سنائی دیتا تھا یا پھر کبھی دریا پر جمی برف کے ٹوٹنے سے تڑاخ کی آوازسنائی دے جاتی تھی۔ پھر صبح ہو جاتی تھی۔ ایک دائرہ تھا اوراس کولہو کے ہم بیل تھے۔ پھر برف پگھلنا شروع ہو گئی تھی۔۔

پگھلتی ہوئی بر ف میں سے اُبھرتے ہوئے کاسنی اور سفید جنگلی پھولوں کی رم آرائی میں نے وہاں کے بعد زندگی میں کہیں بھی نہیں دیکھی۔ جہاں سے بھی برف پگھل جاتی اور زمین ننگی ہو جاتی وہیں زمین کے سینے سے یہ عجوبہ نمودار ہو رہا ہوتا تھا۔ برف پگھلنے کا عمل ایک بار شروع ہو جائے تو پھر بہت تیز ہوتا ہے۔ تھوڑے ہی دنوں میں زمین نے برف کا چوغہ اتار کر پھولوں اور ہریالی کا چوغہ پہن لیا تھا۔

جی ہاں وہاں درجہ حرارت کو تھرمامیٹر کی بجائے چوغوں سے ماپا جاتا ہے یعنی ایک چوغے کی سردی یا چار چوغوں کی سردی۔ مقامی لوگوں میں سے میں اب تک صرف ایک شخص کو دیکھ پایا تھا جو ایک آنکھ سے کانا تھا۔ ساتھ کی بستی میں اس کی تین لڑکیاں جی ہاں لڑکیاں بیویاں تھیں، جن سے اُس نے متعہ کیا ہوا تھا۔ متعہ کا لفظ سنا ہوا تھا اور یہی جانتا تھا کہ شیعہ مسلک میں عارضی طور پر جنسی تسکین کی خاطر یہ مذہبی لچک رکھی گئی ہے۔ اِس کانے، ادھیڑعمر اور معاشی طور پر بدحال شخص کی تین نوجوان شرکائے بدن کا سن کر متعہ  کے بارے میں اُسی سے معلوم کیا تھا۔ اُس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردومیں بتا یا تھا کہ وہ ان لڑکیوں کا محض نان نفقہ دیتا ہے۔۔جب چاہے انہیں چھوڑ کر دوسری لڑکیوں سے متعہ کر سکتا ہے۔ بچے ہونے کی صورت میں وہ بچوں کی کفالت کاخرچ اٹھائے گا۔

میرے میل نرس اس سے بہت جلتے تھے کیونکہ وہ ان سے فیملی پلاننگ کے سلسلے میں آئے ہوئے مانع حمل غبارے لے جایا کرتا تھا۔ یہاں فیملی پلاننگ والوں کی سہولت فوج کے طبّی شعبے میں موجود ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی سول آبادی کو بھی فوج ہی علاج کی سہولت فراہم کرتی تھی۔ ویسے تو لوگ اپنے مقامی ٹوٹکے ہی آزمایا کرتے تھے۔ اِس علاقے میں مذہبی رہنما کو شیخ کہا جاتا ہے اور شیخ نے اپنے پیرو کاروں کو تنبیہہ کر دی تھی کہ اگر کوئی لڑکی ’’ پنجابی‘‘ فوجی کے ساتھ ملوث ہوئی تو اس کے ہاں ’’ جن‘‘ پیدا ہونگے۔ ’’ پنجابی فوجیوں‘‘ نے بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اگر جن پیدا ہوگئے تو وہ ہیلی کاپٹر کی طرح ان کے لیے شہروں سے سامان لایا کریں گے لیکن انہیں حال مست رہنا منظور تھا مگر کِسی پنجابی اور وہ بھی سنّی جِن ساز کے ہتھے چڑھنا قطعی منظور نہیں تھا۔

موسم کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔ ایک بار ساتھ کے گاؤں کا کوئی شخص آیا تھا اور ایک زچہ کے معائنے کی درخواست کی تھی کیونکہ اسے بخا ر تھا۔ میں چلا گیا تھا میرے ہمراہ میرا میل نرس نذیر تھا۔ پہاڑ کی تلہٹی میں یہ بستی چند مکانوں پر مشتمل تھی۔ ڈھلواں پر ایک کمرہ بنا کر اُس پر ایک اور کمرہ استوار کیا ہوا تھا۔ نیچے والے بند کمرے میں زولو(Zulu) تھے۔ یہ گائے اور یاک کی مخلوط نسل کے جانور تھے جو اپنی سستی اور ثابت قدمی کے لیے مشہور تھے ۔بد ترین حالات میں بلند ترین مقام تک بار برداری کے یہ جانور بہت ہی آہستہ آہستہ لیکن آخر کار پہنچ سکتے تھے۔

اِن جانوروں کے گوبر کی گرمی سے اوپر والے کمرے کو گرم رکھا جا تا تھا۔ میں نے مریضہ کا معائنہ تو بہر حال کر لیا تھا لیکن میں نے وہاں سے نکلنے ہی میں عافیت محسوس کی تھی۔ یہ مقامی لوگ فوج کو سال بھر کی لکڑی فراہم کرتے تھے۔ خداکا دیا ہوا پانی بہت تھا لیکن قدیم روایات کے قیدی یہ مقامی لوگ شاید سال میں بھی ایک بار نہیں نہاتے تھے۔

گرمیاں آتی تھیں تو ایک چوغا پہنے رہتے تھے اور سردیوں میں ان میں اضافے پر اضافہ کرتے چلے جاتے تھے ۔ اِس علاقے میں لڑکیوں کے والد کواس کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کے عوض رقم یا جانور دینے کا رواج تھا۔

پھر یہ لڑکیاں بیویاں بن کر مردوں کی غلام بن جاتی تھیں۔ لکڑیاں اکھٹی کرکے ڈھونے سے لے کر بچہ پیدا کرنے اور گھر کا سارا کام کرنے کی ذمہ داری ان پر ہی تھی۔ اِس لیے ان کا ’’ بودار‘‘ حسن جلد ہی ڈھل جاتا تھا اور وہ وقت سے کہیں پہلے بوڑھی ہو جاتی تھیں۔ مرد یا تو اون بُنتے  تھے یاپھر ریڈیو سنتے تھے۔ یا اگر موڈ آ گیا تو مختصر گرمیوں کے عرصے میں ایک آدھ بارچھوٹے چھوٹے کھیتوں میں ہل کی ہتھی پر ہاتھ دھرنے کا گناہ کر لیا کرتے تھے۔

موسم کے بہتر ہوتے ہی کیپٹن درّانی نے مختلف چوکیوں Picketsکادورہ کرنے کا پروگرام بنا یا تھا۔

میں بھی بیکاری سے اکتا گیا تھا۔ زندگی چند میٹرز میں تک  محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔ اکتاہٹ اس قدر زیادہ تھی کہ الامان البتہ ایک موقع ایسا آیا تھا جس میں کچھ منٹ اور طرح کے گذرے تھے۔ کِسی مقامی فوجی کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی اطلاع ملی تھی۔ میجر عثمان نے انہیں جشن منانے کی اجازت دے دی تھی۔

رات کے اندھیرے میں ہوائی فائرنگ سے وادی گونج اٹھی تھی۔ رنگین روشنیوں والے فائر بھی داغے گئے تھے، یوں تھوڑا سا آتش بازی کا سا سماں پیدا ہو گیا تھا۔ پھر ہم تینوں افسر بیرک میں گئے تھے جہاں مردوں نے گلگتی رقص کیے تھے۔ یہ رقص بہت ہی دھیمے بھاؤ کے تھے۔ میجر عثمان کو بھی سپاہیوں نے رقص کی درخواست کی تھی اور انہوں نے رقص کر لیا تھا، پھر اپنی ویران سی نیلی آنکھوں کو ہنسنے میں ملوث کیے بغیر دو قہقہے لگا کر دانت سے مونچھیں کاٹنے لگے تھے۔ اب اتنی طویل اکتاہٹ کے بعد جب طارق نے پیدل چلنے کی ٹھانی تھی تو میں نے بھی اس کے ساتھ جا نے کی ہامی بھر لی تھی۔ ہمارا پہلا پڑاؤ شکمہ تھا۔

طریقہ یہ تھا کہ آدھے راستے تک کچھ سپاہی پہلے چلے جاتے تھے تاکہ تازہ دم کرنے کے لیے چائے وغیرہ کا بندوبست کر سکیں۔ ہم نے دو سپاہی ہمراہ لیے تھے اور تنگ مقام پر دریا عبور کرکے، دریا کے اُ س پار دو ڈھائی گھنٹے پیدل چلتے رہے تھے۔ ہر طرف ہریالی تھی ۔ اتنی بلندی پر درخت نہیں ہوتے صرف جھاڑیاں اور گھاس ہوتے ہیں۔ بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر جا کر ’’Tree Line‘‘ یعنی درختوں کے اگنے کی استعداد ویسے بھی دم توڑ دیتی ہے اور پھر بے گیاہ چٹانیں ہوتی ہیں یا برف ۔ ہم ابھی نو ہزار فٹ کی بلندی پر چل رہے تھے۔ گھاس پھول اور تتلیاں، جھاڑیاں اور بوٹے آنکھوں کوتراوٹ اور ذہن کو سکون دینے کا باعث بن رہے تھے۔ جہاں سپاہیوں نے چائے کا بندوبست کیا تھا وہاں پہنچ کر ایسے لگا تھا جیسے پورا ایک پہاڑ ہی گلاب بن گیا ہے۔ یہ دراصل جنگلی گلاب تھے لیکن ان کا ر نگ عام جنگلی گلاب کی طرح سرخ نہیں تھا بلکہ گلابی تھا اورپھول گلاب کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔

دردانہ میرے ہمراہ تھا میں نے اُس کے ذمے لگا دیا تھا کہ جب تک ہم چائے پیتے ہیں، وہ ڈھیرسارے پھول توڑ لے۔ وہ تو حکم کا بندہ تھا، تعمیل میں جت گیا تھا۔ ہم نے سیاہ مرچوں اور دوسرے مصالحوں والی چائے پی تھی اور پکوڑے کھائے تھے۔ اِس طرح کی نمکین چائے مقامیوں کی رِیت تھی جو پہاڑی سفر میں تروتازہ رکھتی ہے۔ جب ہم فارغ ہوئے تو دردانہ نے پھولوں کی گٹھڑی بھر لی تھی۔ دردانہ نے پوچھا تھا، ’’ سر، ان پھولوں کا کیا کرے گا ‘‘؟ میں نے کہا تھا ’’ اِن کی گل قند بنائے گا‘‘۔’’ ٹھیک ہے سر!‘‘ یہ کہہ کر وہ سیلوٹ مار کر واپسی کے سفر پر روانہ ہو گیا تھا اور ہم آگے کی جانب چل پڑے تھے۔

چار پانچ گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم ایک جگہ پہنچے تھے جہاں سے کچھ آگے پہاڑ اور دریا قریب آرہے تھے۔ دریا کے آر پار ایک لوہے کی تار بندھی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک ٹوکری نما جھولا لٹک رہا تھا۔ جھولے کو ایک دوسری رسی کی مدد سے دریا کے دونوں طرف کھینچ کر لایا اور دوسری جانب پہنچا یا جا سکتا تھا۔

تار سے دریا کی گہرائی پندرہ گز کے قریب ہو گی۔ جب ہم وہاں پہنچے تھے تو اِس جھولے میں بیٹھے ہوئے دو مقامی افراد، رسی کو کھینچتے ہوئے اس پار جا رہے تھے۔ وہ جب اس پار اتر گئے تو ہم نے جھولااس طرف کھینچ لیا تھا۔ میں ایک سپاہی کے ہمراہ اس میں بیٹھ گیا تھا اور سپاہی نے رسی کھینچنا شروع کردی تھی۔

دریا کے درمیان پہنچ کر جھولا تیز ہوا کے باعث ہلکورے لے رہا تھا۔ میں جھولے میں آلتی پالتی مارے اوراس کی تنیوں کو اِس مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھا تھا کہ لگتا تھا تنیاں میری ہتھیلی میں پیوست ہوگئی ہیں۔ نیچے دیکھنے سے سر چکرانے لگتا تھا کیونکہ سر شور دریا کا پانی چٹانوں سے ٹکریں مارتا، چنگھاڑتا اور جھاگ اڑاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ پانی کا رنگ نیلگوں مائل سفید تھا۔ میں دیو کے سر اور کندھوں کے اوپر سے گزررہا تھا۔ اگرچہ میں نے خود کو سنبھالا ہوا تھا لیکن لگتا تھا کہ میرا رنگ اُڑاجارہا ہے۔ اُس طرف کھڑے کیپٹن درانی کی مسکراہٹ میری اِس کیفیت کی چغلی کھارہی تھی پر میرا حوصلہ بندھا رہی تھی۔ جھولے میں ٹنگی ہماری ٹولی دریا کے اِس پار اتر چکی تھی مگر دل کی کپکپی ابھی تھمی نہیں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply