بلبل ہند۔۔۔شکور پٹھان

مجھے نجانے کس حکیم نے لکھنے کا مشورہ دیا تھا اور اگر لکھنے کا ایسا ہی ہو کا تھا تو اپنی اوقات میں رہ کر لکھتا۔کچھ دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھلا ایسے لوگوں کے بارے میں لکھنے کی کیا تک ہے جنہیں نہ میں نے دیکھا، نہ کبھی ان سے ملا اور نہ ان کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ کہیں کوئی نام پڑھ لیتاہوں ، یا کسی کا کوئی نقش ایک زمانے سے دل پر قائم رہتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس کی باتیں کروں۔ کچھ لوگوں کی دوایک باتیں دل کو بھاتی ہیں اور جی چاہتا ہے کہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کروں۔

یاروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ میں ان لوگوں کے بارے میں صرف اچھا اچھا ہی دکھاتا ہوں ، ان کی کمزوریاں اور خامیاں نہیں بتاتا ۔۔۔۔تو بھائیو! بات یہ ہے کہ کسی کی برائیاں لکھ کر مجھے کیا راحت ملے گی۔ اچھائی لکھ کر کم از کم یہ امید تو ہوتی ہے کہ میرے اور پڑھنے والوں کے دل میں کہیں یہ خواہش ہو کہ کاش ایسی کوئی خصوصیت ہم میں بھی ہو۔ برائی لکھ کر بھلا مجھے کتنے  نفلوں کا ثواب ملے گا۔ اور یہ کہ میں نہ بھی لکھوں تو بال کی کھال نکالنے والے اور سخت تنقیدی نظر رکھنے والے کوئی نہ کوئی بُرا  اور منفی پہلو ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔ تو جناب آپ اپنا کام کیجئے اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔

اور کچھ ایسی ہستیاں ہیں کہ نجانے کب سے دل ودماغ کے کسی گوشے سے سر ابھارتی ہیں کہ جو لگن تمہیں مجھ سے ہے اسے دنیا سے نہ چھپاؤ۔ اور پھر اپنی کم علمی اور محدود مطالعے کے باوجود میں حسرت موہانی، راجہ صاحب محمود آباد اور نواب بہادر  یار جنگ جیسے لوگوں کے بارے میں لکھ ڈالتا ہوں کہ ان کی شخصیت کے روشن پہلو اس قدر اثر انگیز ہوتے ہیں کہ میرا قلم چاہے طاقت نہ رکھتا ہو، ان کی خوبیاں اپنے آپ کو منواتی چلی جاتی ہیں۔

ایسی ہی ایک ہستی جس کے بارے میں بچپن سے یہاں وہاں پڑھتا آیا ہوں اور ہمیشہ اچھی باتیں ہی پڑھتا آیا ہوں لیکن جس کے بارے میں کبھی تفصیل سے علم نہیں تھا، وہ بلبل ہند سروجنی نائیڈو کی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں سروجنی نائیڈو اور مسز وجے لکشمی پنڈت کو خلط ملط کردیتا تھا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں بہت قابل احترام اور ہردلعزیز خواتین تھیں۔ وجے لکشمی پنڈت بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ہمشیرہ تھیں۔ ان کی باتیں پھر کبھی۔ آج ذرا بلبل ہند کی چہچہاہٹ کا لطف لیں ۔

سروجنی نے میرےقائد کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا تھا حالانکہ اس خطاب کی وہ خود بھی کم مستحق نہ تھیں۔ وہ حافظ و رومی کے ساتھ اقبال اور جناح کی باتیں ان دنوں کرتیں جب اپنوں نے بھی جناح اور اقبال کو پوری طرح نہیں اپنایا تھا۔

ایک بہت پڑھے لکھے بنگالی خاندان کی چشم وچراغ جنہوں نے حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی ، سروجنی اپنے وقت کی انتہائی قابل خاتون تھیں جنہوں نے صرف بارہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان نے انہیں اعلیٰ  تعلیم کے لئے انگلستان روانہ کیا جہاں کنگز کالج اور کیمبرج اورگرٹن کالج وغیرہ سے بہت سارا پڑھ کر وہ ہندوستان لوٹیں تو اس وقت ہندوستان میں آزادی کی لہریں کروٹیں لے رہی تھیں۔ انگلستان میں شیلے اور کیٹس کی شاعری سے متاثرہ سروجنی نے جب ہندوستانی رنگ میں انگریزی شاعری شروع کی تو دنیا ان کی شاعری کی دیوانی ہوتی چلی گئی۔Golden Threshold , Broken Wings, The Bird of time, Lady of Lake جیسی نظموں سے ان کی شاعری کی دھوم ہوگئی۔ لیکن یہ ان کی خطابت تھی جس نے ایک عالم کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ وہ نسوانی حسن کے اس معیار پر نہیں تھیں جہاں انہیں جاذب نظر اور پرکشش کہا جائے، لیکن جب وہ تقریر کا آغاز کرتیں تو محسوس ہوتا کہ دنیا میں ان سے زیادہ حسین کوئی نہیں۔ سننے والے گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں اور ہفتے اس کے سحر سے باہر نہ آپا تے۔

غلام ہندوستان میں آزادی کی ہر تحریک خواہ وہ سول نافرمانی کی تحریک ہو یا بھارت چھوڑ دو  یا ستیہ گرہ کی ، گوپال کرشنا گوکھلے سے متاثر سروجنی ہر تحریک کے ہراول دستے میں گاندھی، نہرو اور جناح کے شانہ بشانہ نظر آتیں۔قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلیں، انڈین نیشنل کانگریس کی صدر، آل انڈیا ویمنز ایسوسیشن کی صدر، آزادی کے بعد ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے یوپی کی گورنر اور دیگر حیثیتوں میں سروجنی نائیڈو نے ایک بھرپور اور متاثر کن سیاسی زندگی گزاری، لیکن شاعرانہ طبیعت کی حامل، خطابت وگفتار میں یکتا، آزادی کی دل دادہ اور تحریک آزادی کی نمایاں ترین مجاہدہ، سروجنی کی زندگی کے کئی پہلو تھے جس میں نسوانی آزادی اور عورتوں کے حقوق کے لئے ان کی جدوجہد کے باعث ان کے یوم پیدائش کو ہندوستان میں خواتین کا قومی دن قرار دیا گیا۔

اوران کی گو ناگوں بو قلموں زندگی دیکھیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ شاعرہ بڑی ہیں ، یا مقررہ، یا سیاستدان یا خواتین کے حقوق کی علمبردار۔ ان کی مشرقیت، نسوانیت، حریت پسندی، روشن خیالی، حب الوطنی، دانشوری، انسان دوستی، بلند نظری، وسیع القلبی غرض کیا چیز ہے جس میں و بے مثال نہ تھیں۔
سروجنی ہر تنگ دلی سے نفرت کرتی تھیں چاہے وہ مذہبی ہو یا علاقائی یا لسانی۔ انہوں نے اسلام کا گہرا مشاہدہ کیا تھا، آنکھ کھولی تو آس پاس کا ماحول، پڑوسی اور دوست مسلمان پائے۔ بقول گاندھی جی ” میرے مقابلے میں سروجنی مسلمانوں کو زیادہ قریب سے جانتی ہے۔ مسلمان گھروں میں اس کے لئے جو اپنا پن پایا جاتا ہے، میں ایسی اپنائیت کا تصور بھی نہیں کرسکتا”۔

اسلامی نظریات کی تازگی اور روح اسلام کی توانائی نے سروجنی کو بہت متاثر کیا تھا۔ مساوات انسانی کی عملی تعبیر انہیں اسلام میں نظر آتی۔ ایک موقع پر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” اگرچہ میں تمہارےدوش بدوش کھڑے ہونے کے باوجود تمہاری نظروں میں ایک کافرہ ہوں، مگر میں تمہارے سارے خوابوں میں تمہاری شریک ہوں اور تمہارے بلند خیالوں میں تمہارے دوش بدوش ہوں کیونکہ اسلام کے نظریات بنیادی اور حتمی طور پر اتنے ترقی پسند ہیں کہ کوئی انسان جو ترقی سے محبت کرے ان پر ایمان لانے سے انکار نہیں کرسکتا”۔

مقبولیت اور محبوبیت میں کم ہی رہنما بلبل ہند کے پاسنگ تھے۔ اسلام دوستی اور مسلمانوں کی محبت بچپن سے ان میں بسی ہوئی تھی بقول مختار مسعود ‘ سروجنی کی تربیت میں نہ جانے کون کون سے عوامل ہونگے، مگر اس کی بصیرت میں گنگا جل سے زیادہ آب زم زم کا اثر ملتا ہے۔

امیر غریب، رئیس ، عوام ، حکمران سب ان کے دوست تھے۔ سروجنی کو میرے قائد سے گہری محبت تھی۔ قائداعظم کے انتقال پر انہوں نے جوپیغام بھیجا وہ لازوال تھا۔ ” ہزاروں ماتم کناں اپنے عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں لیکن میں شدت سکوت غم کی گہرائیوں سے محبت آمیز یادوں کا ایک لازوال پھول بھیج رہی ہوں جسے تم میرے عزیز دوست کی قبر پر رکھ دینا”۔( مختار مسعود۔۔آواز دوست)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہندوستانی جسے ” بھارت کو کیلا ‘ یعنی بلبل ہند کہتے تھے مارچ 1949 میں اس بلبل کی آواز ہمیشہ کے لئے ہم سے روٹھ گئی لیکن اپنے پیچھے ایسی مدھر یادیں اور باتیں چھوڑ گئی جو آج بھی چاروں جانب ایک ٹھنڈک اور خوشبو پھیلا دیتی ہیں۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply