انڈونیشیا (3) ۔ ابتدائی برس/وہارا امبار

انڈونیشا ملک تو بن گیا لیکن نئے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا تھا جو کہ آزادی کے وقت سے پہلے سے چلے آ رہے تھے۔ نیدرلینڈز کا اس کو کالونی بنانے کا مقصد خود کو فائدہ پہنچانا تھا۔ انڈونیشیا معاشی طور پر پسماندہ تھا۔ آبادی بڑھنے کی رفتار ہوشربا تھی (یہ 1960 میں تین فیصد سالانہ تھی)۔ انڈونیشیا میں قومی شناخت کا احساس کمزور تھا۔ لوگ خود کو جاوا، سماٹرا، مولوکا یا دوسرے علاقائی حوالوں سے شناخت کرتے تھے۔ انڈونیشیائی بڑی حد تک اجنبی شناخت سمجھی جاتی تھی۔ بہاسا زبان ابھی تک زیادہ مستحکم نہیں ہوئی تھی۔ مقامی علاقائی زبانوں کا غلبہ تھا۔ اور وہ جو خود کو انڈونیشیائی کہلاتے بھی تھے، ان میں مختلف گروہ انڈونیشیا کے مستقبل کا اپنا الگ وژن رکھتے تھے۔ کچھ لیڈر اسے اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ کچھ اسے کمیونسٹ ملک بنانا چاہتے تھی۔ جاوا سے باہر والے علاقائی خودمختاری چاہتے تھے۔ کئی جگہ پر علیحدگی پسند تھے جن کے لئے جاوا کا تسلط ناقابلِ قبول تھا۔ علاقائی بغاوتیں ہوئیں۔ ری پبلک کی فوج نے انہیں بالآخر شکست دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈونیشیا کی فوج خود تضادات کا شکار تھی۔ اس پر بحث تھی کہ اس کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ آیا کہ باقی جمہوری ممالک کی طرح اسے سویلین کنٹرول میں ہونا چاہیے؟ لیکن انڈونیشیا کے فوج افسر سیاستدانوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ کیا فوج کو اپنا آزاد تشخص اور اپنی پالیسیاں بنانی چاہییں؟ فوج خود کو آزادی کا نمائندہ سمجھتی تھی جو قوم کو متحد رکھ سکتی تھی۔ اس نے پارلیمان میں اپنے لئے ووٹنگ بلاک کا مطالبہ کیا۔
سویلین حکومت فوج کے اخراجات کم کرنا چاہتی تھی۔ ملک امیر نہیں تھا۔ حکومت کی خواہش تھی کہ فوجی افسران کی تعداد کم کی جائے۔
انڈونیشیا کی فضائیہ اور بری فوج کی آپس میں بھی کشیدگی تھی۔ آرمی کمانڈروں کے درمیان اختلافات تھے۔ مرکزی کمان اور علاقائی افسران کے درمیان اتفاق نہیں تھا۔ ملٹری لیڈروں نے کاروبار کھول لئے تھے۔ سمگلنگ میں ملوث تھے۔ ریڈیو اور بجلی پر ٹیکس اکٹھا کرتے تھے اور علاقائی معیشت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ کرپشن کو اداراتی تحفظ مل گیا تھا۔ اور آج بھی کرپشن انڈونیشیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈونیشیا کے بانی صدر سوئیکارنو نے اپنا کیرئیر ڈچ حکمرانی کے خلاف قوم پرست لیڈر کے طور پر شروع کیا تھا۔ ڈچ نے انہیں جلاوطن کر دیا تھا۔ جاپانی انہیں ملک واپس لائے تھے۔ سترہ اگست 1945 کو ملک کی آزادی کا اعلان کرنے والے سوئیکارنو تھے۔ قوم کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہوں نے پانچ اصول تشکیل دئے تھے۔ یہ پینکاسیلا کہلاتے ہیں۔ یہ انڈونیشیا کے پہلے آئین کا حصہ تھے اور آج بھی یہ انڈونیشیا کو متحد رکھنے والی چھتری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وسیع اصول ہیں۔
ایک اللہ پر ایمان۔
انڈونیشیا کی قومی وحدت۔
انسانی حقوق۔
جمہوریت۔ اور
انڈونیشیا کے شہریوں کے لئے بلاتفریق سماجی انصاف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئیکارنو نے انڈونیشیا کی غربت کا قصوروار کالونیل دور کو ٹھہرایا۔ ڈچ سرمائے کو قومیا لیا اور اس کا انتظام انڈونیشیا کی فوج کے حوالے کر دیا۔ مرکزی معیشت قائم کی۔ اس پر فوج، بیوروکریسی اور خود ان کا قبضہ تھا۔ کرپشن عام تھی۔
امریکہ اور برطانیہ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے سوئیکارنو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ سوئیکارنو کا ردِعمل تھا کہ “امداد بھاڑ میں جائے”۔ 1965 میں انہوں نے اقوامِ متحدہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے علیحدگی اختیار کر لی۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ معیشت زمین بوس ہو گئی۔ اس سال انڈونیشیا کی کرنسی نوے فیصد گر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشی بدحالی ان محرکات میں سے تھی جس نے اس وقت میں انڈونیشیا کی تاریخ کے سیاہ ترین باب کو جنم دیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply