غیر ضروری پردے پہ وارث شاہ کی تنقید ۔-6/کاشف حسین سندھو

پہلے اک بند دیکھ لیں
ایس گھنڈ وچ بہت خرابیاں نیں اگ لائیکے گھنڈ نوں ساڑیئے نی
گھنڈ حسن دی آب چھپا لیندا وڈے گھنڈ والی رڑے ماریئے نی
گھنڈ عاشقاں دے بیڑے ڈوب دیندا میناں تاڑ کے پنجرے ماریئے نی
تدوں ایہ جہان سب نظر آوے جدوں گھنڈ نوں زرا اتاریئے نی
گھنڈ انھیاں کرے سجاکھیاں نوں گھنڈ لاہ مونہہ اتوں لاڑیئے نی
ساڑ گھنڈ نوں کھول کے ویکھ نیناں نی انوکھیاں سالواں والیے نی
وارث شاہ نہ دبیئے موتیاں نوں پھل اگ دے وچ نہ ساڑیئے نی
( اس پردے میں بہت خرابیاں ہیں اس پردے کو آگ لگا کر جلا دینا چاہیے پردہ حسن کی آب چھپا لیتا ھے بڑا گھونگھٹ نکالنے والی سے بے اعتنائی برتنی چاہیے بڑا گھونگھٹ عاشقوں کے لیے عذاب ھے یہ آزاد پنچھی کو قید کر کے مارنے کے مترادف ھے پردہ عورت کو اندھا کر دیتا ھے اس پردے کو منہ سے اتار پھینکو پردہ اتارو اور دنیا کو کھلی نظروں سے دیکھو اے خوبصورت لباس والی ۔ وارث شاہ اگر موتی زمین میں دبا دیئے جائیں اور پھول آگ میں جلا دیئے جائیں تو یہ کہاں کی عقلمندی ھے )
پنجاب کی عورت صدیوں سے اپنے مرد کے ساتھ کھیتوں میں شانہ بشانہ کام کرتی آئی ھے حقیقت یہ ھے کہ دیہی معیشت اسکے کام کے بناء چل ہی نہیں سکتی وارث شاہ پردے پہ تنقید کرتے ہوئے “وڈے گھنڈ” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں یعنی کہ وہ پردہ جو عورت کے لیے دنیا کو اندھیر کر دے وگرنہ عام پنجابی عورت ایک دوپٹے ، چادر یا جسے چنی بھی کہتے ہیں ہمیشہ سے استعمال کرتی آئی ھے لیکن یہ جس پردے کو اب مذہبی حلقوں کیجانب سے عورت کے لیے لازم بتایا جا رہا ھے اسے پنجاب میں عام ھوئے ڈیڑھ دو سو برس ہوئے ہیں کامن سینس کی بات ھے کہ کیا ایک عام عورت مکمل پردے میں شدید گرمی کے دنوں میں کھیتوں میں کپاس کی چنائی یا چارے کی کٹائی کر سکتی ھے ؟ محض پردہ عورت کی اخلاقی حالت بہتر نہیں بنا سکتا اور اخلاقی معیارات بھی کبھی ایک جگہ ٹکے نہیں رہتے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں ہزاروں برس تک یورپ عورت کی بکارت کے حوالے سے اتنا حساس رھا ھے کہ کئی امیر گھرانوں میں عورت کو لباس کے نیچے سے لوہے کا کچھا پہنایا جاتا رھا ھے جسکی چابی اسکے باپ کے پاس ھوتی تھی کہ کہیں وہ شادی سے پہلے اپنا کنوارپن ضائع کر کے ناپاک نہ ہو جائے اسی دور میں یورپ نے جہالت اور فرسودگی کے ریکارڈ بنائے اہلِ یورپ اپنے اسی دور کو تاریک دور سے یاد کرتے ہیں لیکن آج عورت کی بکارت یورپی سماج کا موضوع ہی نہیں رھا تو اسلیے جن اخلاقی اقدار کی حمایت میں ھم حساس رہتے ہیں انکے بارے یہ سوچ لینا چاہیے کہ ھو سکتا ھے وہ آپکی آنے والی نسلوں کے لیے موضوع ہی نا ھوں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply