واردات۔۔۔کوثر جبین

میں نے انہیں دور سے ہی آتے دیکھ لیا تھا۔ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔ لیکن اب واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ تیزی سے بھاگتی بائیک کو گن پوائنٹ پر رکنا ہی پڑا۔ اس جگہ پر قدرے سناٹا ہوتاتھا۔ میں اپنے دوست سعود کے ساتھ موٹر سائیکل پر تھا۔ میں نے سوچا، لوگوں کو اسلحہ دکھانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بغیر اسلحے کے ہی نامعلوم ضرورت مند افراد کو اپنا سارا اثاثہ پیش کردیا کریں ۔ کم از کم جان جانے کا خطرہ یاا ندیشہ تو ٹلے گا۔ لیکن یہ سوچ لمحے کے ہزارویں حصے میں دماغ میں آئی تھی۔ میں نے سر جھٹکا اور حال پر فوکس کیا۔ میری نظر ا ن کے ہاتھوں پر تھی۔ ذراسی غلطی سے جان بھی جاسکتی تھی۔
جلدی جلدی سب نکال دو۔ کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش بھی نہ کرے۔ بٹوہ ، موبائل، پیسے ، گھڑی سب نکالو۔
پستول کے سامنے اس پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اس ساری کارروائی یا واردات کے بعد سعود نے بائیک بھگائی ہی تھی کہ پیچھے سے شور کی آواز آئی۔
میں نے مڑ کر دیکھا۔
ایک فائر ہوا اور خاموشی چھا گئی۔
ان میں سے ایک زمین پر گر چکا تھااور سرخ خون سڑک پر پھیل رہاتھا۔ گولی اس کے سر میں لگی تھی۔
میں نے سعود سے کہا،تیز بھگا یار۔
اپنی منزل پر پہنچ کر ہم نے سکون کا سانس لیا۔ دروازے میں اندر سے کنڈی لگائی، پانی پیا۔
میں جیکٹ کی اندرونی جیبوں سے موبائل، پیسے وغیرہ نکال کر دیکھ رہا تھا۔ میں ابھی تک اندر سے کانپ رہا تھا مگرہمیشہ کی طرح میں نے خاموشی کے پردے میں اپنی گھبراہٹ کو چھپالیا تھا۔
سعود کہہ رہا تھا، شکر ہے آج بال بال بچ گئے۔
لیکن اس لڑکے کا خون میں لت پت چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔ پستول میرے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگئی۔
اب وہ خون آلود چہرہ ساری زندگی آسیب کی طرح میرا پیچھے کرنے والا تھا۔

Facebook Comments

کوثر جبیں
کتاب دوست

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply