فلسطین (6) ۔ نیا نقشہ/وہاراامباکر

مشرقِ وسطٰی میں تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ ترکی میں مصطفٰے کمال پاشا نے یورپی فوجوں کو ہزیمت سے دوچار کیا تھا۔ برطانیہ یکطرفہ معاہدہ کرنے میں ناکام ہو کر ایران سے 1921 میں انخلا کر چکا تھا۔ فرانس نے امیر فیصل کی بنائی گئی ریاست سوریا الجنوبی کو کچل دیا تھا۔ مصر نے برطانیہ کے خلاف بغاوت کی تھی جو مشکل سے دبائی گئی لیکن 1922 میں اسے آزادی دینا پڑی۔ عراق میں مسلح جدوجہد کے بعد بادشاہت قائم ہو گئی۔ پہلی جنگِ عظیم کے دس سال کے اندر ترک، ایرانی، سیرین، مصری اور عراق کسی حد تک آزادی حاصل کر چکے تھے۔ فلسطین آزاد ہونےے والوں میں نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی تارکینِ وطن کی آمد جاری تھی۔ ان کی تعداد 1926 میں آبادی کا اٹھارہ فیصد ہو چکی تھی۔ صیہونی سرمایے کی آمد غیرمعمولی تھی۔
اس سے اگلے برسوں میں یہ آمد تھم گئی۔ عالمی کساد بازاری آ چکی تھی۔ فلسطین پہنچنے والے یہودیوں کی زندگی بھی ان کے خوابوں جیسی نہیں تھی۔ جتنے آ رہے تھے، اتنے ہی چھوڑ رہے تھے۔ 1926 سے 1932 کے درمیان کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ صیہونی پراجیکٹ کی ناکامی نظر آ رہی تھی۔
لیکن یہ سب 1933 میں تبدیل ہو گیا۔ جرمنی میں نازی حکومت میں آ گئے۔ ان کے نسل پرست نظریات کا نشانہ دوسروں کے علاوہ بڑی تعداد میں یہودی بنے۔ امریکہ، برطانیہ میں سخت ہو جانے والے امیگریشن قوانین کا مطلب یہ تھا کہ جرمن یہودیوں کے پاس فلسطین کے سوا جانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ صیہونی تاریخ کا بڑا واقعہ ہٹلر کا عروج تھا۔ نہ صرف جرمنی بلکہ پڑوسی ممالک سے یہاں پر آمد شروع ہو گئی۔صرف جرمنی سے منتقل ہونے والا سرمایہ دس کروڑ ڈالر کا تھا۔
یہودی اکانومی عرب سیکٹر سے پہلی بار آگے نکل گئی۔ صرف سات سال میں صورتحال الٹ ہو گئی تھی۔ ملٹری، اکنامک، علاقائی اور ڈیموگرافک توازن بدل گیا۔ بین گورین کے مطابق، “اب یہودی کا قیام ریاست ناقابلِ گزیر ہے”۔ یہ اب سب پر واضح تھا۔
شہروں میں برطانوی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ پہلی بار پورے علاقے میں 1936 میں بغاوت پھوٹ پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا میں کانگریس، مصر میں وفد، آئرلینڈ میں سن فین جیسے جماعتیں موجود تھیں جنہوں نے برٹش کالونیل طاقت کے خلاف کام کیا تھا۔ لیکن فلسطین میں کوئی منظم گروہ یا پارٹی نہیں تھی۔ ان حالات میں چھ ماہ تک جاری رہنے والی ہڑتال برٹش کے لئے بھی اور فلسطینی اشرافیہ کے لئے بھی حیران کن تھی۔ اکتوبر 1937 میں یہ مسلح جدوجہد بن گئی جو دو سال تک جاری رہی۔ برٹش ملٹری نے اس کو بڑی بے رحمی سے کچلا۔ چار لاکھ کی آبادی والے علاقے میں ایک لاکھ برٹش فوج موجود تھی۔ اس دوران فلسطین کی دس فیصد آبادی بالغ مرد آبادی لقمہ اجل بنی۔ بغاوت ختم کر دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران فلسطینیوں میں گہرے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ کچھ اردن کے شاہ امیر عبداللہ کے ساتھ تھے۔ ان کی تجویز تھی کہ علاقے میں دو ریاستیں قائم ہو جائیں اور فلسطین کا علاقہ اردن کے سپرد کر دیا جائے۔ اس کی قیادت راغب النشاشیبی کر رہے تھے دوسرا گروپ کسی بھی تقسیم کے خلاف تھا۔ اس کی قیادت یروشلم کے مفتی کر رہے تھے۔ یہ تلخ اور پرتشدد جھگڑے تھے۔
فلسطینی قوم پرست صحافی العیسیٰ لکھتے ہیں کہ ابتدا میں برٹش کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت اب آپس کی خانہ جنگی کا روپ دھار چکی تھی۔ اس میں دہشتگردی، چوری، تباہ کاری، آتش زنی اور قتل عام ہو چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف یورپ 1939 میں ایک اور بڑی جنگ کے دہانے پر تھا۔
جنوری 1939 میں برٹش کابینہ کو رپورٹ سفارش کی گئی تھی کہ برٹش اپنی پالیسی پر غور کرے۔ عربوں کا اعتماد حاصل کرے۔ ورنہ یہ مسئلہ صرف عرب تک محدود نہیں رہے گا۔ انڈیا میں بھی بدامنی پھیل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش نے ایسا ہی کیا۔ چیمبرلین حکومت نے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے یہودی تارکینِ وطن کی آمد پر پابندی عائد کر دی۔ زمین کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ (یہ دونوں عربوں کے مطالبات تھے)۔ اگلے پانچ سال میں قومی نمائندگی کے ادارے بنانے کا وعدہ کیا اور اگلے دس سال میں حقِ خودارادیت کا۔
یہ فلسطینیوں کے لئے فتح تھی لیکن اس سے چند ماہ بعد ہی چیمبرلین جا چکے تھے۔ ان کی جگہ چرچل نے لے لی تھی۔ برٹش دوسری جنگِ عظیم میں داخل ہو چکا تھا۔ اس نے برطانیہ کو دوسرے درجے کی پاور بنا دیا۔ فلسطین کی قسمت اب اس کے ہاتھ میں نہیں رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیس نومبر 1947 کو جب برطانوی فوج کا انخلا ہوا تو صیہونی فورسز ایک کے بعد اگلے علاقے پر قبضہ کر رہی تھیں۔ یافا کو اٹھارہ اپریل، حیفہ کو تئیس اپریل، صفاد کو دس مئی اور بیسان کو گیارہ مئی کو حاصل کر لیا گیا۔ مقامی آبادی کو یہاں سے نکال دیا گیا۔ پندرہ مئی 1948 کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہو گیا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ لگی تصویر 1936 میں برطانیہ کے خلاف لڑنے والے فلسطینی باغیوں کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply