جمہوریت نواز نظریہ۔۔زین سہیل وارثی

جن لوگوں نے 20 ستمبر 2020 کی کثیر الجماعتی کانفرنس کے انعقاد کے بعد سوشل میڈیا پر باسی کڑھی میں اُبال لانے والی مہم چلائی ہے، انکی خدمت میں عرض ہے۔ اس کانفرنس کا جمہوریت سے اتنا ہی تعلق ہے، جتنا کسی آزاد خیال معاشرہ میں مذہب کا انسانوں سے، یعنی قطع تعلق۔

جن کا خیال ہے کہ میرے محبوب قائد جناب نواز شریف نظریاتی ہیں اور اپنے نظریہ “ووٹ کو عزت دو” کی ترویج کیلئے انھوں نے عَلم اٹھایا ہے، ان تمام نام نہاد دانشوروں کی یادداشت کے لئے چند گزارشات ہیں۔

میاں محمد نواز شریف کسی بھی لحاظ سے نہ  پہلے نظریاتی تھے اور نہ  اب ہیں، کیونکہ پاکستان میں دائیں بازو کی جماعت کا بندہ اسٹیبلشمنٹ کا تو منظور نظر ہو سکتا ہے، نظریاتی نہیں ،حالیہ حکمران جماعت دیکھ لیں۔ بقول پیر صاحب پگاڑا مرحوم انکا ایک ہاتھ آپکی گردن پر اور دوسرا آپ کے پیروں کی طرف ہوتا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جسے نظریہ شہباز اور نظریہ نواز کا نام دیا جاتا ہے، یا گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کہتے ہیں۔

نواز شریف جب اقتدار کی  مسند پر براجمان ہوتے ہیں، تو آئین اور پارلیمان کی توقیر کو خود مجروح کرتے ہیں۔ جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو انکو آئین شکنی اور ووٹ کو عزت دو جیسے مسائل یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ 2013 کے دور حکومت پر نظر دوڑائیں تو وہ پارلیمنٹ ان دنوں میں تشریف لاتے تھے، جب ڈی چوک پر دھرنا ہو یا خان صاحب نے دھرنے کی کوئی کال دی ہو۔

ماضی پر روشنی ڈالی جائے تو آپ کو سب سے پہلےتو جناب ضیاء الحق کی تائید کرنے پر، آئی جی آئی کا حصہ بننے، خفیہ ایجنسیوں سے پیسے لینے پر اور 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے پر معافی مانگنی چاہیے۔ 1999 کا دور حکومت دیکھ لیں، جب ذرائع ابلاغ کے لوگ انھیں امیرالمومنین یا خلیفہ وقت سے تشبیہ دیتے تھے۔ آپ اگر نظریاتی ہوتے تو ڈٹ جاتے، جیل کاٹتے، آپ سے زیادہ تو جاوید ہاشمی نظریاتی ہو گیا، کہ جیل چلا گیا مگر جمہوری جدوجہد میں اَمر ہو گیا۔

اب حالیہ ادور حکومت کی طرف آجاتے ہیں، اگر ڈان لیکس درست تھی، تو اپنے وزیروں اور معاونین سے استعفی کیوں لیا؟۔ اگر آپ کو جناب لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی ان خفیہ سیاسی و کاروباری سرگرمیوں کا علم تھا تو بحیثیت وزیراعظم آپ نے ردعمل کیوں ظاہر نہیں کیا؟، فوج تو آپ کے ماتحت ادارہ ہے، آپ کے پاس دو تہائی اکثریت بھی تھی۔ آپ نے بحیثیت وزیراعظم کتنی مرتبہ پارلیمنٹ آ کر خود کو پارلیمان کے سامنے جوابدہ سمجھا۔ آپ نے آئین کی بحالی اور میثاق جمہوریت کی پاسداری کے لئے کتنی آئینی ترامیم کیں۔ آپ نے عدلیہ اور بیوروکریسی میں کتنی اصلاحات کیں، کہ آئندہ کے لئے آئین شکنی کا تدارک کیا جا سکے۔ حالانکہ یہ آپ کے 2013 کے منشور کا حصہ تھا، کہ سستا اور فوری انصاف آپ کو اسکا خیال تب آیا، جب پانامہ کیس میں آپ عدالتوں کے چکر کاٹ رہے تھے، کہ ملک میں تو انصاف بہت مہنگا ہے۔ آپ نے الیکشن کمیشن کو خود مختار کرنے کے لئے کتنے اقدامات اور اصلاحات کیں تاکہ دھاندلی کا تدارک کیا جا سکے۔ آپ کو اب نیب کے قوانین پر اعتراضات ہیں، تب آپ نے ان اعتراضات کے لئے کوئی آئینی ترامیم کیوں نہیں کیں۔ آپ اس وقت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے احتساب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس زمانے میں کرپشن اور دہشت گردی تک کو نیشنل ایکشن پلان کے مطابق جوڑ دیا گیا تھا۔ آپ نے بلدیاتی ادارے کیوں مضبوط نا کئے، آپ نے ان جمہوری نرسریوں میں نئے پودوں کی آبیاری کیوں نہیں کی، آپ نے یہ کیا ہوتا تو خسرو بختیار، ہارون اختر، ہمایوں اختر، زاہد حامد، اور نا جانے ان جیسے کتنے فصلی بٹیرے جن پر تمام سیاسی جماعتیں انحصار کرتی ہیں سے جان چھٹ جاتی۔ آپ نے اپنی جماعت میں اپنے خاندان کے علاوہ سیاسی قیادت کو کیوں نہیں پنپنے دیا۔

جمہوریت ایک راستہ ہے جناب والا جس پر پتھر، روڑے اور کانٹے ہر وقت آپ کے تعاقب میں رہتے ہیں، نظریاتی رہنما وہ ہوتے ہیں، جو ان سے نبردآزما ہوتے ہیں اور سُرخرو ہو کر نکلتے  ہیں۔

آپ کو جب جیل میں ڈالا گیا، تو آپ نے راہ فرار کے لئے انھی سے مدد طلب کی، جو آپ کے خیال میں سیاسی مداخلت کے چیمپئن ہیں، ان دنوں ان سے بات چیت، نظریہ شہباز کے تحت ہو رہی تھی۔ انھی کے کہنے پر آپ کالا کوٹ پہن کر میموگیٹ سکینڈل میں ان کی طرف سے پیش ہوئے۔ 2013 کے الیکشن سے پہلے آپ اپنے بھائی شہباز شریف اور رفیق چوہدری نثار علی کے ذریعے ان کو محبت کے پیغام بھجواتے رہے۔ جمہوریت صرف ممالک میں ہی نہیں سیاسی جماعتوں میں بھی ہوتی ہے، جمہوریت نواز شریف کے بعد مریم نواز اور شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز کا نام نہیں ہے۔ حال ہی میں آپ کی جماعت کے لوگ خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، کہ کسی طرح اتنی گنجائش حاصل کر لیں، کہ آپ کو مزید دیوار کے ساتھ نا لگایا جائے۔ آپ کے بھائی کا نظریہ شہباز جب کامیاب نہیں ہو سکا، تو آپ نے نظریہ نواز کا راگ لگانا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ آپ جان گئے ہیں کہ مسلم لیگ نون پیاز تو کھا چکی ہے، اب جوتے بھی کھائے گی، اور ووٹر بھی بدزن ہوتا جا رہا ہے، جو اس امید پر تھا کہ قائد محترم جمہوری و نظریاتی ہو گئے ہیں۔ کاش آپ اس خطاب میں اپنے ووٹر اور قوم سے معذرت کرتے کہ میں چھانگا مانگا، نمائندگان، اور وراثتی سیاست سے دست بردار ہوتا ہوں، میری جماعت ابھی اپنے لئے نیا قائد منتخب کرے جو میرے خاندان سے نہیں ہو گا، میں بحیثیت رہبر اس قائد کیساتھ چلنے کو تیار ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جمہوریت جمہور کی رائے کے احترام سے پنپتی ہے، نا کہ ہر دو سال بعد نظریاتی خطاب سے، امید ہے آپ ان گزارشات پر صدق دل سے غور فرمائیں گے۔

Facebook Comments