نیل کے سات رنگ-قسط5/انجینئر ظفر اقبال وٹو

میرے بازو پکڑنے والا شخص مجھے اپنے ساتھ گھر کھانے کے لے جانا چاہ رہا تھا۔ اس نے کچھ وقت تبلیغی جماعت میں لگایا ہوا تھا اور مجھے بھی جماعت سے سمجھ رہا تھا یا ہو سکتا ہے شائد اس کا تعلق کسی جنگجو گروپ سے ہو۔ میں نے جلدی سے اس سے اپنے بازو آزاد کرائے اور دوڑ کر مسجد سے باہر آگیا۔ لیزر نگاہوں والا باہر میرا منتظر تھا ۔ میں نے جلدی سے ریسٹ ہاؤس کی طرف چلنا شروع کر دیا وہ تھوڑا فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے آرہا تھا ۔ مجھے جلدی سے ریسٹ ہاؤس پہنچنا تھا اس سے پہلے کہ میں کسی مسئلے سے دوچار ہو جاؤں۔ میر ے قدم میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے دونوں پاؤں کے ساتھ دس دس کلو کے وزن باندھ دیے گئے ہوں۔ میں دو قدم آگے بڑھتا تھا تو لگتا تھا چار قدم پیچھے لیزر نگاہوں والے کے اور قریب چلا گیا ہوں ۔ اس کے اور میرے درمیان فاصلہ کم ہوتا جارہا تھا ۔ گلیوں میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ میں تیز چلنے کی وجہ سے ہانپ رہا تھا اور پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ آخر کار میں ریسٹ ہاؤس کے دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا ۔ وہ تیزی سے چلتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا اور میں نے اندر داخل ہوتے ہی کنڈی لگا دی تھی۔

ریسٹ ہاؤس کےاندر شاہ جی نے فرشی نشست جمائی ہوئی تھی۔ شاہ جی ایک آزاد منش انسان تھے اور جہاں جاتے اپنی ایک الگ دنیا بسا لیتے۔وہ دائیں بازو سے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے اوران کے سامنے باورچی اور خادم بیٹھے ان کی مکس عربی اور اردو میں گفتگو بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ شاہ جی کو میں نے کمرے کے اندر آنے کا اشارہ کیا اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ بولے “لگتا ہے ڈیم بنڑے یا نہ بنڑے پہلاں ساڈا کج ضرور بنڑ جانا اے”۔ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔

اگلی صبح کا آغازجلد ہی ہوگیا تھا۔سورج طلوع ہوتے ہی ریسٹ ہاؤس میں چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔رش کی وجہ سے باتھ روم کی باری دیر سے آئی۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے فرش میں کوئی تین چار انچ کا ایک سوراخ تھا جسے استعمال کرنے کے لئے آپ کا ماہر نشانہ باز ہو نا ضروری تھااور ذرا سی بھی غلطی سے آپ فرینڈلی فائر کی زد میں آسکتے تھے۔ پانی کی کم مقدار اور اس کے گدلے پن کو دیکھتے ہوئے ہم نے غسل کا ارادہ کل تک ملتوی کردیا۔ شاہ جی نے اس میں بھی مثبت پہلو ڈھونڈ لیا تھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور بولے “اچھا موقع ہے اسی بہانے تیمم کی مشق ہو جائے گی”۔

میں ناشتے سے فارغ ہوکر آج کے دن کو پلان کرنے میں لگ گیا ۔ آج ہمیں سب سے پہلے سیکرٹ سروس کے دفتر تفتیش کے لئے حاضر ہونا تھا اس کے بعد وزیر زراعت کے ساتھ ملاقات طے تھی اور پھر وزیر منصوبہ بندی سے ڈیم سائٹ جانے کے لئے سکیورٹی کے مہیا ہونے کا پتہ کرنا تھا۔ میں نے ٹیم لیڈ کے طور پر پانی کی راشننگ کردی تھی اور تینوں کھانوں کے اوقات مقرر کردیے تھے۔ چونکہ یہاں انٹرنیٹ اور ٹی کا وجود نہیں تھا اور بجلی بھی صرف مقررہ اوقات میں آتی تھی لہذا ہم نے اپنے آپ کو مصروف اور مستعد رکھنے کے لئے ریسٹ ہاؤس کے صحن میں صبح شام واک کا پروگرام بنا لیا تھا جس کا ایک چکر کوئی 150میٹر لمبا تھا۔ اس حساب سے دس چکروں کے کوئی 1500میٹر بنتے تھے۔۔ ہم الجنینہ میں الدریسہ ڈیم کا کیمپ لگا چکے تھے جس کا سلوگن شاہ جی نے کچھ یوں منتخب کیا تھا “دارفور میں اجنبی”۔

سیکرٹ سروس والوں نے ہمارے موبائل اور کیمرے چیک کرنے کے بعد ری سیٹ کرکے ہمیں واپس کر دیے تھے اور ساتھ ہی ہمیں محتاط رہنے کی ہدایت کی تھی۔ انہوں نے ہمارے بلا ضرورت فوٹو لینے یا کہیں آنے جانے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔وزیر زراعت کے ساتھ رسمی گپ شپ کے بعد اس نے ہمیں ڈائریکٹر جنرل زراعت کے حوالے کردیا تھا جو کہ ایک پونے چھ فٹ قد کی خاتون تھیں۔ حیرت انگیز طور پر وہ انگریزوں کے سے لہجے میں بلا تکان انگلش بو ل رہی تھیں۔ ان کے ساتھ ملاقات کوئی دو اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی تھی۔ ہمیں مقامی انجینئر بتا رہے تھے کہ ایک باغی گروہ کچھ ماہ پہلے ہی حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کر کے ریاست میں اقتدار میں آیا ہے اور یہ خاتون ان کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ چونکہ وزیر منصوبہ بندی َسے آج بھی ہمارے تحفظ کے لئے مناسب سکیورٹی کا بندوبست نہیں ہوا تھا اس لئے دوپہر کے بعد ہم ریسٹ ہاؤس واپس لوٹ لئے تھے۔

ہمارا دوپہر کا کھانا لگ چکا تھا اور ہم اس سرکاری ریسٹ ہاؤس میں بیٹھے دوپہر کے کھانے پر ناک چڑھا رہے تھے۔ کھانا کیا تھا بہت زیادہ ابلا ہوا جنگلی لوبیا جس کے اوپر زیتون کا تیل اور پنیر کا چورا ڈالا ہوا تھا اور ساتھ میں کچے ٹماٹر اور پیاز۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ سب کچھ ایک بڑے سارے تھال میں ڈال کر سات سے آٹھ بندوں کو ایک ساتھ کھانے کے لئے پیش کیا گیا تھا۔ نہ کوئی نمک نہ مرچ۔ نہ پلیٹ نہ چمچ۔الجنینہ کے اس ریسٹ ہاؤس میں قید ہوئے ہمیں آج دوسرا دن تھا اور ہم کل سے قیدیوں کی طرح اس بے ذائقہ ابلی لوبیا کو دن میں دو دفعہ کچے ٹماٹروں اور پیاز کے ساتھ مسلسل صبح دوپہر شام کھائے جا رہے تھے۔

میں نے چند لقمے لئے اور کھانے سے اٹھ آیا۔ مجھے کھانے والے اس بڑے تھال کو دور سے دیکھنے پر ہی ابکائی آگئی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کے صحن سے ہو کر میں باہر والے دروازے پر آیا اور دروازے سے باہر گلی میں ایک نظر دوڑائی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دروازے پر آٹھ سے دس مقامی بچے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس جمع ہیں اور کسی کا انتظار کر ہے ہیں۔ سب کی نظریں ہمارے دروازے پر جمی ہیں ۔اتنی دیر میں اندر سے ریسٹ ہاؤس کا دار فوری ملازم کھانے والا تھال لئے نمودار ہوا جس میں ہمارا جھوٹا بچا ہوا کھانا موجود تھا اوراسے بچوں کے سامنے رکھ دیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے بچے کھانے پر پل پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں اس تھال کو شیشے کی طرح صاف کر دیا۔کھانے کے بعد انہوں نے اس تھال کو دھو کر صحن میں رکھا اور باری باری مجھے “شکرا جزیلاُ” کہہ کر رخصت ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا جھوٹا بچا ہوا کھانا جسے دیکھ کر مجھے ابکائی آ رہی تھی اس کے لئے وہ مقامی بچے پتہ نہیں کب سے دروازے پر انتظار کر رہے تھے۔ اور جھوٹا کھانا ملنے پر ہمارے بے حد شکر گزار تھے۔ میں نے دل ہی دل میں اپنے اللہ سے کہا “شکرا جزیلاُ”۔ وہ دار فوری بچے مجھے آج ایک سبق دے گئے تھے کہ“ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں ۔ آپ کا بچا ہوا کھانا بھی کسی کے لئے زندگی کا بہترین کھانا ہو سکتا ہے”
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply