جن قابو کرنے کی ناکام مشقیں /رشید یوسفزئی

عملیات اور occult sciences پر لڑکپن و آغازِ  شباب کا ایک زمانہ ضائع کیا۔ والد کی  لائبریری میں لاہور کے ایک عامل مولوی کی کتاب ، “ مجرب عملیات” میں شہنشاہِ جنات کو حاضر کرنے کا وظیفہ تھا۔ لکھا تھا بیابان میں جاکر اپنے اردگرد چاقو سے حصار کھینچ کر اس پر آیت الکرسی پھونک کر نو بار سورہ جن پڑھنا۔ ہر بار سورہ جن کے بعد ایک لمبا  ورد کرنا  تھا ۔ اس ورد کے ہر جملے پر اجب یا رویائیل، اجب یا وعہائیل جیسے عبرانی الفاظ تھے۔ ہر بار ورد کے اختتام پر ایک خوفناک منظر کا ظاہر ہونا تھا۔ اوّل بار ورد کی تکمیل پر ایک چنگھاڑتا ہو ا شیر آئے گا، دوسرے ورد پر اژدھا، تیسری بار بدروحیں۔۔۔۔۔اٹھویں بار گاتی  رقص کرتی  ہوئی  پریاں اور بالآخر نویں بار خود شہنشاہ جنات اپنے اُڑتے ہوئے یا قوت و زبر جد کے تخت پر ایک تابعدار غلام کی طرح حاضر ہوگا۔ پوچھے گا جو دل کی مراد ہے حکم کریں۔ اور یوں ساری تمنائیں بَر  آئیں گی ۔۔

عمل خوفناک تھا ،لیکن ہمت باندھی۔ سوچا شہنشاہ سے اور کچھ بھی نہیں مانگوں گا۔ بس ایک خوبصورت لحمیم شحیم سی سیکسی پَری عطا کرے۔ حسب ہدایات سب کچھ کیا۔ نہ شیر آیا، نہ شہنشاہِ جنات۔ مایوسی کیساتھ مختلف خیال ذہن میں آئے : شاید عمل میں ضرور کوئی غلطی ، کوئی کسر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں   کرسکا۔ شاید وظیفہ کمزور تھا، شاید شہنشاہ جنات مصروف تھا، یا شاید اس زمانے کا شہنشاہ کافر و ملحد ہے جس پر قرآنی آیات کی طاقت اثر نہیں کرتی  ۔

دوبارہ عمل کی ٹھانی تھی کہ اس دوران بریلوی مولوی اقبال احمد نوری کی شاہ احمد رضا خان بریلوی کے نام پر معنون عملیات کی جامع ترین کتاب “ شمع شبستان رضا” ہاتھ لگی۔ اس کتاب میں تین چار صفحات پر مشتمل تسخیر کا ایک طویل مجرب عمل تھا۔ ہر پیراگراف میں کسی نا  کسی جگہ متعلق شخص اور اسکی ماں کا نام لینا تھا ۔ محلے میں والد کے ایک مقتدی کی  چار ہٹی کٹی بیٹیاں تھیں ، جن میں تیسری بہن ایمان شکن جوانی کی مالکن تھی۔ اس سے روزانہ گلی محلے میں دو لفظ کا تبادلہ ہوتا۔ سوچا وہ  پری نہ سہی ، یہ گوشت  پوست کی پہاڑ غنیمت ہے۔اسی کو رام کرنے کیلئے شمع شبستان رضا کے  متعلقہ ورد کا چِلہ کیا۔ پتہ نہیں عمل میں کہاں غلطی کی کہ اثر الٹا پڑ گیا۔ وہ لڑکی جو پہلے ہم حقیر و فقیر مُلا زادے کو راستہ چلتے ہوئے کچھ ہیلو ہائے کرتی تھی، اب حقارت آمیز انداز میں نظر انداز کرنے لگی۔

اس زمانے میں ہماری ملکیت کیا ہوتی۔۔۔بس کسی نے ختم قرآن پر پانچ دس روپے  دیے ہوتے ، وہ مہینے تک جیب میں سنبھال کے رکھتے تانکہ نوٹ کا رنگ اڑنے لگتا۔ جب تک یہ نوٹ جیب میں رہتے ، ہم خود کو ایلون مسک سے زیادہ امیر سمجھتے۔ ایک نشہ چڑھا رہتا۔ افسوس کہ بہت جلد خرچ ہوجاتے  اور ہم واپس اپنی اذیتناک قلاشی پر آجاتے۔ دس روپیہ کا نوٹ تو تمام جوانی ایک خواب ، ایک آرزو ہی رہا۔ اس زمانے میں والد کے ہاں ایک چھوٹا  سا  کتابچہ بکرمی جنتری آتی تھی۔ یہ اس زمانے کا کیلنڈر ہوتا۔ ایک دفعہ جنتری میں دو کتابوں کے اشتہار دیکھے ایک کا نام تھا “الو منتر “اور دوسرا” کالا جادو ” ۔ جنتری میں تفصیل کے بعد ان کو منگوانے کا پتہ و طریقہ کار درج تھا۔ بڑا  تجسس رہا  کہ یہ کالا جادو کہیں سے ہاتھ آئے۔ ڈاک خرچ اور قیمت کہاں تھے۔ ایک امیر مقتدی کے بیٹے سے ان چیزوں پر تبادلہ خیال ہوتا ۔ اس کو اُکسا کر کالا جادو منگوایا۔ اور جھٹ پڑھنے لگا۔ ایک باب تھا: ہنومان منتر۔ لکھا تھا کہ جو کوئی یہ منتر پختہ کرے اور پھر رات کو پڑھ لیا کرے۔ صبح اٹھے گا تو تکیہ کے نیچے ہنومان جی کی  طرف سے دس روپیہ کے نوٹ پا ئے گا۔ لگ گیا۔ ہنومان منتر ایسا پختہ کیا کہ جیسے کلاس ایک دونہ دونہ کا پہاڑہ۔ رات کو ایک کیا سو بار پڑھتا۔ صبح اٹھتے ہی فوراً  تکیہ اُلٹتا۔ اپنی ذلیل قسمت میں ہنومان جی بھی ایسا بخیل نکلا کہ دس روپیہ تو کیا کبھی ایک دمڑی، ایک روپیہ والا سکہ بھی نہیں رکھا۔

کالج دور کی ابتدا میں ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم و مسمرازم سے شغف پیدا ہوا۔ درگئی کالج میں پشتون سکالر و مصنف جمیل یوسفزئی ہمارے استاد تھے۔ ایک جامع الکمالات شخصیت ہونے کے ساتھ چلتے  پھرتے  انسائیکلوپیڈیا تھے۔ مگر انتہائی خشک قسم کے عقلیت پرست اور سائنسی فکر کے مالک تھے۔ ان سے رجوع کیا ۔ جواب ملا، سب گپیں ہیں ان پر وقت ضائع نہ کر۔ مگر ہم یہ علوم چھوڑنے والے کب تھے۔ پشتو شاعر و ادیب صاحب شاہ صابر سے رہنمائی کیلئے کہا۔ انہوں کہا انگلش لٹریچر کے سٹوڈنٹ ہو۔ اسی پر فوکس کرو۔ یہ اکلٹ سائنسز سب نوسربازوں کے ڈرامے ہیں۔میں  نہ مانا۔ کالج میں درگئی ، ملاکنڈ کے ایک گاؤں ہریانکوٹ کے پروفیسر شیرعالم صاحب ریاضی کے پروفیسر تھے۔ ریاضی کیساتھ انہوں نے ایم اے فلسفہ بھی کیا تھا۔ اکلٹ سائنسز سے شد بد رکھتے تھے۔ کسی نے کہا شیر عالم صاحب نے ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم کی  کچھ مشق کی  ہیں۔ ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ایک دو کتب دیں ۔ شمع بینی و آئینہ بینی کی  کچھ مشقیں  کیں ۔ کچھ پلے نہ پڑا۔

کالج کے بعد پانڑ مینگورہ کے ایک پلاسٹک کارخانے میں مزدوری کرتا تھا۔ جہانزیب کالج سوات میں چچا پروفیسر نصیر الدین کے ساتھ ایک امیر الدین نامی اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ وجیہہ و شکیل شخصیت تھی۔ گولڈن جناح کیپ سر پر فکس لگائے چلتے ۔ایسے نظر آتے جیسے کاندھوں پر یہ سر اور قراقلی دنوں پلاسٹک کے ہوں ۔ ان کو ایک محفل میں ٹیلی پیتھی پر گفتگو کرتے سنا۔ فوراً ان سے بیعت کرنے کا ارادہ کیا۔ شمع بینی کا سبق دیا ۔ روزانہ شمع لگاتا۔ توجہ سے اسے تکتا۔ ہدایت تھی کہ ہر روز ایک ایک منٹ مشق زیادہ کرتا جاؤں تانکہ مہینے کے  اختتام پر تیس منٹ تک پہنچ جاؤں ۔ ایک رات کو دورانِ  مشق نیند کے غلبہ سے شمع بجھانا بھول گیا ۔ نیچے پھٹے  پرانے  کارپٹ نے آگ پکڑی اور وہاں سے ہوتی ہوئی بستر تک آگئی۔ صبح کو چچا نے بیک بینی و دو گوش گھر سے نکال دیا۔ یوں شمع بینی ادھوری رہی۔

خانہ فرہنگ ایران پشاور ملازمت اختیار کی۔ ممتاز فلسفی و سکالر اور جلالپوری و حسن عسکری پر معرکہ آرا تنقید لکھنے والے استاد محترم پروفیسر محمد ارشاد ہری پور سے پشاور یونیورسٹی سائیکالوجی کے پریکٹیکل امتحان لینے آئے تھے۔ رات کو ساتھ قیام تھا۔ عرض کیا سر آپ نفسیاتی علوم میں مہارت رکھتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی و ہپناٹزم پر رہنمائی کریں۔ انہوں فرمایا سالہا قبل ایک عبدالشکور نامی وکیل ڈھاکہ بنگال سے پشاور آکر یہاں قیام پذیر تھا۔ تھا تو  مارکسسٹ مگر اکلٹ سائنسز میں بلا کا تجربہ رکھتا تھا۔ ادھر کہیں میونسپلٹی فلیٹس میں رہتا ہے۔ اگر اس کو ڈھونڈو تو وہ بہتر امداد کرسکتا ہے۔ چند دن میں عبدالشکور صاحب کو پیدا کیا۔ عمررسیدہ مجرد تھے۔ ایک لڑکے کو متنبیٰ  بنا کر پالا جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنا تھا۔ عبدالشکور صاحب ایک عہد، ایک تاریخ، ایک زندہ ناول تھے۔ قصہ مختصر ان سے آئینہ بینی کا درس شروع کیا۔ بتایا گیا کہ ابتدا میں آئینے میں اپنی  شکل بدتر ہوتی  جائے گی ، پھر خوبصورت بنتی  جائے گی۔ مشق کی تکمیل پر آئینے میں اپنی  شکل نظر آنا غائب ہوجائے گی۔ اور آئینہ شکست کھا جائے گا۔ واقعی مشق کیساتھ ساتھ اپنی  شکل بد صورت نظر آنا شروع ہوئی ۔ جو ابھی تک اسی طرح خوفناک نظر آتی  ہے اور بس۔ اسکا یہی فائدہ ہوا  کہ اب آئینہ دیکھنے سے نفرت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک زمانے میں حاضرات ، روحوں کو حاضر کرنے پر توجہ دی۔ لاہور کے جامعہ اشرفیہ کے شیخ روحانی البازی کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کئے۔ مشقیں اتنی  مشکل تھیں  کہ کرتے کرتے خود بد روح بننا تھا۔ سو فرار میں عافیت سمجھی۔ اس کے بعد اکلٹ سائنسز سے توبہ کیا۔ سی ایس ایس کے بعد ایک ڈی آئی جی استاد ملا، جو ارواح کو حاضر کرنے کا ماہر تھا۔ اسکا تجربہ و مظاہرہ واقعی عجیب و غریب تھا۔
خیال تھا کہ یہ روحوں کو حاضر کرنا ، عالم غیب سے رابطہ کرنا یہ صرف مشرقی دنیا کا ٹھیکہ ہے مگر کل لائبریری میں ارواح کو حاضر کرنے کے  فن پر زیرِ  نظر تصنیف ، تازہ ترین کتابوں کی  نمائشی الماری میں مل گئی ۔ وہی اکلٹ سائنسز کا شوق عود کر آیا۔ مصنفہ نے خود کو ٹورانٹو کی  جادوگرنی لکھا ہے۔ سوچا مسلمان ورد و عملیات تو ناکام رہے شایدہ یہ غیر مسلموں والے کچھ نتائج دے سکیں۔ تجربہ کامیاب ہوا تو اوّل جناح، پھر بھٹو اور پھر ضیاالحق کی  ارواح حاضر کرکے بہت سارے سوال کرنے ہیں۔ جوابات آپ سے شیئر کروں گا۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply