دائروں میں سفر/عامر حسینی

اسٹبلشمنٹ /غیر منتخب ہئیت مقتدرہ جب تقسیم ہوتی ہے تو اس تقسیم میں کھڑا ہر گروپ اپنے مقاصد کے لیے مصروف عمل ہوتا ہے   اور کمزور معاشی حالات اور زبردست داخلی و خارجی چیلنجز اس تقسیم کا سب سے بڑا سبب ہوتے ہیں ۔ یہ تقسیم صرف غیر منتخب ہئیت مقتدرہ میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس طرح کی تقسیم کا شکار منتخب ہئیت مقتدرہ بھی ہوتی ہے ۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والے اس تقسیم سے پیدا ہونے والی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی کمزوری میں جمہوریت کی علامت پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، پریس کی آزادی، سیاسی و سماجی اجتماعات کی آزادی کی طرف ٹرانزیشن /عبوری دور میں ہونے والے سفر کو تیز کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت کا بہروپ بھرنے والے اس کمزوری سے ذاتی فوائد حاصل کرنے لگ جاتے ہیں ۔

پیپلزپارٹی نے اسٹبلشمنٹ کی کمزوری اور بدترین تقسیم کے دوران ہمیشہ جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کی راہ اپنائی ۔
مشرقی پاکستان ٹوٹنے کے بعد غیر منتخب ہئیت مقتدرہ/ اسٹبلشمنٹ میں واضح دھڑے تھے ۔

ایک منتشر، بدحال اور بالکل زمین سے لگا یحییٰ کا ٹولہ تھا، دوسرا جنرل حسن پیر زادہ، جنرل رحیم، جنرل گل حسن وغیرہ کا ٹولہ تھا جو اپنے لیے امکانات تلاش کررہا تھا ۔ یحیی کے جانے کا وقت آگیا تھا اور عوامی غصے کے سبب دوسرا ٹولہ براہ راست اقتدار پر قبضہ نہیں  جماسکتا تھا۔

دوسرے دھڑے نے اپنے آپ کو بھٹو کا مربی بنانے کی کوشش کی ۔ بھٹو صاحب نے نا  صرف یحییٰ کی رخصتی کا فیصلہ کیا بلکہ جن جرنیلوں نے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی اور اُن میں سے گل حسن تو آرمی چیف بننے کے خواہش مند تھے بھٹو صاحب نے انھیں بھی “کھڈے لائن” لگایا۔ وہ سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو انھوں نے فیٹی جرنیلوں کو نکال باہر کیا اور سیاسی میدان میں انھوں نے پاکستان کو ایک جمہوری وفاق بنانے کی طرف قدم بڑھایا اور اس کے لیے 1973 کا آئین تیار کروایا اور جمہوری پارلیمانی سیاست کو دوام بخشا ۔

جنرل ضیاء الحق کا طیارہ جب کریش ہوا تو اس کے بعد غیرمنتخب ہیت مقدرہ کی خواہش تھی کہ اُس کے کمزور لمحے میں پی پی پی اُن کے مفادات کا تحفظ کرے لیکن بیگم نصرت بھٹو اور آنسہ بے نظیر بھٹو نے اسٹبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے کی بجائے ملک میں عام جماعتی انتخابات کرانے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔

اسٹبلشمنٹ نے پی پی پی کے اس موقف کو اپنے لیے خطرہ خیال کیا۔ اُس نے راتوں رات اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل اور ایسا انتظام کیا کہ کسی طرح سے پی پی پی کو وفاق اور پنجاب کے اقتدار سے محروم کیا جائے ۔ اسٹبلشمنٹ نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں اپنی توقع کے مطابق نتائج نہ دیکھ کر پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر کی اور نواز شریف کو پنجاب دلوادیا ۔

پی پی پی کے خلاف اُس زمانے میں ایوان صدر، جی ایچ کیو اور ہیڈکوارٹر آئی ایس آئی سرگرم تھے وہ پی پی پی کو وفاق میں اقتدار میں آنے سے روک رہے تھے ۔ اسحاق خان صدر، مرزا اسلم بیگ جی ایچ کیو اور جنرل گُل حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے ۔ ایوان صدر اور ہیڈکوارٹر آئی ایس آئی اگر ایک پیج پر تھے تو جی ایچ کیو میں مرزا اسلم بیگ اپنی لابی بنائے بیٹھے تھے ۔ بے نظیر بھٹو اسٹبلشمنٹ کے اندر تقسیم کو مدنظر رکھ کر اپنے کارڈ کھیلنے لگیں اور وہ کارڈ تھا جمہوری حکومت کا قیام ۔

بے نظیر بھٹو نے جمہوری حکومت کا ہدف عبور کرتے ہی ڈی جی آئی ایس آئی کو تبدیل کرتے ہوئےب جنرل حمید گُل کو کھڈے لائن لگایا ۔ اور جی ایچ کیو کے سربراہ کو بڑی حد تک نیوٹرلائز کیا۔ فوج اور آئی ایس آئی میں ضیاء الحقی باقیات نے ایوان صدر کو سازشوں کا مرکز بنایا اور 58 ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا ۔

ایوان صدر، آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو میں ضیاء الحقی باقیات نے 90ء میں نہایت احتیاط سے کام لیا اور اسلامی جمہوری اتحاد میں سینئر اور تجربہ کار سیاست دانوں (جیسے غلام مصطفیٰ جتوئی تھے) کو اقتدار کی باگ دوڑ دینے کے ناتجربہ کار اور اپنی مکمل تابعداری ظاہر کرنے والے نواز شریف کو وزیراعظم بنایا۔ نواز شریف نے پہلے تو اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں میں توڑ پھوڑ کی اور اُن میں سے اپنے ذاتی وفادار سیاست دانوں کو ساتھ ملایا ۔ جماعت اسلامی کے پنجاب میں منجھے ہوئے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ ملائی ، جے یو پی، جمعیت اہلحدیث کے پنجاب میں نئے دھڑے بنائے جن کے سربراہ اُس کے غلام تھے ۔اُس نے اس دوران عدلیہ پر بھی اپنا کنٹرول جمایا ۔ پھر نواز شریف نے صدر اسحاق خان پر وار کرنا شروع کیا۔ اس دوران عبدالوحید کاکٹر نے اُسے انڈر کنٹرول رہنے کی ہدایت کی لیکن حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اُسے کافی مہنگی پڑی ۔ نواز شریف کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ سے لڑائی پارلیمنٹ، آئین کو جمہوری اور طاقتور بنانے کے لیے نہیں تھی ۔ اُس نے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ میں موجود تقسیم کو گہرا کرنے کا عمل زاتی اقتدار مضبوط بنانے کے لیے کیا۔ اس عمل نے اسٹبلشمنٹ کے دو مراکز ایوان صدر اور جی ایچ کیو کے سربراہ کو اُس کے خلاف کردیا۔ جبکہ عدلیہ کا غالب دھڑا اُس کے ساتھ رہا ۔

اُس زمانے میں ہمارا لبرل پریس، سول سوسائٹی اور بوتیک لیفٹ کے اشراف نواز شریف کی دولت اور وسائل کی چمک دیکھ کر نواز شریف کی اس لڑائی کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکر پیش کررہا تھا۔ سیاسی میدان میں بلوچ قوم پرستوں میں پارلیمانی سیاست کے ناخدا ہوں (جیسے سردار عطاء اللہ مینگل، اُن کے سیاسی جانشین سردار اخترمینگل، میر غوث بخش بزنجو کے جانشین حاصل بزنجو) یہ پی پی پی سے سچی جھوٹی شکایات لیکر 88ء سے اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بنے اور پھر نواز شریف کی مراعات کے اسیر ہوکر نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے ۔ یہی حال اے این پی اور محمود اچکزئی کی پارٹی کا تھا۔ سندھی قوم پرست قادر مگسی، رسول بخش پلیجو، سوشلسٹ پارٹی کے سی آر اسلم، ورکرز پارٹی کے عابد حسین منٹو بھی نواز شریف کا دم بھر رہے تھے۔ گویا دائیں بازو کا مذہبی دھڑے (جے یو پی نیازی، جمعیت اہل حدیث ساجد میر، جامعہ اشرفیہ لاہور، دارالعلوم کراچی تقی عثمانی گروپ) فوج کے زیراثر دیوبندی جہادی گروپ ( جن کی سربراہی دالعلوم اکوڑہ خٹک، دارالعلوم بنوری کراچی کے ہاتھ میں تھی)، سپاہ صحابہ پاکستان ( جس کے بڑے رانا ثناء اللہ کے دست راست زاہد القاسمی کے والد ضیاء اللہ قاسمی تھے) سب نواز شریف کے ساتھ تھے ۔

کیا عجیب اتفاق ہے کہ اُس زمانے میں لبرل انگریزی و اردو پرنٹ میڈیا کے علمبردار ڈان میڈیا گروپ، جنگ/نیوز گروپ اور دایاں بازو کے علمبدار نوائے وقت/نیشن گروپ نواز شریف کی صدر مملکت، آرمی چیف اور نواز مخالف ججز لابی پر مشتمل غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ کے دھڑے سے لڑائی کو اینٹی اسٹبلشمنٹ لڑائی بناکر پیش کررہے تھے ۔ جب یہ لڑائی اپنے عروج پر پہنچی تو اس موقعہ پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک شفاف نئے انتخابات کا مطالبہ پیش کیا اور وہ یہ جان چُکی تھیں کہ نواز شریف کیمپ کے حملوں سے بے حال نواز شریف مخالف غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کا دھڑا اپنے لائے لاڈلے کی رخصتی پر راضی ہوجائے گا تو انھوں نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو پُر امید تھیں نئے الیکشن فری اور فئیر ہوئے تو انھیں واضح اکثریت مل جائے گی ۔ نواز شریف مخالف ہئیت مقتدرہ نے بے نظیر بھٹو کے سہارے نواز شریف کو اسی ہتھیار سے باہر کیا جس سے پی پی پی کو کیا تھا ۔ نواز شریف نے عدلیہ کے ذریعے واپسی کی کوشش کی لیکن وحید کاکڑ کی مداخلت سے بے نظیر بھٹو نے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم دونوں کو خالی کرالیا۔ لیکن اسٹبلشمنٹ نے معین قریشی کی قیادت میں ایک ایسا نگران سیٹ اَپ قائم کیا جس نے بے نظیر بھٹو سادہ اکثریت بھی نہ لینے دی ۔ قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو کو ایم کیو ایم کا محتاج بنایا، دوسری طرف اُس نے پنجاب میں اپنی وفادار نواز شریف سے منحرف مسلم لیگ جونیجو کو فیصلہ کُن ووٹ دلوائے جن کے بغیر پنجاب میں حکومت بنانا ممکن نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ پی پی پی کو مجبوراً جھنگ سے قومی اسمبلی ایک سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں رکھنے والی سپاہ صحابہ کو بھی ساتھ ملانا پڑا ۔ اور جے یو آئی ایف کو بھی اتحاد میں شامل کرنا پڑا ۔ اور اس طرح مکمل بااختیار عوامی حکومت تشکیل دینے کا جواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔

ان سب مجبوریوں اور کنٹرول کے باوجود بے نظیر بھٹو نے جی ایچ کیو، آئی ایس آئی کی ڈیپ اسٹیٹ اور تزویراتی گہرائی کی پالیسیوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے اور پاکستانی معشیت کو اپنے وسائل پر انحصار کرنے کے لیے توانائی، ٹیلی کمیونیکشن، ڈیجیٹلائزیشن، ایکسپورٹ اورئنٹڈ بنانے اور جنوبی ایشیا کو ٹریڈ بلاک میں بدلنے اور اسے تجارتی کوریڈور میں بدلنے کی کوشش کی۔ بے نظیر بھٹو فوج اور آئی ایس آئی کو ریاست پاکستان کے سیکورٹی آپریٹس کو افغانستان اور وسط ایشیا تک ڈیپ اسٹیٹ اور تزویراتی گہرائی کے تحت پھیلانے، اسلحے، منشیات اور اسمگلنگ کے ذریعے کالے دھن کو جمع کرنے اور جہاد کشمیر کے ساتھ ساتھ جہاد کو ہندوستان کے اندر پھیلانے سے روکنے کی غیر حقیقی فاروڑ پالیسی سے دست بردار کرانا چاہتی تھیں ۔ انہوں نے فوج، آئی ایس آئی، سویلین بیورکریٹک اداروں میں ضیاء الحقی باقیات کے لوگوں کی جگہ پروفیشنل لوگوں کو لانے کی کوشش کی ۔ فوج کو احساس تحفظ دلانے کے لیے مزائیل ٹیکنالوجی اور ایٹمی پروگرام میں اصلاحات کو فروغ دیا ۔

یہ سب کوششیں پاکستان کے مفاد میں تھیں لیکن اُن کی ان کوششوں نے جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کو کنٹرول کرنے والی ضیاء الحقی قوتوں کو دوبارہ نواز شریف سے ہاتھ ملانے پر آمادہ کرلیا۔ فوج اور آئی ایس آئی اور نواز شریف کے کنٹرول میں موجود میڈیا کو بے نظیر حکومت کے خلاف زھریلے پروپیگنڈے میں مصروف کردیا۔ اتنا زھر اگلا گیا کہ ہماری ساری اربن چیٹرنگ کلاس کی نئی نسل اُسی پروپیگنڈے کے اثر میں جوان ہوئی ۔ بے نظیر بھٹو پر پہلا وار عدم اعتماد کے زریعے کیا گیا۔ ایم کیو ایم کو الگ کیا گیا اور قریب تھا کہ بے نظیر بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ ہوجاتا ۔ اسامہ بن لادن تک کو استعمال کیا گیا۔ سندھ میں نسلی فسادات کرائے گئے ۔ جب اس سے کام نہ چلا تو مرتضیٰ بھٹو کو گمراہ کرکے پاکستان لایا گیا ۔ مرتضیٰ بھٹو کی آستین میں سانپ غنوی کی شکل میں ضیاء الحق کے دور سے پالا جارہا تھا ۔ جب مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر میں صلح ہوگئی اور بھٹو خاندان کے درمیان ملن ہونے والا تھا تب مرتضیٰ کے قتل کی سازش رچی گئی ۔ ایوان صدر میں بیٹھا فاروق لغاری بروٹس ثابت ہوا۔ یوں اسٹبلشمنٹ نے پاکستان کو جمہوری راستے پر گامزن ہونے اور ترقی کے راستے کے سفر کو کھوٹا کیا ۔

1997ء میں فوج، آئی ایس آئی نے نواز شریف کو دوتہائی اکثریت کا تحفہ دیا اور نواز شریف کو اپنی زات کے گرد ایک اور اسٹبلشمنٹ کی تعمیر کا موقع  فراہم کردیا۔ یہ کتنا خوفناک تجربہ ثابت ہوا اس سے سب واقف ہیں ۔ نواز شریف نے سیاست، صحافت، فوج، ایجنسیوں، سویلین بیوروکریسی اور عدلیہ میں اپنے ذاتی وفاداروں کی ایک بڑی اسٹبلشمنٹ کی تعمیر کی جو اسٹبلشمنٹ کے اندر ایک اسٹبلشمنٹ تھی جسے توڑنے کے لیے فوج نے ایک تجربہ 2002ء، دوسرا تجربہ 2018ء میں کیا جبکہ اُس نے 2008 سے 2013 میں نواز شریف سے مفاہمت کی راہ بھی نکالنا چاہی ۔ ان سب کا نتیجہ عمران خان کی شکل میں اُن کے سامنے ہے ۔

پیپلزپارٹی نے اس سارے عرصے میں ملک کی جمہوری قوتوں کو باہم اشتراک میں رہنے اور اسٹبلشمنٹ /خاص طور پر فوج کو بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے اور کررہی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت سے باز آجائے کیونکہ دوسری صورت میں وہ اپنا ادارہ بھی گنوا بیٹھے گی ۔

پیپلزپارٹی کی ہر دور میں زندہ قیادت نے اپنے اوپر ہونے والے جبر اور زیادتی کو کبھی زاتی انتقام میں تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی کبھی ملک کا جغرافیائی نقشہ بدلنے کا ایجنڈا اپنایا ۔ وہ آج بھی یہی کررہی ہے جب بھٹو خاندان اور کارکنوں کی سینکڑوں قبریں تیار کرچکی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا اشراف لبرل پریس، لبرل سوسائٹی اور بوتیک لیفٹ نہ ماضی میں اور نہ اب زاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر چیزوں کو دیکھنے کے کیے تیار تھا نہ ہے اس سے بڑا المیہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply