عمران خان کی احتجاجی تحریک/سیّد محمد زاہد

اس وقت ملک کو ایک مرتبہ پھر غیر آئینی طریقے سے چلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نوے دن کے اندر کروانا آئینی پابندی ہے۔ صدر پاکستان اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے الیکشن کی تاریخ دے چکے ہیں۔ادھر جن کی ذمہ داری ہے وہ اس آئینی پابندی کو ہَوا میں اُڑانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ غیر آئینی بندوبست کامیابی سے اپنے قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ بات عدالتوں میں جائے گی اور وقت گذرتا جائے گا۔ عمران خان ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کے پاس اس غیر آئینی حرکت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ سب سے پہلے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران وہ خود غیر آئینی چال چل کر اس غلط حرکت کو ایک مثال فراہم کر چکے ہیں۔ لیکن مہذب دنیا میں ایک جرم دوسرے جرم کو جواز فراہم نہیں کرتا۔

وہ اپنے دورِ  حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے مخالفین اور خود اپنے حواریوں سے جس طرح پیش آتے رہے ہیں اس کی وجہ سے پورے ملک میں ان کی حمایت میں اب ایک بھی آواز نہیں اُٹھ رہی۔ واحد موجودہ حواری جماعت اسلامی بھی مکمل طور پر خاموش ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں کامیاب تحریکوں کا ایندھن بننے والی مذہبی سیاسی پارٹیوں میں سے بھی کوئی ان کی پشت پر موجود نہیں۔ یہ پارلیمانی طرز حکومت ہے، علاقائی، قومی، لسانی و مذہبی تنظیمیں سب اس ملک میں موجود ہیں، سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتاہے۔ انہوں نے سب کو ناراض کیا ہوا ہے، کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں۔

ان حالات میں وہ خود کو زمان پارک میں مقید کر چکے ہیں۔ بہادری کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں لیکن مخالفین کی گیڈر بھبکیوں سے ڈر کر اپنے بل میں چھپے بیٹھے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں جب بھی کسی مقبول سیاست دان کو دیوار کے ساتھ لگانے کے خلاف مزاحمت کا مرحلہ آتا ہے تو عوام اس تحریک کا ہراول دستہ ہوتے ہیں۔ آئینی بندوبست کی حفاظت ہمیشہ عوامی جدوجہد کرتی ہے۔ مقبول عمران خان بھی اب عوام کی مدد کے طالب ہیں۔

اس سے پہلے ۲۵ مئی کو ایک غلط چال چلتے ہوئے اسلام آباد پرچڑھائی کرنے کی کوشش میں اپنے کارکنان کی پٹائی کروا چکے ہیں۔ اب گرفتاری کا خوف ذہن پر سوار ہے اور اپنے ساتھ پھر ورکرز کو لے کر جیل جانا چاہتے ہیں۔

عمران خاں بلا شبہ ایک مقبول لیڈر ہیں لیکن ان کی مقبولیت گلی، محلوں اور سڑکوں پر موثر عوامی احتجاج میں منتقل نہیں ہو سکتی۔ یہی حال باقی سیاسی جماعتوں کا ہے۔ چار سال تک وہ عمران خاں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہے، عوام سے ووٹ لے کر خود کو صحیح ثابت کرتے رہے لیکن عوامی سطح پر کوئی موثر احتجاج نہ کر سکے۔

عوام سیاسی لیڈروں کی بات سنتے ہیں۔ ان کو ووٹ دیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جیل جانے کو تیار نہیں،ان کے ساتھ سڑکوں پر نکلنے کو راضی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دانوں نے کبھی بھی ان کو اہمیت نہیں دی۔ کبھی بھی اپنی پارٹیوں کو عوامی سطح پر آرگنائز نہیں کیا۔ طلبا ، مزدوروں، کسانوں میں ان کی کوئی تنظیم نہیں۔ بلکہ ان تمام شعبوں میں سیاسی سرگرمیاں تقریباً ناپید ہیں۔ ملک میں نظریاتی سطح پر، ماسوائے جماعت اسلامی، کبھی کسی سیاسی تنظیم نے کام نہیں کیا۔ اپنے کارکنان کی سیاسی تربیت پر کبھی دھیان نہیں دیا۔ بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے اور اگر کبھی کروائے بھی ہیں تو انہیں اختیارات نہیں دئیے۔

شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی پارٹی عوامی سطح پر کام کرے گی تو وہاں لیڈر پیدا ہوں گے۔ وہ عوام میں مقبول بھی ہوں گے اور پھر کبھی نہ کبھی قیادت ان کے حوالے کرنا پڑے گی۔ یہ خوف ان کو صرف اپنی ذات تک محدود کر دیتا ہے۔

تمام سیاسی پارٹیاں, بشمول عمران خاں کی تحریک انصاف, سیاسی جدوجہد کا راستہ بھول کر اسٹیلشمنٹ کے در کی گدا بن چکی ہیں۔ عوام میں ان کا کام صفر ہے۔ اسی لیے جب ان پر مشکل پڑتی ہے تو عوام جو کہ سیاست کی جان ہیں اور غیر آئینی چالوں کے راستے کی اصل رکاوٹ ہیں، ان کے پیچھے نہیں ہوتے۔

جب ایتھنز میں اولمپک گیمز کے فاتح کھلاڑی سیلون نے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اس کو شہر کے عوام نے نو علاقائی قائدین کی قیادت میں ناکام بنایا۔ جولیس سیزر کے قتل کے بعد شہر کی مقامی سیاسی جتھوں نے جو کہ شہر کے زیادہ تر حصوں پر سیاسی کنٹرول رکھتے تھے، اس کے نامزد کردہ اوکٹووین کو مارک اینتھونی کے خلاف سپورٹ کرتے ہوئے حکومت پر بٹھایا۔ ۱۹۶۱ میں فرانس کی کالونی الجیریا میں موجود جرنیلوں نے بغاوت کر دی ان کا مقصد پیرس پر قبضہ کرنا تھا۔ الجیریا میں اس وقت پانچ لاکھ فوج تھی۔ فرانسیسی صدر نے عوام کو مزاحمت کی آواز دی۔ ٹریڈ یونینز کی مدد سے عوام نے باغیوں کو دوسرے دن ہی بھاگنے پر مجبور کردیا۔ تھائی لینڈ میں فروری ۱۹۹۱ کی بغاوت کے خلاف طلبأ نے تحریک چلائی اور فوج کے نامزد کردہ وزیراعظم کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔ ترکیے میں کئی دہائیوں سے ہونے والے مسلسل بلدیاتی انتخابات میں سیاسی پارٹیاں مقامی سطح پر مضبوط ہو چکی تھیں جس وجہ سے جب فوج نے بغاوت کی تو عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔

پاکستان میں ایوب کے خلاف مہم میں طلبأ اور مزدوروں کا ہاتھ سب سے زیادہ تھا۔ مشرف کو عوام نے وکلأ کی قیادت میں دھول چاٹنے پر مجبور کیا۔ یاد رہے اس وقت ملک میں صرف وکلأ کی تنظیمیں ہیں جہاں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔

بدقسمتی ہے کہ ہمارا ملک ایک اور غیر آئینی بندوبست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکمران اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اسے مدد مہیا کر رہے ہیں اور عمران خان مقبولیت کے دباؤ کو استعمال کر کے اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے بچے کھچے آقاؤں کو پھر استعمال کرنا چاہتے ہیں یا پھر ملک کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل کر اپنے لیے نئے مواقع تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی سمیت کسی میں بھی عوامی جدوجہد کی صلاحیت نہیں کیونکہ کسی پارٹی نے عوام کے ساتھ اپنا رشتہ پکا کرنے کے لیے طالب علموں، مزدوروں، کسانوں میں کام نہیں کیا۔ کسی نے اپنی پارٹی کو نظریاتی سطح پر تیار نہیں کیا۔ اس لیے ناکامی اب پھر عمران خان کی غیر سیاسی چالوں کا مقدر بنے گی۔ اس سے پہلے امریکی خط کا ڈرامہ، اسمبلیوں سے استعفی، لانگ مارچ، اپنا پسندیدہ چیف لانے کی خواہش اور صوبائی اسمبلیوں کی قربانی سمیت کوئی چال ان کا ہدف حاصل کرنے میں مدد نہ کر سکی۔ وہ مجمع جمع کر سکتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں حاضری پر کامیاب ڈرامہ کر سکتے ہیں لیکن سب کوششیں ان کے مخالفیں کی تعداد بڑھاتے چلی جائیں گئیں۔ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا؛ بھٹو نے بھی اپنے کیس کو اسی طرح لیا تھا۔ کرنل رفیع نے آخری شام جب انہیں پھانسی کی اطلاع دی تو ان کا کہنا تھا ”یحیٰ (بختیار) نے میرے کیس کو خراب کیا۔میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی، زندہ بھٹو کی نہیں۔” عمرن خان بھی اپنے مقدمات کو مذاق بنا رہے ہیں اور دن بدن ان کے گرد حلقہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے تمام اندازے غلط ہو رہے ہیں۔ ان کی جیل بھرو تحریک بھی بری طرح ناکام ہوگی۔ بدقسمتی سے یہ ناکامی دوسری سیاسی قوتوں کو بھی کمزور کر جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب بھی موقع ہے کہ وہ یہ خود کش حملہ کرنے کی بجائے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں۔ سیاسی راستہ اختیار کریں۔ حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں غیر آئینی ہتھکنڈوں کی بجائے سیاسی راستہ اختیار کریں۔ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بننے کی بجائے عوام کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ غیر آئینی حکومت کا یہ تجربہ آنے والے دور میں سیاسی پارٹیوں کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بن جائے گا۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply