پاکستان ایمبیسی “دی ہیگ” میں منعقدہ اِی کچہری میں بے ضابطگی کا انکشاف

(رپورٹ : احمد صہیب اسلم )سننے میں آیا ہے کہ بیرون ملک   مقیم پاکستانیوں کے لئے ، حکومت پاکستان نے سفارت خانوں کو ہدایت کی ہوئی  ہے کہ وہ مقامی پاکستانیوں سے رابطے میں رہیں اور لوگوں کو درپیش مسائل سنیں اور ان کا حل نکالیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سفارت خانوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی تجاویز سُن کر اپنے کام کے طریقہ کار میں بہتری لائیں ۔ شاید  اسی مقصد کے لئے سفارت خانہ پاکستان “دی ہیگ اِی کچہری” کا انعقاد بھی کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں ایمبیسی کے شوشل میڈیا پر انگریزی زبان میں تشہیر کے بعد آخری کچہری ۱۲, اکتوبر ۲۰۲۲ کو منعقد کی گئی ۔

اس اِی کچہری کے انعقاد اور طریقہ کار پر مختلف آراء پائی  جاتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے لوگوں کو اپنے مسائل اور مشکلات متعلقہ فورم تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے جبکہ کچھ لوگ اس اِی کچہری کی افادیت اور اس کے طریقہ کار کے نامناسب ہونے پر سوال اُٹھاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس شکایت اور تجویز کے ڈھانچے میں خرابی ہے۔
بقول مرزا اسد اللہ خان غالب

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقان کا

Concealed in my construction is a cause of my own destruction
The hot blood of the peasant is the essence of the lightning of the harvest.

ذرائع اور تجربے نے یہ تصدیق کی ہے کہ پاکستان ایمبیسی دی ہیگ (نیدر لینڈ) نے جو بہت سی اِی کچہریاں منعقد کی ہیں ۔ ان کچہریوں کے انعقاد کے طریقہ کار اور ان میں لئے گئے شرکاء کے چُناؤ میں شدید قسم کی بے ضابطگیاں پائ جاتی ہیں۔ ان اِی کچہریوں میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر شکایات و تجاویز کنندہ “منتخب “ کئے جاتے ہیں ۔

ہالینڈ میں پاکستان ایمبیسی دی ہیگ کے متعلق کچھ عرصے سے یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ اِی کچہری میں رجسٹریشن کرانے والے سب پاکستانیوں کے مسائل اور تجاویز کو نہیں سُنا رہا اور نہ ہی ان کی شکایت یا تجویز پر کوئ ردِعمل دیا جا رہا ہے ۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ صرف چند مخصوص لوگوں کی شکایت یا تجویز کو خانہ پوری کے لئے سُنا جا رہا ہے۔

لوگوں کی شکایات و تجاویز میں برتے جانے والے امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ پبلک میں دوسری شکایت یہ ہے کہ سفارت خانہ پاکستان کے بتائے گئے مقررہ وقت پر لوگ اپنے اِی میلز پر زوم لِنک کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور یہ گنگناتے رہتے ہیں ۔
چِھٹی نہ کوئی  سندیس
جانے وہ کونسا دیس
کہاں تم چلے گئے

پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ “نیپال “ سے واپس آکر ، کچھ چنیدہ لوگوں سے ایمبیسی والے ، اِی کچہری کے طریقہ کار کے مطابق اور اپنی روایتی سُستی کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ، اِی کچہری کے وقت یا بالکل تھوڑی سی دیر پہلے، زوم لنک شیئر کر دیا جاتا ہے جبکہ بہت سے لوگوں کا صرف وقت ہی ضائع کیا جاتا ہے ۔ انہیں بروقت یہ تک نہیں بتایا جاتا اور نہ ہی اطلاع دی جاتی ہے کہ ان کی شکایت یا تجویز زوم لنک پر نہیں سُنی جا سکتی اور نہ ہی سُنی جائے گی ۔ اس لئے انتظار کی فضول میں زحمت نہ کریں اور نہ ہی ، یہ گنگنائیں کہ

انتہاء ہوگئی ، انتظار کی

ایمبیسی آف پاکستان کوئی  فلمی ادارہ تھوڑی ہی ہے کہ گنگنانے پر اور انتظار کرنے پر ، فلم کی مانند کوئی  چمتکار ہو جائے گا۔

مزاح بر طرف ، ایمبیسی کے کیمونی کیشن (ابلاغ عامہ ) کے مسائل اور اُوپر مذکور سب باتوں کی وجہ سے لوگوں کے دل میں ایمبیسی کے ڈپلومیٹس کا اِمیج اچھا نہیں بن رہا۔ ٹھیک ہے کہ سب شکایات اور تجاویز سننے والی نہیں ہوتی ہیں مگر لوگوں کو اُمید دلا کر ان کا وقت ضائع کرنا اچھی بات نہیں ہے ۔

سفارت خانہ پاکستان دی ہیگ (نیدر لینڈ) میں متعین سفیر پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ پبلک کی رائے یا اطلاع کی بجائے ، حالات و واقعات یہ خبر دیتے ہیں کہ وقتاًفوقتاً ان کی طرف سے منعقد کی جانے والی اِی کچہری بوگس ہیں ۔ سفیر پاکستان سے باضابطہ رابطہ کیا گیا ہے اور ان کے مؤقف کا “بوگس اِی کچہری “ کی خبر پر انتظار کیا جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(راقم ، کافی برسوں سے نیدر لینڈ میں مقیم ہیں اور انٹرنیشنل جرنلسٹ کونسل آف پاکستان کے ساتھ ساتھ یورپ کی صحافتی تنظیم یورپئین پریس فیڈریشن کے ممبر ہیں  )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply