• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہمیں امن چاہیے (سوات کے حالات کے تناظر میں) -محمد وقاص رشید

ہمیں امن چاہیے (سوات کے حالات کے تناظر میں) -محمد وقاص رشید

روئے زمین پر جس شئے  کا نعم البدل کوئی نہیں وہ زندگی ہے۔ ہر کسی کو اسکے حصے کی ایک ہی بار ملتی ہے اس لیے اگر کوئی شئے قیمتی ہے تو وہ انسانی زندگی ہے۔
ریاستوں کی تشکیل کے مقصد کا اگر اس تمہید کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو ریاست کی اولین ذمہ داری فرد کی زندگی کی حفاظت ہے۔

ریاست اور رعایا کے درمیان عمرانی معاہدے آئین کو اسی لیے بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ یہ دونوں اطراف سے اس زندگی کی حفاظت و افزودگی کی ایک تحریری یاداشت ہے۔ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ جہاں اس یاداشت کی دونوں جانب سے پیروی کی جاتی ہے وہاں پر زندگی نہ گزارنے والے وہاں زندگی گزارنے کی حسرت لیے دور سے رالیں اور آنسو بہاتے جیتے ہیں۔

پاکستان بھی ان حسرت زدہ لوگوں کی سر زمین ہے جو کہ بنا تو اس مقصد کے لیے تھا کہ یہاں مسلمانوں کی زندگی کی حفاظت ہو گی لیکن افسوس کہ جہاں آئین کی پاسداری نہیں افراد کی من مانی کا نظام ہوتا ہے وہاں سب سے قیمتی شئے زندگی سب سے ارزاں ہوا کرتی ہے۔

ہماری ریاستی تاریخ افراد کی من مانیوں سے بھری پڑی ہے جسکی قیمت ہم جرمِ ضعیفی کی شکار رعایا مرگِ مفاجات کی صورت ادا کرتے ہیں۔

مفاد پرستی ہمیشہ محدودات کی قائل ہوا کرتی ہے۔ مفاد پرست ہمیشہ اپنے ذاتی یا گروہی وقتی فائدے کے لیے اجتماعی مفادات کو دور رس نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور مذہب کا ذاتی یا گروہی مفاد و منفعت کے لیے استعمال اجتماعی حیات کو کیا نقصان پہنچاتا ہے یہ ہم پاکستانیوں سے بہتر کس کو جاننا چاہیے ؟

80 کی دہائی میں ایک “مردِ مومن مردِ حق” تشریف لائے امریکہ کو دنیا میں اور انہیں پاکستان میں بِلا شرکتِ غیرے جہاد کی ضرورت پڑی تو ڈالروں اور ریالوں کے ایکسچینج ریٹ میں روپے نہیں جہادی فتوے دیے گئے۔

نا عاقبت اندیشی کی انتہا یہ ہے کہ اسلامی احکامات کی من پسند بلکہ امریکہ پسند تشریح کر کے عام لوگوں کو شدت پسندی کی باقاعدہ تربیت دے کر انکے ہاتھوں میں کلاشنکوف دے دی گئی اور یہ امریکہ بہادر کے دنیا میں واحد سپر پاور بننے اور ضیالحق کے “مردِ مومن مردِ حق ” بننے کے بعد کہاں چلتی کسی کی بلا سے۔ یہ پھر وہیں چلیں جہاں چلنی تھیں کہ اے پی ایس پشاور نامی گھاؤ سے خون آج بھی رِس رہا ہے۔

جب ریمبو تھری جیسی افغان جہاد پر بنی فلموں نےہالی وڈ میں اور پاکستانی “جہادیوں” نے “شمالی وڈ” میں اپنا کاروبار پورا کر لیا تو دو دہائیاں بیت چکی تھیں ۔ افغان جہاد کے ثمرات کہیں مدارسی سلطنتوں کی صورت میں سامنے آچکے تھے کہیں شوگر ملوں کی شکل میں۔

اب پاکستانی فوج کا سربراہ پرویز مشرف کی صورت میں ایک ایسی شخصیت تھی جنہوں نے 9/11 کے بعد اسی امریکہ بہادر کے ایما ء پر اب ان جہادیوں کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا۔
وہ 9/11 جس میں پاکستان کا نہ کوئی لینا نہ دینا مگر اسکے بعد جو کچھ ہوا تاریخ کے ایک طالبعلم اور معروضی حالات کے ایک ادنیٰ  سے مشاہدہ کار کی حیثیت سے دیکھنا انتہائی المناک ہے۔

9/11 کے بعد امریکہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان آتا ہے اور پاکستان کا بندوق کی نوک پر چیف ایگزیکٹو بننے والا کمانڈو سربراہ ہمیں بتاتا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کو مکے اور کولن پاول کو سیلیوٹ کرنے کا نام “سب سے پہلے پاکستان” ہے۔ لیکن شیخ رشید جیسے رطب اللسان اس مشرف کے نام کے ساتھ بھی “سید” لگا کر اسکے اقدامات کو اسلامی ٹچ دے ہی ڈالتے ہیں۔

وزیرستان فوج بھیجنے کی دیر تھی کہ پورا پاکستان بموں کے دھماکوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب اس ملک کے کسی گوشے میں انسانی چیتھڑے نہ اڑے ہوں ۔ تحریکِ پاکستان سے لے کے اب تلک بہنے والا لہو بارود کے ذروں کے ساتھ مزید نہ بہا ہو۔

ہر طرف سراسیمگی ، خوف ، دہشت اور وحشت کا عالم تھا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب فوج کو وردی پہن کر عوام میں جانے سے منع کر دیا گیا۔ یہ تھی ایک فرد کا خود کو آئین سمجھ کر اٹھارہ کروڑ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا انجام۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ اس وقت ٹی ٹی پی کو افغانستان کے سٹوڈنٹس قبول نہیں کرتے تھے اور پاکستان میں حملوں کے خلاف تھے لیکن ٹی ٹی پی والے اتنی بڑی عفریت بن چکے تھے کہ پاکستان کے بازاروں گلیوں چوکوں چوراہوں کو چھوڑیے پاکستان کے جی ایچ کیو تک پر حملے کا کیا کوئی سوچ سکتا ہے۔

اس سے بڑی کوئی بد بختی کیا ہو سکتی ہے کہ اتنے مارے گئے ، اتنے شدید زخمی ، حملہ خودکش تھا یا ریموٹ کنٹرولڈ ، خودکش بمبار کمسن تھا ، سَر مل گیا ، شواہد اکٹھے کر لئے ، شہدا اور زخمیوں کے لیے امداد کا اعلان ، فلاں جماعت نے ذمہ داری قبول کر لی اور دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے جیسی خبریں معمول کا حصہ تھیں۔

میں اکثر دکھے ہوئے دل کے ساتھ سوچتا تھا کہ جس ملک میں ستر ہزار بے گناہ و معصوم مقتولوں کا ایک نیا قبرستان آباد ہو جائے، اس ملک سے سرمایہ اور کاروبارِ زندگی ہی فرار پا جائے ، جس ملک کو دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک قرار دے دیا جائے ایک دہائی ہر طرف بربادی ہی بربادی ہو وہاں وہ کون سے عزائم تھے جو دہشتگردوں کے پورے نہیں ہوئے تھے ؟۔

سانحات کی اس دہائی میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہو، باجوڑ مدرسے پر ڈرون حملہ ہو ، بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت ہو ، پاکستان میں سینکڑوں بم دھماکے اور دہشتگردی کے حملے ہوں ، اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں مرنا ہو ، سانحہ لال مسجد ہو، قیمتی ترین انسانی جانوں کے ضیاع سے پُر سب کچھ بہت ہی دلخراش تھا لیکن پوری قوم انسانی تاریخ کے جس سفاک ترین سانحے پر خون کے آنسو روئی وہ اے پی ایس کا واقعہ تھا۔ جسے لکھتے ہوئے انگلیوں کی پوریں موبائل سکرین کو چھوتے ہوئے گویا پھوڑے بن گئیں زخم زخم ہوئیں۔

میرے لیے تب بھی یہ بات محض انسانی جذبات سے مذہبی عقیدت اور حب الوطنی کی غیرت کے ایک بے حس و سنگدل کھلواڑ جیسی تھی کہ جو محلات سے ایوانوں میں جانے کے لیے فول پروف سکیورٹی انتظامات انکے خون پسینے سے وصول کرتے ہیں وہ انکے بال بیرنگ زدہ چیتھڑوں اور بارود کو گھولے ہوئے لہو پر جوتے رکھ کر ٹی وی کیمروں کے سامنے آ کر کہتے تھے کہ “ان بزدلانہ کاروائیوں سے دہشتگرد قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے”۔

خدا خدا کر کے زبردستی کی لی گئی قربانیوں کے توسط سےدہشتگردی کا وہ عفریت قابو میں آیا۔ مگر وہ جس طرح قابو میں آیا تھا اس پر عجیب چبھنے والے سوالیہ نشان تھے ذہن میں ویسے تو یہ پوری دہائی ہی ریاستی بیانیے میں تضادات سے بھرپور تھی۔

امریکہ نے افغانستان سے فوج واپس بلانے کا عمل بتدریج جاری رکھا اور آخری دو سال پاکستان کی مدد سے قطر میں امریکہ اور سٹوڈنٹس کے مابین مذاکرات میں پاکستان ہی وسطی قوت تھی۔ آخر کار امریکہ کے انخلا ء پر افغان حکومت دوبارہ سٹوڈنٹس کے ہاتھ میں دینے کا فارمولا طے ہو گیا۔ اور امریکہ بہادر یہاں سے چلا گیا۔ افغانستان میں امریکی امداد کا انتظار اور فتح کے جشن اکٹھے شروع ہوئے۔ ادھر اوریا مقبول جان جیسے مذہبی جذبات کے ہاکرز انخلاء  کو جنرل حمید گل کے ایک پرانے بیان کہ”پاکستان افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے گا” کے ساتھ جیت کا جشن منا رہے تھے۔

طالبعلم نے تب ہی لکھا تھا کہ “پاکستانی اسلام” کی مدد سے دنیا میں واحد سپر پاور بننے والا امریکہ بہادر کیا واقعی اتنی آسانی سے یہ سب کچھ قبول کر لے گا یا پھر۔۔
اِک اور  دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

امریکی انخلا ء کے بعد افغانی ط ا ل ب ا ن کی جانب سے خلافت کی باتیں اور ہندوستان کو دھمکیاں ، جو بائیڈن کا پاکستانی ریاست کو کسی خاطر میں نہ لانا ، پاکستان کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات ناکام ہونا ، انٹرنیشنل میڈیا پر افغانستان میں داعش کی آمد اور بین الاقوامی طور پر امریکہ ، چین اور روس کے پاکستان سے متعلقہ معروضی حالات سوالیہ نشان تو پیدا کرتے تھے لیکن مستقبل کے آئینے پر ابہام تشویش اور فکر کے دھندلکے کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔

اور پھر وہ وقت آیا جب پاکستان میں حکومتی تبدیلی ہوئی اور اب “اصل والی” حکومتی تبدیلی ہونے جا رہی ہے۔ اس دوران سوات میں اچانک پھر وقت کا دھارا وہیں پر پہنچ جانا جہاں سے پہلے بھی آغاز ہوا تھا بہت ہی زیادہ تشویشناک ہے۔ سوات کے لوگوں کا “ہمیں امن چاہیے” یک زبان ہو کر کہنا بہت خوش آئند ہے۔ مگر حالات اس سے بہت زیادہ کے متقاضی ہیں۔

ملک کی بڑی جماعتوں کے قائدین کو سنیے۔ کیا کسی کے فکروعمل میں وہ تشویش پائی جاتی ہے جو ایک ایسی قوم کے حکمرانوں میں ہونی چاہیے جو دس برس تک دہشتگردی کے ایک دوزخ سے گزری۔

نہیں ناں ؟ جی ہاں بالکل نہیں اور اسکی وجہ وہی ہے جو کہ اس مضمون کے آغاز میں تحریر کی کہ ایک تو یہ خواص جانتے ہیں کہ خدانخواستہ دہشتگردی کی صورت میں انکے گرد تو حفاظتی حصار موجود ہے مرنا تو انہوں نے ہے جنکا خون ہر عہد میں ارزاں رہا۔ زندگی بے وقعت۔

اس کھیل کا سیاسی پہلو تو بہت ہی سفاک ہے۔ پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے عمران خان کی جانب سے مزاحمتی اور احتجاجی سیاست جاری ہے۔ سوات کے حالات خراب ہونے پر وہاں کے عوامی نمائندے مراد سعید کی جانب سے وفاقی حکومت اور ایجنسیوں سے استفسار کی کئی ویڈیوز آ چکیں جن میں ریاستی بیانیے پر سوال اٹھائے گئے۔ جواباً ملک کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا یہ کے پی کے پولیس کی نااہلی ہے یاد رہے موجودہ وزیراعظم اور تب کے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے کہ ٹی ٹی پی والے پنجاب میں حملے نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمان نے کے پی کے میں گورنر راج لگانے کا عندیہ دے کر اس سارے معاملے کو بہت ہی مشکوک بنا دیا۔

مگر ایک عام آدمی کی حیثیت سے میرے دل میں شدید فکر پائی جاتی ہے۔ سوات میں جو زخم ریاست کے ایک حصے پر لگا تھا وہ پورے ریاستی پیکر کا ناسور بن گیا تھا۔ جو لہو وہاں پر چند بوندیں تصور کیا گیا تھا وہ سیلابِ خون بن کر پورے دیس میں بکھرا تھا۔ بارود کے جو ذرے سوات میں پھٹے تھے ان خون آشام ذروں نے پورے دیس پر قبروں کے نام پر سترہزار آبلے بنا دیے۔

تازہ ترین اطلاعات بہت ہی تشویشناک ہیں۔ امریکی حکومت نے اپنے عہدیداران اور سفارتی عملے کو محتاط اور محدود رہنے کا حکم دیا ہے کہ پاکستان پر دہشتگردی کے بڑے حملے ہو سکتے ہیں اور پاکستان اور بھارت کےدرمیان جنگ بھی چھڑ سکتی ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا ایسے وقت میں ہمارے نیوکلئیر اثاثوں کے بے قاعدہ ہونے اور پاکستان کے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہونے کا بیان کیا کسی نئے عہدِ ظلمت کا پتا دے رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم عوام کو کم ازکم سلامتی کے معاملے میں سیاست صوبائیت اور دیگر عصبیتوں سے بالاتر ہو کر یک زبان ہو کر اپنی ریاست سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ بہت ہو گیا ہمیں امن و اماں چاہیے۔ کیونکہ ان میں سے ہر شے کا نعم البدل ہے مگر زندگی ۔۔۔ ۔خدایا خیر!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply