سیرتِ محبوب رب العالمینﷺ/سعدیہ قریشی

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب بشریٰ رحمٰن کی وفات سے ڈیڑھ دو ماہ پہلے آئی۔ گزشتہ برس کوویڈ کے حملے سے وہ خاصی کمزور ہو چکی تھیں۔ بیماری کا ایک اور حملہ ہوا اور انہیں ہسپتال داخل ہونا پڑا ۔ہسپتال داخل ہونے سے صرف تین دن پہلے ان کی زندگی کا خواب سیرت طیبہ کی اس کتاب کی صورت شائع ہوا۔ قلم فاؤنڈیشن کے صدر جناب عبدالستار عاصم کتاب لے کر بشریٰ رحمن کے گھر آئے تو انہوں نے فرط عقیدت وفرط جذبات سے کتاب اپنے سینے سے لگائی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ اس سے زیادہ اظہار تشکر کیا ہوسکتا تھا۔صرف تین دن بعد طبیعت زیادہ بگڑ گئی ۔ انہیں ہسپتال داخل ہونا پڑا اور پھر وہ زندگی کی طرف کبھی واپس نہ آسکیں۔ “سیرت محبوب رب العالمین” بشریٰ رحمن نے دل کے قلم سے لکھی ہے۔ تخلیقی توانائی سے چھلکتا ہوا انداز۔عقیدت میں گندھے ہوئے اور عشق رسولﷺ میں بھیگے ہوئے الفاظ پڑھنے لگیں تو قاری ایک ہی نشست میں خاطر خواہ حصہ پڑھ کے کتاب ہاتھ سے رکھے۔ نہ ہی مشکل اصطلاحات اور دقیق لفظیات کہ متن بوجھل ہونے لگے ،انداز بیان احساسات اور جذبات سے جگمگاتا ہوا ایک سبک ندی کی طرح رواں دواں قاری کو ایک کیفیت میں لے جاتا ہے ۔سطر سطر میں عشق رسولﷺ کی حدت لو دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بے حد دل پذیر نثر میں گندھا ایک باب ہے ازلی سنجوگ جس میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہؓ اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہؓ کے درمیان نسبت طے ہونے کا تذکرہ ہے۔

“پھر جب اللہ کی طرف سے آسانیاں پیدا ہوگئیں تو سیدنا عبدالمطلب کو اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا شوق پیدا ہوا۔دلہن کی تلاش شروع ہوئی، ایسی ہی مہ جبین ہو جو سیدنا عبداللہ ؓکی نورانی پیشانی پر لکھی ہوئی تقدیر بن کر چمکے۔عالی نسب ،باحیا ہو،با کردار ہو ،سب کے سامنے بیٹھی ہو، سب سے جدا، سب سے منفرد نظر آتی ہو۔ جہاں بیٹھے وہیں اجالا ہو جائے۔ نظر انتخاب ٹھہری بھی تو کہاں جاکے، سیدنا آمنہ بنت وہب پر۔(ازلی سنجوگ باب سے اقتباس)

رسم عقیقہ کے موقع پر ساتویں روز دادا سیدنا عبدالمطلب نے اہل مکہ کو دعوت دی اور کہا اہل قریش، اہل مکہ تشریف لاؤ میرے بے مثال پوتے کا جشن ولادت مناؤ۔ جب رحمتیں گھر آنگن میں اترتی ہیں اور لاڈلا فرزند کائنات کو عطا ہوتا ہے اور مسرتیں سنبھالی نہیں جاتیں، تب اس کا انوکھا نرالا نام رکھا جاتا ہے، ایسا نام جو دنیا میں پہلے کسی نے نہ رکھا ہو، میٹھا ہو شہد کی طرح، معانی کا دریا ہو، رب کی نعمتوں کی طرح۔پکاریں تو نطق کو ناز ہو ،زبان کے جالے جھڑ جائیں، ہونٹ احتراماً ایک دوسرے کو چوم لیں، محسوس کریں تو رب کا تصور دل میں اتر آئے ،قلم لکھے تو دنیا بھر کی لغت سرنگوں نظر آئے۔مانوس اتنا لگے کہ ہر نام لیوا کو شفاعت کے جھرنوں کی مترنم جھنکار سنائی دے۔ اور جب دادا سیدنا عبدالمطلب نے اہل قریش کے سامنے اعلان کیا کہ وہ اپنے عالی بخت پوتے کا نام محمد تجویز کرتے ہیں تو پہلے قریش کی سماعتوں میں بھونچال آگیا۔ایک دم سات آسمان اس نام کے آگے جھکتے ہوئے محسوس ہوئے۔ کہنے لگے اے عبدالمطلب روایات سے اتنی بغاوت؟آگے نہ پیچھے ہماری نسلوں میں ایسا نام رکھا گیا نہ ایسا نام سنا گیا ۔۔۔ تو کیا تمہاری نسلوں نے ایسا نورانی فرزند کبھی دیکھا یا کبھی سنا؟ تنفس سے خوشبو نکل رہی ہے، ماتھا نور کی مشعل ہے۔پلکوں کے سائے میں دو عالم کی تقدیر رقم ہے ،شگفتہ شگفتہ لب گویائی کی قندیل ہیں ،سوئے تو ستارے نثار ہوں ,خوابیدہ ہو تو ستارے اپنا آپ وار دیں۔مانگیں تو شمس و قمر دونوں قدموں میں آ بیٹھیں ,خداوندعالم کی اتنی بڑی نعمت کو ہم کیا نام دیں سوائے محمد کے کہ جن کے تولد ہوتے ہی دونوں جہان ان کی ثنا میں مصروف ہوگئے۔

سیرت محبوب رب العالمین کا دیباچہ بشری رحمن نے گویا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیگا ہوا دل نکال کر قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ساری دنیا کا لکھا ہوا ادب ، دنیا کی ہر زبان میں لکھے ہوئے حروف، سارا فلسفہ منطق ، شاعری ،سخنوری سیرت النبی کے آگے ہیچ ہیں۔ ایسی کتابیں علم کے زور پر نہیں عشق کے زور پر لکھی جاتی ہیں۔

” دیباچے میں بشری رحمان لکھتی ہیں : “اللہ کی طرف سے قلم کا تحفہ تھا۔ ناول ،افسانے سفرنامے، ڈرامے اور شاعری لکھنے کے باوجود دل کے اندر ایک عارفانہ سی بے قراری رہنے لگی اور میں اسوہ حسنہ پر لکھی ہوئی سب کتابیں جمع کرنے لگی، مطالعہ کرنے لگی۔ جب کبھی حج اور عمرے کے لیے جاتی، صحن حرم میں بیٹھ کر اذن مانگتی اور لکھنا شروع کر دیتی۔لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ 1980میں شروع کردیا تھا۔میں جانتی ہوں ایسی کتابیں بزعم علم نہیں بزور عشق لکھی جاتی ہیں ۔ عشاق کو بہت سی معافیاں بھی مل جاتی ہیں ۔میں تصور میں سیدالکونینﷺ کے در کے باہر کھڑی ہوں، سر جھکائے ہوئے، ہاتھ باندھے ہوئے۔ جہاں جہاں سے آپ گزرتے جاتے تھے اس جگہ کی مٹی اپنے ماتھے پر لگائے ہوئے اپنے دوپٹے سے نعلین مبارک صاف کر رہی ہوں اور عرض کرتی جاتی ہوں :

تُو ہے محیط ِبیکراں میں ہوں ذرا سی آب جُو

یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر

آخر میں امریکہ میں مقیم خالد عرفان کی خوبصورت نعت کے کچھ دلپذیر اشعار:

مرے خدا ! مجھے آگاہِ رنگ و بو رکھنا

بروزِ حشر مجھے اْن کے رْوبرْو رکھنا

نبی کی دید کی حسرت ہے اِس طرح جیسے

زمیں پہ رہنا ستاروں کی آرزو رکھنا

معاف کرنے کا فن آپ نے کیا ایجاد

مرے رسول سے سیکھے کوئی عدو رکھنا

میں نعتِ احمدِ مختار پڑھنے والا ہوں

تم اپنے ذوقِ سماعت کو با وضو رکھنا

خیالِ حفظِ مراتب رہے تمہیں خالدؔ

تم اپنی نعت میں آدابِ گفتگو رکھنا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

92نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply