نار سے نور تک(1)-قاری حنیف ڈار

میں برطانیہ میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جو اسرائیل سے ہجرت کر کے وہاں پہنچا تھا، بہن بھائیوں میں میرا نمبر چوتھا اور آخری تھا، یوں کچھ لاڈلا بھی تھا،، یہودی مذہب میں بھی ہر مذہب کی طرح سوال کرنے کو بہت بُرا جانا جاتا ہے، اور سوال کو مذہب یا خدا کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے،ادھر میں تھا کہ سوال نہ کروں تو کھانا  ہضم نہیں ہوتا تھا، والدین میری اس عادت سے بہت تنگ تھے وہ حتی الامکان میرے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے اور آخرکار وہی اَمرت دھارا استعمال کرتے جو ساری دنیا کے والدین کرتے ہیں، یعنی پٹائی۔۔ میرے بہن بھائیوں کو جب بھی ،اور جو بھی ملتا ان کی سب سے پہلی ترجیح اسے کھانا ہوتی تھی، جبکہ میں جب تک پوچھ نہ لوں کہ کس نے دیا ہے؟ کیوں دیا ہے ؟ اور کتنا دیا ہے؟؟ کھاتا نہیں تھا،والدہ اکثر جب مجھے کوئی چیز دیتیں تو سوال سے پہلے ہی کہتیں، تیری خالہ نے دیا ہے، ان کی بیٹی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے اور سارے رشتےداروں کو دیا ہے اور اب   ـ  کھا لے !

مذہب کے معاملے میں ان کو کوئی خاص علم نہیں تھا، وہ ہوں ہاں کر کے چپ ہو جاتے یا جو کہانی سنی ہوتی ،سنا دیتے، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ میں مطمئن ہُوا یا نہیں ہُوا،البتہ یہودیت میں اسلام کی طرح ذرا ذرا سی بات پر کان پکڑ کر نکال نہیں دیا جاتا کہ یہ کافر ہو گیا،  بلکہ آپ یہودی ہیں اور عمل کریں یا نہ کریں آپکی یہودیت کو کوئی خطرہ نہیں، اسرائیل میں حکومت ہمیشہ سے بے عمل یہودیوں کی رہی ہے، اور یہ مسئلہ میں نے جتنے مذاہب تبدیل کئے سب میں دیکھا کہ ہر مذہب میں حکومت بے عمل لوگوں کی ہی ہے،  باعمل لوگ صرف جلنے کڑھنے کے لئے ہی رہ گئے ہیں ، عوام میں ان کی پذیرائی نہیں اور حکومت چلانے کی ان میں صلاحیت نہیں،  اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت چلانے کے لئے جس وسعت قلب و نظر کی ضرورت ہے، وہ ان میں نہیں ہے، لہذا ان کے مقدر میں ہی لوگوں کو کوسنا اور   خود بھی جلنا کڑھنا ہے،  میں کبھی کبھی سوچتا ہوں یوسف علیہ السلام نے تنِ تنہا کس طرح کافروں سے بھرے ملک میں حکومت کر لی، کس طرح پورے ملک کو اپنے ذاتی محاسن اور نظم و ضبط ،و عدل و انصاف سے حکومت کر کے مسلمان کر دیا،  کہاں وہ پیغمبر اور کہاں آج ان کے نام لیوا ؟

یہودیت کے جوہڑ سے نکل کر میں نے عیسائیت کے سمندر میں چھلانگ لگا دی،  اس سے کوئی خاص طوفان تو برپا نہیں ہوا، کیونکہ یہودیت سے عیسائی ہونا یا عیسائی سے یہودی ہونا، ایک معمولی تبدیلی سمجھا جاتا ہے، جس طرح مسلمانوں میں فقہ کی تبدیلی ہوتی ہے ، بندہ کسی بھی امام کو سوئچ کر لے ،رہتا مسلمان ہی ہے ، مگر میرے سوالوں کا جواب عیسائیت کے پاس بھی نہیں تھا،  اور میں زیادہ دیر وہاں بھی ٹک نہ پایا ، ایک سکھ دوست کی دوستی نے جو کہ میرا یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا مجھے سکھ بنا لیا،میرے سوالات نے اسے بھی سکھ مذہب سے فارغ کر دیا اور میں گیا تو اکیلا تھا مگر سکھ ازم سے نکلنے والے دو تھے، اب دو آدمیوں کو مذہب کی تلاش تھی، میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا، اگرچہ نسلی تعصب کی وجہ سے جو کہ مسلمانوں کے خلاف ہمارے خون میں شامل ہے، قرآن کو پڑھنا میرے لئے ایک قیامت سے گزرنا تھا ، لیکن میں جوں جوں قرآن کو پڑھتا گیا میرے اندر کی میل اور میرے سوالوں کی کاٹ کم ہوتی چلی گئی، قرآن تو بھرا ہی جوابوں سے ہے ،وہ سوال بھی خود کرتا ہے ،اس لئے دوسروں کو سوال سے منع کرتا ہے ،اور جواب بھی خود دیتا ہے۔ انسانی ذہن آج جن سوالوں تک پہنچا ہے،قرآن نے صدیوں پہلے ان سوالوں کو اٹھا کر ان کا تسلی بخش جواب دے دیا ہے ، مگر میرا مسئلہ مسلمان ہونے کے بعد شروع ہوا۔

بشکریہ فیسبک وال

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply