جنت البقیع میں ایک پہر/اقتدار جاوید(1)

نبی پاک ﷺ کی مسجد اور روضہ پاک کا اگر مکمل اور خوبصورت نظارہ کرنا ہو تو آپ جنت البقیع چلے جائیے۔وہاں سے نبی پاک ﷺکی مسجد کے نظارے کا لطف ہی الگ ہے۔جنت البقیع مسجد نبوی سے مشرق میں واقع لگتا ہے۔جنت البقیع ذرا بلندی پر ہے۔گنبد ِ خضرا ٹھنڈک بن کر آنکھوں میں اترتا ہے۔عشاق مسجد نبوی میں داخل ہوتے اور وہاں سے جنت البقیع کی زیارت کو آتے دکھائی دیتے ہیں۔گنبد ِخضرا کی تعمیر کی کہانی کوئی عشق کی داستان ہے۔

کسی زمانے میں ایک دشت ِ قپچاق ہوا کرتا تھا۔اب وہ تاریخ کے گھاٹ پر قربان ہو چکا ہے۔یہ علاقہ موجودہ قازقستان ، یوکرین، (جنگ فیم) جنوبی روس اور مالڈووا پر مشتمل تھا۔یہ خلافت عثمانیہ کے زیر ِ اثر علاقہ تھا۔ عثمانی ترک عہد میں افلاق کے نام سے جانا جاتا تھا۔یہی افلاق بعد میں مالڈووا کے ساتھ مل کر رومانیہ کا ملک بنا۔ وہاں کا ایک عاشق سیف الدین قلاوون تھا۔وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا غلام تھا۔اس نے ہی شام، مصر اور دیگر علاقوں سے عیسائیوں کو دیس نکالا دیا تھا۔وہ اسی دشت ِ قپچاق کا رہنے والا تھا۔اسی نے نبی پاک ﷺ کی قبر ِ منور پر پہلی بار گنبد بنوایا۔تب یہ لکڑی کا گنبد تھا۔ایک دفعہ آتش زدگی میں گنبد شہید ہو گیا تو ایک اور مملوک سلطان نے پہلی بار اینٹوں کا استعمال کر کے گنبد تعمیر کروایا۔ تب اس کا رنگ زرد تھا۔ مملوک اور خاندان غلاماں کا آپس میں شاید کوئی تعلق نہ ہو مگر یہ غلام حکومت کرنے اور مملکت کے دیگر فلاحی کام کے بنیاد گزار ضرور تھے۔اس کا رنگ سیاہ بھی رہا اور کئی صدیوں تک یہ گنبد ِ بیضا بھی رہا۔موجودہ سبز رنگ بھی عثمانیوں کے عشق کا ہی حاصل ہے۔محمود ثانی ترک خلیفہ نے اسے سبز رنگ کروایا تب موجودہ سعودی حکمران عرب میں بے لگام ہو چکے تھے۔

جب ہم مسجد نبوی میں پہلی بار داخل ہوئے تو سبز گنبد کہیں نظر نہ آیا اس کی زیارت کا اشتیاق تو جنم جنم سے رگ وپے میں موجزن تھا۔مواجہ شریف اور ریاض الجنہ سے آنکھیں تو ٹھنڈی ہو چکی تھیں مگر سبز گنبد کا نظارہ باقی تھا۔مواجہ شریف پر یہ کہنا بھی یاد نہ رہا تھا کہ:

تیری خیر ہووے پہریدارا

روضے دی جالی چم لین دے

مگر سبز گنبد نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ رضوان بھائی سے سوال کیا تو وہ ہمیں صحن ِ نبوی میں لائے اور اس کی زیارت کروائی۔یہاں جنت البقیع سے اس کا جلوہ ہی اور ہے۔ جنت البقیع کے شروع میں جہاں خاتون ِ جنت آرام فرما رہی ہیں اس کے کونے میں شرطے کی ایک پوسٹ ہے۔جیسے ہمارے بنکوں میں گارڈ اپنے مورچے میں موجود ہوتا ہے۔ویسے ہی بالکل ویسے ہی۔سفید لباس میں ملبوس ایک پچیس تیس سال کا نوجوان شرطہ۔وہاں سب کے لباس کا رنگ سفید ہی دیکھا۔حتی کہ البیک میں بھی عربی نوجوان سفید توپ میں ہی ملبوس نظر آئے۔مکہ پاک میں اور کعبتہ اللہ میں فوج کی وردی میں ڈیوٹی دیتے نوجوان نظر آئے۔مدینہ پاک میں سفید وردی ہی دیکھی۔میں نے کرنل شاہد سے کہا کہ یہاں پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں والے سفید وردیوں میں نظر آتے ہیں۔ مان لیا کہ سول لباس میں اپنی ڈیوٹی خفیہ طور پر دی جا سکتی ہے مگر مدینہ میں شرطے سر عام سفید لباس میں نظر آئے۔ایسا ہی وہ شرطہ جنت البقیع کے شروع میں کھڑا تھا۔ اس کے موجود ہونے سے سارے حجاج اور زائر محتاط ہی نظر آئے۔ایک ہم دیہاتی دوسرا پنجابی تیسرا پیر ِ ہندی کو ماننے والے اور:

امداد کن امداد کن از رنج و غم آزاد کن

در دین و دنیا شاد کن

یا شیخ عبدالقادرا اور چہارم والد قبلہ نے گڑھتی ہی اہل بیت کے عشق کی دی تھی۔دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے اس گڑھتی کی مٹھاس تالو پر جمی پڑی ہے۔یہ کیسے اترتی۔ایک اپنی طبیعت بھی لاپروا ہے کہ دیکھا جائے گا کا موٹو (Moto)حرز ِ جان کیے ہوئے۔اسی طرح شرطے سے بے نیاز اور اپنے عشق کی ترنگ میں تھے۔ساری دنیا اور کُل عالم ہیچ لگ رہا تھا۔دنیا کیا تھی ایک بے وقعت زمین کا ٹکڑا۔لوگ کیا تھے بے حقیقت اور خود کیا تھا بے مایہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

خاتون ِ جنت کے قدموں میں جو کھڑا ہو وہ بھلا دنیا کو کیا سمجھتا۔ایک لہر تھی جو مجھے اڑائے لئے جا رہی تھی، ایک مستی تھی جس میں جان ڈوبی پڑی تھی۔بھنور کو ہم پنجابی میں ڈھم کہتے ہیں۔ایسے لگتا تھا انجذاب کا ڈھم تھا اور میں تھا۔ پہلے جنت البقیع کے چوگرد دیوار تھی اور اس کی آخری توسیع ترک خلیفہ سلطان سلمان قانونی نے کی۔مسجد نبوی اور جنت البقیع کے درمیان کافی جگہ تھی، اسے وقتاً فوقتاً مسجد کی حدود میں شامل کر لیا جاتا تھا۔ان دونوں کے بیچ ایک محلہ اغوات کے نام سے آباد تھا اب وہ جنت البقیع میں شامل کیا جا چکا ہے۔اغوات آغا کی جمع ہے۔اصل میں یہاں مسجد نبوی کے خدام کی رہائش ہوتی تھی۔یہ لوگ حبشہ، موجودہ ایتھوپیا ،سے تعلق رکھتے تھے۔اغوات نیک لوگوں کا وہ گروہ تھا جن کا کلہم مقصد مسجد نبوی کی خدمت تھی۔یہ کعبتہ اللہ میں بھی موجود ہوتے تھے۔اپنے لباس کی وجہ سے یہ دور سے پہچانے جاتے تھے۔سفید لباس تو عرب کا خاصہ تھا ہی یہ لوگ سبز عمامہ بھی استعمال کرتے تھے۔سفید لباس ویسے بھی پاکیزگی کی علامت ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان میت کا کفن سفید رکھا گیا۔یعنی مکمل طور پر پاک صاف ہو کے اللہ کا بندہ اس کے دربار میں حاضری کا شرف پا رہا ہے۔یہودیت میں میت کو سفید تالیت میں ڈھانپ دیا جاتا ہے یہ ایک قسم کی دو رنگی شال ہوتی ہے مگر سفید رنگ اس پر غالب ہوتا ہے۔یہودیت مذہب والے میتوں کی تجہیز و تکفین کرنے والوں کو Cherva Kadisha کہتے ہیں۔ میں اس وقت تو مکمل خاموش تھا مگر مجھے قبلہ والد سے بچپن کی گفتگو بے طرح یاد آ رہی تھی۔ایسی قبور دنیا میں کہاں ہوں گی۔ دل ایک بوجھ سے بھرا ہوا اور آنکھیں مسلسل اس کو ہلکا کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف تھیں۔نہ دل کا آنکھوں پر اختیار تھا نہ آنکھوں کا دل پر۔بی بی پاک کی لحد مبارک آنکھوں کے سامنے تھی۔(جاری ہے)

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply