بڑا کون؟/کبیر خان

آپ نے بقائمی ہوش و حواس کبھی کسی مقامی جملہ کو ’’آکھان‘‘ اور آکھان کو ضرب المثل بنتے دیکھا ہے؟۔ ہم نے دیکھا ہے ۔ وہ تھا۔۔۔ :
’’نورجہان کے غازیوں اور ایم ایم خان کے حاجیوں کا جواب نہیں‘‘۔
اس جملہ کو اس مقام تک پہنچنے میں نصف صدی لگی نہ کسی تشہیری مہم کی ضرورت پیش آئی ۔ 1965 کی جنگ میں ملکہ ترنّم نورجہاں  کے تابڑ توڑ نغموں نے بچّے بچّے میں مادر وطن کے دفاع کا جوش و ولولہ بیدار کیا اورپھر
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

اس کے بعد اسّی کی دہائی میں ایم ایم خان نامی ایک شخص ہمارے پسماندہ اور پہاڑی علاقہ سے اُبھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے اک زمانے پر چھا گیا۔ ایم ایم خان ایک عام سا ریکروٹنگ ایجنٹ تھا لیکن اُس نے ایک عسرت زدہ خِطّہ کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ایم ایم خان نے سعودی عرب میں کام کرنے والی ایک جرمن تعمیراتی کمپنی سے سستی افرادی قوّت فراہم کرنے کا معائدہ کیا ۔ اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے علاقہ کے بے روزگاروں کو ڈھو کرسعودی عرب پہنچا دیا۔ جس کے نتیجہ میں اُن گھروں میں جہاں پچھلی عید والی سُتھن پیرہنی اگلی عید کے لئے’’کولوٹی‘‘(مقامی ذخیرہ اناج) میں اسٹور ہوا کرتی تھی، وہاں ریشمی سوٹوں سے بھرے ’’چیک والے‘‘ سوٹ کیسوں اور ’’دومونہی ٹیپوں‘‘کی بھر مار ہو گئی۔ وہ راولاکوٹ، جس میں سرکاری گیسٹ ہاوس سمیت ٹِین والے صرف تین ’’بنگلے‘‘ہوا کرتے تھے، آناً فاناً بنگلوں کے جنگلوں سے اٹ گیا ۔ (اورآج کچّی چھت والا ایک روایتی ’’کوٹھا‘‘ دیکھنے کونہیں ملتا) ۔آپ یقین نہیں کریں گے، ہمارے ایک قریبی رشتہ دار کی بھینس اور بیل ناشتے میں’’بند پیشٹریاں‘‘ کھانے لگے تھے۔ یہی نہیں اسی ایم ایم خان کی بدولت سعودی عرب جانے والے پچانوے فی صد محنت کشوں کو ناصرف خودعمرے اور حج کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ ایک بہت بڑی تعداد میں اُن کے لواحقین بھی ان سعادتوں سے بہرہ مند ہوئے۔ چنانچہ نورجہاں کے غازیوں کے ساتھ ایم ایم خان کے حاجیوں کو بھی نتھی کر دیا گیا۔۔۔۔ ’’نورجہان کے غازیوں اور ایم ایم خان کے حاجیوں کا جواب نہیں‘‘۔

صاحبو!دھکّے، مُکّے ، کہنیاں مار کر کسی طور ہم بھی ان ’’لاجوابوں ‘‘ کی صف میں گھُس گئے ۔ فرق یہ تھا کہ اُلٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد ایم ایم خان نے راقم کو سعودی عرب کی بجائے عراق بھیج دیا

’’لگتا تو نہیں لیکن مقامی ہفت روزہ اخبار میں تم سے ملتا جُلتا فوٹو دیکھ کر فرض کر لیا ہے کہ تم قدرے کم بےپڑھے ہو۔اگر میرا قیاس غلط نہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ بیت الحکمت کیا ہے اور کہاں واقع ہے۔۔۔۔؟ اگرنہیں تو میں بتا دیتا ہوں۔۔۔۔ بیت الحکمت بغداد کی وہ قدیم لائبریری ہے جس کی کوئی نشانی باقی نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اس عظیم لائبریری کو تیرہویں صدی میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس لئے بغداد میں اس کے درست محل وقوع کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یہ کتب خانہ مسلمانوں کے سنہری دور میں علم و دانش کا گہوارہ تھا۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ صفر کا ہندسہ اور عربی کے اعداد اسی دارالحکمت کی ایجادات ہیں ؟۔ اگر صفر اور عربی اعداد ایجاد نہ ہوئے ہوتے تو مہینے کے آغاز میں پچھلے مہینے کی جو تنخواہ تمہیں ملتی ، وہ نجانے صفر سے کتنی کم ہوتی۔ تنخواہ کو بٹّا مارو، کوئی از رہ التفات تمہیں صفر سے ضرب لگاناچاہتا تو ربّ جانے حاصل ضرب کیا نکل پڑتا۔۔۔۔، کیوں میں نے غلط کہا ہے۔۔۔؟‘‘

حساب کتاب کے علاوہ ایم ایم خان بندے کو تھاں پر رکھنے کا ہنربھی جانتا تھا۔ چنانچہ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ دیکھنے کی بجائے ہم برضا و رغبت دجلہ ، فرات ، سلیمانیہ، موصل ، کرکوک اور سلیمانیہ وغیرہ کی زیارتیں کرنے اور موصل کی لذیذ کھجوریں کھانے کے لئے تیار ہو گئے۔ عراق میں ہمارا پہلا پڑاوٗ چھوٹے سے قصبہ میں تھا ۔ جہاں دریائے فرات کھائیوں اور گھاٹیوں میں سے ہوتا ہوا جنوب مشرقی شام سے عراق میں ابوکمال کے مقام پر داخل ہوتا ہے۔ وہ ایک طرح کا چھوٹا سا ٹرانزٹ کیمپ تھا ۔ جس میں ایک بار پھر ڈبل ڈیکر چارپائی کی بالائی منزل پر قیام کرنا پڑا۔ تقریباً پانچ ہفتے ڈولتے سنگھاسن پر جاگنے کے بعد ، دیگر آٹھ اجنبیوں سمیت ٹرانزٹ کیمپ سے ہمیں دو سو کیلومیٹردورلق ودق صحرا میں ایک اور کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ جسے دیکھ کرہمیں پچھلا کیمپ اور اپنے پچھلے بے طرح یا د آئے۔ وہاں غنیمت یہ تھی کہ ڈبل ڈیکر کُجا سنگل ڈیکر چارپائی بھی نہیں تھی۔ ساڑھے تین فٹ چوڑے اور بیالیس فٹ طویل کمرے میں میٹریس نام کی ایک شے بطور بستر دیدہ و دل فرشِ راہ کئے پڑی تھی۔ وہ سالم رہائش گاہ بلا شرکتِ غیرے ناصرف ہمارے تصرّف میں دے دی گئی بلکہ دروازے پر ہمارا نام بھی اسٹیپلز کے ذریعہ چسپاں کر دیا گیا تھا۔۔۔۔ ’’محمد خان خبیر الباکستانی‘‘۔

وہ رات تو ہم نے جیسے تیسے گذاری، دوسرے روز سب سے پہلے کسی ہم زباں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ رنگ اور شکل و شبہات کی بنیاد پر جس سے بھی ڈاکخانہ ملانا کیا،وہ کندھے اُچکا کر رہ گیا۔ خدا خدا کر کے ایک باقاعدہ بھلا مانس ملا۔ وہ کلائی سے پکڑ کر ہمیں ہمارے کمرے کے سامنے چھوڑ گیا۔ اور متنبّہ کر گیا کہ
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است وہمیں است

ہم اس فردوس سے سمجھوتہ تو نہ کر سکے لیکن دیکھا دیکھی شام کی چائے پینے کے لئے ’’بندرہ‘‘(مَیس) میں چلے گئے۔ معلوم ہوا شام کی چائے کا وقت چار سے ساڑھے چاربجے تک ہوتا ہے۔ اور مقرّرہ وقت گذرے پورے دس منٹ ہو چکے ہیں ۔ اور اب جوسرِ شام ہنگامہ برپا ہے، وہ رات کے کھانے کا ہلّہ گُلّہ ہے۔ طعام گاہ کی تین بیرونی دیواروں کوروٹیوں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا۔ آرائش و زیبائش کا ایسا انداز ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ دیکھ دیکھ کرحیران ہوتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ڈائننگ ہال سے بے طرح دیگچے کھڑکنے کی آوازیں آنے لگیں تو متعدد ’’ارباب‘‘ہال سے باہر لپکے اور لڑیوں سے روٹیاں توڑ توڑ کر کندوروں کے دامنوں سے اُنہیں جھاڑنے لگے۔ جب گرد و غبار ٹھیک سے جھڑ گیا تو اُن تنوری روٹیوں کو ڈائننگ ٹیبل پربچھا کر موگریوں سے توڑنے لگے۔ جہاں بیک وقت اتنی موگریاں برس اوردیگچے کھڑک رہے ہوں ، اُس مقام عبرت کو طعام گاہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ لیکن تجسّس تو تھا۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کھانا کھانے سے پہلےتنوری روٹی کوکوُٹ کر چورا کرنے کی اس رسم کا محل کیا ہے؟ ۔ معلوم ہوا کہ روٹیاں کم و بیش ایک ہفتہ پیشتر پکا کر، مزید پکنے کے لئے دھوپ اور آندھی بارش میں سوکھنے کے لئے لٹکائی جاتی ہیں ۔ جب وہ پتھّر کی طرح سخت ہو جاتی ہیں تو انہیں جھاڑ پھونک کر موگریوں سے توڑا جاتا ہے ۔ اس کے بعد انتہائی تُرش سالونے کی پرات میں ڈبویا جاتا ہے ۔ جب ملغوبہ سا بن جاتا ہے تو اسے تازہ گھاس پھوس ، کچّے پیاز،تھوم ، شلغم ،لیموں اورزیتون کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اُس دن پہلی بار ہم پر کھُلا کہ طعام گاہ کو کھانے کی میزوں کی بجائے ورکشاپ ٹیبلزسے کیوں فرنش کیا جاتا ہے؟۔

کھانے کے ورکشاپ ٹیبل پر ’’گواچی گاں ‘‘ کی طرح ہم ادھراُدھر دیکھ رہے تھے کہ اُوپر سے پانچ ککے (سکھ مت کے پانچ امتیازی نشان ،جن کے نام کا پہلا حرف ’کاف‘ ہے۔۔۔۔ کیس، کرپان ، کچھّا، کنگا، اور کڑا) والا ایک بندہ ہمارے سامنے آن بیٹھا۔
’’شلونِک اوئے۔۔۔۔‘‘؟ کھانے کی ٹرے رکھتے ہوئے اُس نے ’’خالص ‘‘عربی میں کچھ کہا۔ ہم جواباً کھِسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔ اُس کی دیکھا دیکھی ہم نے چاول کی پلیٹ میں ایک چمچہ سالونا ڈال کر چکھا تو چمچہ ہمارے ہاتھ سے گرگیا۔۔۔ ہمارے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ ’’ایدھاں نئیں ، پہلاں ایدھاں ایس دا ست ماری دا۔۔۔۔‘‘اُس نے بیساختہ کہا اورپھر گھاس پھوس سے ترش سالن کا ست مارکردکھایا۔ ہم نے سالن کی بجائے کچّے ’’گونگلوُ‘‘( شلغم؟) کے ساتھ روکھے چاول کھاکر ربّ کا شکر اور اُس کے بندے کا شکریہ ادا کیا۔ اور اُٹھنے لگے تو اُس نے ہماری آستین پکڑ لی۔

’’ایدھاں نئیں۔۔۔۔‘‘ وہ بولا۔ اُتارے کے طور پر گاجر، مٹر، لہسن اور لیموں کے شوربے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے وہ بولا’’ اِن کا گاہوہ بڑا سوادش ہوتا ہے،جہاں جہاں سے اُترتا ہے ، وہاں وہاں لو لگاتا جاتا ہے‘‘۔ ہم اُس کی راہنمائی میں لو لگوانے چل پڑے۔ ایک سِپّ بمشکل لیا ہو گا کہ نوک ِ زبان سے دُوربلکہ ’’تہوُر‘‘ تک لولگتی چلی گئی۔ اُس نے کھانے کے بعد ہمیں کیمپ کی سیر کرانے کی نوید سنائی۔۔۔۔ ’’آدھے گھنٹے کے بعد وہ دونوں بہن کے ٹکّے بھی آ جائیں گے، پھر واکنے شاکنے کے لئے چلیں گے۔ تب تک میں تھوڑا سا ریلیکس ہوکر آتا ہوں ۔ گھابرنے کی لوڑ کائی نئیں ، آپاں اینج گئے، اینج آئے‘‘ وہ فی الواقعی جیسا گیا ، اُس سے کہیں زیادہ ریلیکس ہو کر آیا۔ ایسا کھُلا ڈُلا سردار ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔ وہ ہمیں اپنے یاروں کے بارے میں بتانے لگا تھا کہ معاً کسی خیال سے چُپ ہو گیا۔۔۔۔۔ ’’مجھے پیٹھ پیچھے کسی کی بُرائی کرنا اچھا نہیں لگتا۔ آنے دو،جوکہوں گا آمنے سامنے ، کھُل ڈُل کر کہوں گا‘‘۔ وہ آئے۔ ایک ملباری تھا، دوسرا بنگالی۔ دونوں ایک آدھ لفظ عربی اور ایک آدھ انگریزی کا جوڑ کر گذارا کر رہے تھے لیکن با محاورہ پنجابی گالیوں کا تبادلہ انتہائی روانی کے ساتھ کر سکتے تھے۔

’’ یہ عکاشات ہے۔۔۔۔۔ فاسفیٹ سے بھرا میدان ۔ وہ اسکائی لائن سے اوپر ڈریگ لین کا بوُم دیکھ رہے ہو؟ کبھی اس مشین پر جا کر دیکھ لینا۔۔۔۔ تا حدِ نگاہ بے آب و گیاہ صحرا اور صحرا میں پیاس کا ٹھاٹیں مارتا جوسمندر دکھائی دیتا ہے، وہ سب فاسفیٹ ہے۔ وہ معدن جس سے کھاد سمیت نجانے کتنی ہی مفید اور قیمتی چیزیں حاصل کی جاتی ہیں ۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ خطّہ تیل سے کہیں زیادہ قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے ۔ لیکن یاروں کے لئے اس قسم کے بے کاروں کا یہاں ہونا ہی بلّے بلّے ہے…..‘‘۔ اُس کا اشارہ جن بے کاروں کی طرف تھا، وہ صرف اشارے پر مسکرا رہے تھے۔ ’’ان کوماں بولی کے سوا کوئی بولی نہیں آتی ۔ ماں کے ٹکوں کو بڑی مشکل سے دو چار دیسی گالیاں سکھائی ہیں ۔ اُن کا تلفّظ بھی ٹھیک نہیں کرتے۔‘‘معاً اُسے کچھ یاد آیا توروئے سخن اِدھر موڑا۔۔۔۔۔’’ تم نقلی خان ہو یا پشاوری پٹھان۔۔۔؟‘‘۔ کہا،ہم اصلی اور جماندرو خان ہیں ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’تو پھر پشاوری پٹھان کی سنو۔۔۔۔ پٹھان کا جوکر اُٹھ گیا، لاٹری نکلی اور مفت میں کنیڈا جا پہنچا۔ ایک بڑے سیٹھ کے ہاں چوکیداری مل گئی۔ یہ بڑا طرّہ،گلے میں پٹہ، پٹے میں سینکڑوں کارتوس۔ کلّے میں نسوار،کڑک واسکوٹ،اس سے زیادہ کڑک شلوار۔ ایک ڈکیتی ناکام کرنے پر سیٹھ نے پٹھان کا موہنڈا اُلٹ کر ڈالروں سے مونہو منہ بھر دیا۔ پٹھان کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایک ماہ کی چھُٹی لی اور پشاور پہنچ گیا۔ دیکھا تو اُس کے پڑوسی نے نیا دیوان کھڑا کر رکھا تھا۔ پٹھان کی غیرت جاگ گئی، اُس نے نئی چوکی اور بنگلے کے علاوہ تین تالاب بھی بنانے کا ٹھیکہ دے دیا۔ ’’کام دو ہفتوں میں مکمل ہونا چاہیئے، پیسہ جتنا لگے پرواہ نہیں ‘‘۔ ایک کمپنی نے دن رات کر کے چوکی اور بنگلے کے علاوہ تین عدد تالاب بھی بنا ڈالے۔ افتتاح کے موقع پر اخبار نویس نے پٹھان سے پوچھا ، باقی تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ تین تالاب کس لئے بنوائے گئے ہیں۔۔۔۔؟
’’پہلا ٹھنڈے پانی کا، دوسرا گرم پانی کا۔ گرمی میں جی کیا ٹھنڈے میں نہا لئے،سردی میں من کیا ، گرم میں نہا لئے۔۔۔۔‘‘
اور تیسرا تالاب کس لئے۔۔۔؟اس میں تو پانی ہے ہی نہیں۔ صحافی نے پوچھا
’’کبھی بندے کا نہ نہانے کو بھی جی کر سکتا ہے کہ نہیں؟‘‘پٹھان نے جواب دیا۔
یہ تو سرداروں کا لطیفہ ہے۔۔۔؟ ہم نے کہا
’’پٹھانوں میں بھی تو سردار ہوتے ہیں۔۔۔؟ تم پٹھان ہو یا سردار؟؟‘‘۔ سردار نے پوچھا۔ ہم پٹھان ہیں یا سردار۔۔۔۔؟ آج تک ہم اسی مخمصے میں مبتلا ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply