روح سے ہوتی ہوئی مرثیہ خوانی میری/اقتدار جاوید

عطاالحق قاسمی کی کلیات منصہ ِشہود پر آیا تو اس کی پہلی کاپی حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایک تو شعری کلیات کا تحفہ اور ثانیاً سب سے پہلے وصولی یعنی ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہو گیا اور ضرب المثل کی حقانیت کا مشاہدہ بھی ہو گیا۔ایک فائدے میں دو فائدے اور ایک کام کے ساتھ دوسرا کام از خود سرانجام پا گیا۔
یہ کلیات دو کتب پر مشتمل ہے پہلی کتاب ملاقاتیں ادھوری ہیں عین جوانی کا کلام ہے اور ملاقاتوں کے بعد میں تازہ کلام۔ گویا بقول فیض
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
پہلے مجموعے میں شاعر نے اپنا سوال نامہ ترتیب دیا تھا اور دوسری ملاقاتوں کے بعد میں اس نے ان سوالوں کا جواب ڈھونڈا ہے۔اس جواب کو آپ موجودہ معاشرتی اور نیم سیاسی قبائلی معاشرت کا تجزیہ کر کے خود بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔
لرزاں ہے میری آنکھ میں کس آئینے کا عکس
رس گھولتی ہے کون صدا میرے کان میں
فی الاصل ملاقاتوں کے بعد خارج اور برون کی شاعری ہے جہاں آپ کے ذاتی غم نہیں قومی معاملات میٹر کرتے ہیں۔یہاں نرماہٹیں نہیں کڑی دھوپ کا سامنا ہے شام کے دھندلکے نہیں دل چیرتی شب کے سناٹے ہیں۔شاعر اس بنتے بگڑتے جہان سے سرسری نہیں ان مسائل سے براہ ِ راست مکالمہ اور مجادلہ کرتا ہے۔
خارجیت شاعری میں شاعر کو معاشرے سے جوڑتی ہے اور داخلیت اسے ذات سے آشنائی عطا کرتی ہے۔یہ دو تو متخالف مدار ہیں شاعر کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہر حال میں کرنا پڑتا ہے۔جو شاعر براہ ِراست زندگی سے مجادلہ کرتا ہے اس کا انتخاب یہی خارجیت ہے کہ اس تعلق سے محروم طبقوں سے تعلق خاطر بنتا چلے جاتا ہے۔اسی سے مساوات کا سوال حرز ِجان بنتا ہے اور شاعر اپنا سوال نامہ ترتیب دیتا ہے اور جواب نہیں پاتا۔یوں بھی سارے سوالوں کے جوابات شاید ہوتے بھی نہیں ہیں۔انسان کی مساوات کا خواب ایسا ہے جو دنیا کے مسائل کا حل تجویز کرتا ہے یہی سوال اس کلیات میں مختلف زاویوں میں ظہور کرتا ہے
کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے
خداوندا یہ کیسا سلسلہ ہے
شاعر کا شعری اور ادبی سفر پچاس سالوں پر محیط ہے۔ اس طویل عرصے میں ہمیں جس ترقی ِمعکوس کا سامنا ہے وہ ہم سب کا کیا دھرا ہے۔جو معاشرہ یا ملک ہمیں ہمارے بزرگ دے گئے تھے ہم نے اس سے سوتیلے بھائی کا ہی سلوک کیا۔شاعر اس صورت ِاحوال پر ماتم کناں ہے۔
شاعر کے پچاس سالہ ادبی سفر پر ایک نظر ڈالنا بھی مناسب ہے کہ ان کا ایک مجموعی تاثر سامنے لانے میں آسانی ہو۔شاعر کا شمار اردو ادب کے معماران میں ہوتا ہے اس موضوع پر مرتب دی گئی کتاب میں ان کے کام کی تفصیل بالتفصیل درج ہے۔ان کی شہرت کالم نویس ہونے کے ساتھ ایک کامیاب سفر نامہ نگار اور خاکہ نویس کی بھی ہے۔عوام سے ان کا اک طرح کا براہ راست ان کے ٹیلی ویژن ڈراموں سے ہوا جس میں انہوں نے زیر دست طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مسائل کو اجاگر کیا۔یہاں آپ کو ماجھے گامے اور ان کا ہنسی خوشی قناعت سے جینے کا ڈھنگ نظر آتا ہے۔
اس وقت وہ سینئر ترین ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے کھلے ڈلے آدمی ہیں تصنع نام کو نہیں اور خوش لباس ہیں۔ میں انہیں ادبی دنیا کا سب سے زیادہ خوش لباس کہتا ہوں۔ان سا خوش لباس ادبی دنیا میں کوئی نہیں بلکہ شاعر تو بوہیمین بن کر بال بھی بڑھا لیتے ہیں اور استری شدہ کپڑوں کا تکلف بھی گوارا نہیں کرتے۔شگفتگی ان کی تحریر اور شخصیت کا لازمی حصہ ہے ان کے کالم اسی شگفتگی سے بھرے ہوتے ہیں۔
اسی شگفتگی کی بدولت وہ افسانے کی طرف نہیں گئے حالانکہ ممتاز مفتی( یکے از از خود ڈیکلیرڈ بابے) نے انہیں کہا تھا کاکا افسانے لکھیا کر۔ وہ قاسمی صاحب کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے راہ سے کراہ کرنا چاہ رہے تھے۔انہوں نے کہا جہاں بیدی، منٹو اور بلونت سنگھ جیسے استادان ِفن کا راج ہو وہاں مجھے افسانے کے بیک بینچر ہونے سے اپنی کالم نگاری کی بادشاہی زیادہ عزیز ہے۔ ان کی کالم نگاری کی دھوم ہے۔حامد میر نے بجا طور پر انہیں سب سے بڑا کالم نگار مانا ہے۔
یوں تو باقاعدہ شاعر کے شعری مجموعوں کی تعدار ڈبل دجٹ میں ہونی چاہیے مگر قاسمی کے کل ادبی یافت پر نظر ڈالی جائے تو اس کمی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ ان کی کل کتب کی تعداد اٹھارہ سے زائد ہے۔شعر کی اصل شناخت اول آخر اس کی تاثیر ہی ہے اگر تاثیر نہ ہو تو اس میں خواہ جتنے بھی معنی پوشیدہ ہوں وہ انیس ناگی کا کلام بن جاتا ہے۔ہم نے اس کلیات سے کچھ اشعار کا انتخاب کیا ہے۔
شکر ہم نے ادا کیا صاحب
جو بھی ملنا تھا مل گیا صاحب
عشق کر کے سیکھا یے ہم نے یہ عطا صاحب
ہیلو ہیلو رکھنی ہے عاشقی نہیں کرنی
کوئی کیسے مجھے پڑھے سمجھے
میں کسی اور ہی زبان میں ہوں
زندگی کتنی خوبصورت تھی
کتنی لگنے لگی ہے اب بکواس
روح سے ہوتی ہوئی مرثیہ خوانی میری
میری پلکوں پہ بھی آ پہنچی کہانی میری
کیسے اسے نکالوں میں زندان ِذات سے
زندان ِذات ہی میں مقفل تو میں بھی ہوں
کناروں سے نکل سکتی ہیں کب یہ مضطرب موجیں
انہیں ساحل سے ٹکرانا ہے اور پھر لوٹ جانا ہے
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام ِزر کو اب برباد ہونا چاہیے
کتنے چہرے اک اک کر کے جھوٹے نکلے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جیسے نکلے ہیں
اک دوسرے کے درپئے آزار ہیں سبھی
اور پوچھتے ہیں درپئے آزار کون ہے
عزت مآب پردہ نشینوں کے باب میں
ہم کیا کہیں کہ ہم تو گنہ گار ہیں بہت
اور نعت کا شعر
تو نے کچھ بھی تو دیکھنے نہ دیا
اے مری چشم ِتر مدینے میں
عطا الحق قاسمی کی سب سے زیادہ دوستی امجد اسلام امجد سے تھی بلکہ وہ دونوں لنگوٹیے یار مشہور ہیں۔اتنے اشعار امجد کے ساری کتابوں سے ڈھونڈنے نکلیں تو آپ ناکام ہی لوٹتے ہیں وہاں ایک مہمل رومانویت ہے ۔عطاالحق قاسمی کا شعری سفر اپنے لنگوٹیے یار سے کہیں زیادہ پاور فل اور دیر پا ہے۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply