عمران خان کی سیاست/ڈاکٹر ابرار ماجد

اس کا انتخاب کسی اور نے نہیں بلکہ عمران خان نے خود کیا ہے جس کا آغاز دو ہزار چودہ میں ہوا تھا اور جو کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ یہاں تک کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی وہ اپوزیشن کے مارچز کا مقابلہ کرنے کے لئے چوک چوراہوں کے نمائشی پروگرام جاری کئے رکھے ہیں۔ اور ان کا بیانیہ تو پچھلے چھبیس سال سے اور خاص کر پچھلے دس سال سے تو بلکل ہو بہو ہے۔ جس میں شور شرابے کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔

اب موجودہ صورتحال میں بھی قومی اسمبلی میں ایک دو ووٹوں کے فرق کے ساتھ بھاری تعداد ہونے کے باوجود بھی وہ اسمبلی کا رخ کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ استعفے دے چکے ہیں اور جن کے استعفے سپیکر نے قبول کئے اور الیکشن کمیشن نے ضمنی الیکشن کا شیڈیول دیا ہے ان سیٹوں پر ان کے ممبران عدالت عالیہ اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور ان کی استدعا ہے کہ ان کے استعفوں کو کالعدم قرار دے کر ان کی رکنیت کو بحال کیاجائے۔ جس پر چیف جسٹس صاحب نے مزید بحث سے پہلے یہ شرط رکھ دی ہے کہ وہ اپنی نیت کو واضح کریں کہ آیا وہ پارٹی کے ڈسپلن پر چلتے ہوئے اسمبلی سے غیر حاضر رہنا چاہتے ہیں جیسا کہ پارٹی کا موقف ہے کہ وہ استعفے دے چکے ہیں۔ یا پھر وہ اپنی رکنیت بحالی کے بعد اسمبلی میں حاضری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

اسطرح وہ ممبران بری طرح سے پھنس گئے ہیں اگر وہ جماعت کی پالیسی کے خلاف آگے بڑھ کر اسمبلی پہنچتے ہیں تو جماعت کی طرف سے تادیبی کاروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں اور اگر اسمبلی نہ جانے کی بات کرتے ہیں تو پھر ان کی رکنیت کی بحالی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اب دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ اگلے چند دنوں میں پتا چل جائے گا۔ اگر ساری جماعت اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر نئے الیکشن کا مطالبہ دھڑام سے نیچے آگرتا ہے۔ اور پھر “کوئی شرم ہوئی ہے کوئی حیا ہوتی ہے” جیسے طعنوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

عمران خان قومی اسمبلی سے باہر رہ کر نہ صرف پاکستان کے بارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کو کھو کھاتے ڈالے ہوئے ہیں بلکہ اپنے بیانیے کو بھی بری طرح سے رسوا کئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف مراعات بھی لے رہے ہیں۔ اور جب ضمنی الیکشن کی تاریخ دی جاتی ہے تو پھر ان اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر الیکشن میں حصہ لینے کا بھی اعلان کرتے ہیں اور پھر سے چناؤ کے بعد اس اسمبلی کا حصہ بھی بننے کے لئے تیار ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوبارہ رکنیت کے حاصل کرنے سے صورتحال بدل جائے گی۔ اس بات کو سمجھنے سے ہر کوئی قاصر ہے۔

سب سے بڑی حیران کن بات ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت بھی پاکستان کے تین صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر میں ان کی حکومت ہے وہاں کی اسمبلیاں ان کو پیاری ہیں وہاں سے استعفے نہیں دے رہے اور محض مرکز کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے وہ ہر وہ حربہ استعمال کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اور ہر وہ طریقہ اپنانے کے لئے بے چین ہیں جس سے حکومت جاتی رہے۔ اس کے لئے وہ چوکیدار کو بھی للکار رہے ہیں اور عدلیہ کو بھی جوش دلا رہے ہیں کہ خود ساختہ گھر کے مالک کی حیثیت سے وہ گھر کا قبضہ لینے کے لئے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔

کئی من گھڑت بیانیوں کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ خیر یہ ان کی اپنی حکمت عملی ہے اور اس میں وہ جمہوری حق کو سبو تاز کر رہے ہیں اور اس میں ان کو جمہوریت کے اصولوں اور آئینی پاسداری کے تحت کہیں تو بریک لگانی ہوگی اور یہ بریک مذاکرات کے علاوہ نہیں لگ سکتی کیونکہ اب ان کی اس موجودہ سیاسی صورتحال سے تو یہ تاثر مل رہا ہے کہ نئے الیکشن بھی موجودہ سیاسی عدم استحکام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا کوئی حل پیش کرتے نظر نہیں آرہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ الیکشن کمیشن کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اور اس پر بھی عدم اعتماد کئے ہوئے ہیں۔ اور اگر کہیں سے ان کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو جج کو بھی للکار دیتے ہیں تو ایسے میں ان کے اداروں پر عدم اعتماد کی فضاء نے ان پر اداروں کا اعتماد بھی اٹھا دیا ہے جس کے اثرات بہرحال نہ ان کے حق میں ہیں اور نہ ہی پاکستان کی بہتری کے حق میں ہیں۔

اب ان کو کون سمجھائے کہ جس رستے کا انہوں نے خود چناؤ کیا ہے اس کی رسائی چوک چوراہوں سے آگے کہیں نہیں جاتی اور نہ ہی اس کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا۔ دو ہزار چودہ میں جب اداروں کی کھلم کھلا حمائت بھی حاصل تھی تو اس وقت بھی یہی سیاسی جماعتیں جو اب حکومت میں ہیں کم و بیش وفاقی حکومت میں تھیں اور کئی ماہ کے دھرنے بھی کچھ حاصل نہ کرسکے تھے۔ اب تو نہ وہ اداروں کی مدد موجود ہے اور نہ ہی وہ حالات ہیں کہ ان کو آزادانہ طور پر ڈی چوک یا پارلیمنٹ پہنچنے دیا جائے گا۔ اور فرض کر لیں اگر وہ اسمبلی کے سامنے پہنچ بھی جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا۔ کچھ بھی نہیں۔

نو اپریل کی رات کو چند گاڑیاں اور جیل کی بکتر بند گاڑی دیکھ کر ان سمیت ان کے سب وزراء اور سپیکرز کے اعصاب شل ہوگئے تھے اور وہ اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے نکلتے ہوئے تھے تو اب تو حکومت ہی ان کے پاس ہے اور آئینی اختیارات بھی ان کے پاس۔ تو صوبوں کی حمائت اس قدر ہی مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں کہ وہ ان کو آزادانہ طور پر لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے میں حمائت یا کمک مہیا کریں۔ مگر ان کے پاس کوئی آئینی اختیار تو نہیں کہ وہ وفاقی حکومت پر اثر انداز ہوسکیں جب کہ دوسری طرف وفاقی حکومت کے پاس آئینی اختیارات موجود ہیں جن کے استعمال سے وہ صوبائی حکومتوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ وفاقی حکومت اپنے گورنرز کے زریعے سے کافی حد تک اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ مرکز کے ساتھ چپقلش کی صورتحال میں وہ فنانشل کٹ لگا سکتے ہیں یا فنانشل بریک کر سکتے ہیں۔

یہ جو راستہ عمران خان نے چنا ہے اس میں اعصاب کو تھکانے کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اور نہ ہی ان کے بیانیے اور حکمت عملی میں آج وہ جان ہے جس پر عمل کرکے وہ حکومت کو مجبور کر سکیں۔ حکومت شائد یہی چاہتی ہے کہ وہ ان کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیں۔ اور اس دوران ان کو کچھ کارکردگی دکھاکر عوام کی مشکلات کم کرکے ہمدردی سمیٹنے کا موقعہ مل جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی جارہے ہیں۔ پٹرول سستا کردیا ہے، ڈالر نیچے آرہا ہے، سٹاک مارکیٹ میں بہتری آرہی ہے اور عمران خان کے راز فاش ہورہے ہیں جس سے صورتحال یکسر بدلتی جارہی ہے اور اب عمران خان کو حلف لینے پڑ رہے ہیں۔

عمران خان کی مقبولیت ان کی ذات سے وابسطہ ہے اور یہی ان کی جماعت کا کل اثاثہ ہے اور جب ان کی اپنی ذات پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوجائیں گی اور وہ صادق و امین کا القاب بحال رکھنا مشکل ہوجائے گا اور ان کی کردار کشی سے ان کی مقبولیت کو جھٹکا لگے گا تو سب کچھ دھڑام سے نیچے آ پڑنے کی خدشات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ حکومت ان کے دور حکومت میں کئی گئی بد عنوانیوں کو بھی اندر ہی اندر سے آئین و قانون کے سپرد کرتے جارہے ہیں جس سے اب چوک چوراہوں کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں بھی چکر لگانے ہونگے جو سلسلہ اب شروع ہوچکا ہے اور مزید نوٹسز نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔

اس مقبولیت میں مہنگائی، بیروزگاری اور غریبت کا بھی بہت کردار ہے اور کچھ لوگ صرف دوسری سیاسی جماعتوں سے مایوس ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہیں اور جب پی ڈی ایم نے کارکردگی دکھا کر اپنی ساکھ کو بہتر بنا لینا ہے تو پھر بہت ساری ہمدردیاں تو ویسے ہی ختم ہوجائیں گی اور پھر آہستہ آہستہ ان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہوجائیں گے جو ابھی ان کے سازشی بیانیوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں اور جب ان سازشی بیانیوں کو کاونٹر کے زریعے سے معدوم کر دیا جائے گا تو پھر کارکردگی بمقابلہ کارکردگی سامنے آئے گا تو پی ڈی ایم کا پلڑا ان سے بھاری بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگلے چند ماہ میں ان کی حمائت کا ماحول بھی بدلنے والا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ پرانے ان کے حمائتی جو اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے کئی کئی اپنی آئینی مدت پوری کر جائیں گے تو کئی مفاد کم ہوتا دیکھ کر نظریں اور سوچیں بدل لیں گے اور اپنا محفوظ مستقبل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگ جائیں گے۔ اور عمران خاں اگر اب بھی نہ سنبھلے تو پھر چوک چواراہے ہی ان کا نصیب بن کر رہ جائیں گے اور مداریوں کی طرح تماشے دکھانے کے علاوہ سب کچھ ہاتھ سے چلا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply