وطن کی ہوائیں تمہیں سلام کہتی ہیں!

“اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور سو آدمی ہزار کفار پر غالب آئیں گے” (الاَنفال)

دنیا میں بہت سی ریاستیں وجود میں آتی ہیں اور بہت سی ریاستیں اپنا وجود کھو کر کسی بڑی ریاست میں ضم ہو جاتی ہیں ،ہمیشہ بڑی ریاستوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح چھوٹی ریاست کو مغلوب کر کے اپنے ساتھ ضم کر لیا جائے جس میں کبھی انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے ، تو کبھی چھوٹی ریاستیں مفاہمت کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ معاہدوں کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتی ہیں (یہ ریاستیں بھی اپنی خود مختاری تقریباً کھو دیتی ہیں اور زیادہ عرصہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ پاتیں )   اور چند ایک اولو العزم ریاستیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ایک مضبوط ریاست سے مقابلے  کیلئے میدانِ کارزار میں اتر جاتی ہیں (اور ایسی ہی ریاستیں دنیا میں گردن اٹھا کر  فخر سے جیتی بھی ہیں اور جینے کا حق بھی رکھتی ہیں)۔

جس دن سے مملکت خداداد ، ریاست اسلام ، وطن عزیز پاکستان وجود میں آیا اس دن سے یہ دشمن کو ایک آنکھ بھی نہ بھایا تھا ، بلکہ یوں کہئے کہ دشمن کے حلق میں کانٹا بن گیا تھا جس کو وہ اپنے لئے خطرہ سمجھتا تھا اور جلد از اپنی راہ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا
دشمن چونکہ بڑا چاک و چوبند ٬ چالاک اور مکار تھا اسی لئے اس نے آزادی کے دن سے ہی چوٹیں لگانا اور شگاف ڈالنا شروع کر دئے تھے جس کے واضح دلائل ریڈ کلف (سرحد بندی کیلئے بھیجا جانے والا انگریز وزیر) کی غیر منصفانہ حد بندی ٬ پاکستان کو اسلحہ نہ دینا اور اہم امور کے دستاویز کو جلا دینا یا غائب کر دینا کے طور پر موجود ہیں۔۔۔۔اس کے بعد چھوٹے بڑے محاذوں پر پڑوسی ملک بھارت کے حملے اور قبضے کے نا پاک عزائم ٬ پانی کی بندش کر کے معاشی حملہ اور نا زیبا فلموں اور فحش مواد کے ذریعے معاشرتی استحکام کو برباد کرنا بھی اسی کڑی کا ایک سلسلہ بنے رہے۔
یہ سب صرف اس لئے کیا جا رہا تھا کیونکہ بھارت ایک بڑی ریاست ہے اور وہ پاکستان جیسی چھوٹی ریاست کو ترقی کرتا کبھی بھی نہیں دیکھ سکتا ٬ اسی لئے بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان کو چھوٹی ریاست ہونے کے ناطے ابھی تک بھارت میں ضم ہو جانا چاہئے لیکن وہ بھول رہا تھا اس چھوٹی ریاست کے پیچھے بہت بڑا اور اعلی نظریہ ہے جو اس کی بنیادوں میں موجود ہے اور اس کے سامنے ایک اولو العزم ریاست ہے جس میں بسنے والے اپنی آزادی اور حفاظت کی خاطر جان تو قربان کر سکتے ہیں لیکن اس ملک کی طرف اٹھنے والی ہر بری آنکھ کو نکالنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔
لیکن بھارت پتہ نہیں کس نشے میں دھت تھا یا کس بے خودی کی لپیٹ میں آ گیا تھا کہ آخر ایک دن ایسا آیا جب۔۔۔
مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں آئے کوئی 18 برس ہی گزرے تھے کہ پڑوسی ملک کے نا پاک عزائم نے ایک نئی کروٹ لی اور اس نے اپنی فوج کو حملے کی تیاری کا حکم نامہ جاری کر دیا… تیاری کا حکم ملا اور کچھ ہی عرصے میں مملکت خداداد پر حملہ ہو گیا۔
ستمبر کی سرد شام ڈھل چکی تھی اور تمام ہی لوگ بستروں میں دبے نیند کی آغوش میں بے خبر سو رہے تھے لیکن سرحد کے محافظ اپنی نیند قربان کرکے جان ہتھیلیوں پر رکھے کسی بھی خطرے سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار تھے اور ڈیوٹی انجام دے رہے تھے ٬ سرحد پر ہونے والی نقل و حرکت اور قصور ٬ راولپنڈی ٬ وغیرہ میں ہونے والے دشمن کے حملوں نے انہیں پہلے سے زیادہ چوکنا اور ہوشیار کر دیا تھا۔
کچھ ہی دیر میں انہیں “emergency Syrian” (ایمرجنسی سائرن) کے ذریعے دشمن کی نقل و حرکت پر خصوصی نگاہ رکھنے کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی محفوظ مقامات پر مورچے بھی نصب کر دئے گئے.
کچھ ہی دیر بعد ہمارے محافظوں نے دشمن کو “باٹا-پور” (لاہور) کے مقام پر پیش قدمی کرتے ہوئے دیکھا…یہ دیکھنا تھا کہ جوانوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا ، پر سکون فضاؤں میں جوتوں کی ٹاپوں کی آواز گونجنے لگی ، سپاہیوں نے فورا اپنے میگزین بھر لئے ٬ رائفلیں لوڈ (Load) کر لیں اور سینہ سپر ہو کر کسی بھی خطرناک کاروائی کے مقابلے کیلئے تیار ہو گئے.
تھوڑی ہی دیر میں دشمن کی پیادہ فوج نے جرأت ناپاک کی اور حملہ کردیا “میجر سرفراز” نے “order of the day” صادر فرماتے ہوئے کہا: “پاکستان کے نوجوانو! آخری سپاہی تک ٬ آخری گولی تک لڑو ٬ سنگینوں سے ٬ خالی ہاتھوں سے ٬ ناخنوں سے لڑو ٬ اپنے وطن کا ایک انچ بھی دشمن کے قبضے میں نہ جانے دو” یہ سننا تھا کہ سپاہیوں کے دل میں جو شوقِ دیدِ شہادت ٬ ذوق ملاقات رب اور جذبہِ جان نثاری تھا وہ جاگ اٹھا ٬ انہوں نے سر پر کفن باندھے ٬ اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھیں اور میدانِ جنگ میں جا اترے۔
رات کے اندھیرے میں اچانک حملے کے با وجود یہ مٹھی بھر فوج سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی اور باٹا پور بھی میدانِ بدر کا منظر نامہ پیش کرنے لگا حالت یہ تھی کہ ہماری طرف سو (100) توپیں تھیں اور دوسری جانب تین سو (300) توپوں کا ہولناک بیڑا تھا ٬ اِدھر تین (3) بریگیڈیئر تھے تو اُدھر نو (9) بریگیڈیئرز کی مکاری تھی ٬ یہاں صرف ایک (1) جنرل تھا اور وہاں تین (3) جنرلوں کے نفرت آلود دماغ تھے اور سب سے بڑھ کر اپنے پانچ ہزار (5000) نہتے و جانباز سپاہی پینتیس ہزار (35000) کیل و کانٹے سے لیس فوج کا سامنا کر رہے تھے ؛ لیکن اس کے باوجود یہ تھوڑی فوج ایک عظیم جذبے سے سرشار “شہادت ہے مطلوب و مقصود مؤمن ٬ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی” کو سامنے رکھتے ہوئے بے لوث لڑ رہی تھی ٬ جس کی نگاہیں صرف آسمان والے پر تھیں ٬ جسکی منزل جنت تھی اور جس کو معلوم تھا کہ زندہ بچ گئے تو غازی اور اگر لڑتے لڑتے دنیا سے کوچ کیا تو شہادت جیسا مرتبہ ملنے والا ہے۔
پھر دنیا نے وہ سب دیکھا جو انسانی سوچ سے کوسوں دور تھا ٬ لیکن ان کا عظیم جذبہ ان سے وہ سب کروا گیا جسے دیکھ کر دنیا حیران وہ گئی۔
پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کوئی میدانِ کارساز میں نعرہ تکبیر لگا کر کود پڑتا ہے ٬ تو کوئی کلمہ طیبہ کے سائے تلے جامِ شہادت نوش کرتا ہے ٬ کہیں کوئی “مومن ہے تو لڑتا بے تیغ سپاہی” کا نظیر تھا ٬ تو کوئی “خون دل دے کر گلستان کی حفاظت” کے وعدے کو پورا کر رہا تھا ٬ کوئی ٹانگ کٹ جانے کے با وجود لڑتا تھا ٬ تو کوئی شدید زخم آ جانے کے بعد بھی ہسپتال جانے سے انکاری ہو جاتا تھا ٬ کوئی حالِ دل سے یہ کہتا ہوا کہ “پھونکوں سے یہ چراغ بھجایا نہ جائے گا” حملہ آور ہوتا ٬ تو کوئی زبانِ حال سے پکار اٹھتا کہ “ہم نے گلستان کی حفاظت کی قسم کھائی ہے” کوئی زخموں سے چور آخری سانس تک بازی لڑتا ٬ تو کوئی مسکراتا ہوا داعیِ اّجل کو لبیک کہہ جاتا ٬ انکی سرشاری ٬ جذبہ قربانی اور آگے بڑھنے کا جنون اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ ایک میجر پکار اٹھا: “میں تو اس لئے پریشان ہوں کہ انکو روکوں کیسے” کیونکہ وہ رکتے نہیں تھے ٬ جھکتے نہیں تھے ٬ بلکہ آگے بڑھتے جاتے تھے اور دشمن کو جھکائے چلے جاتے تھے
اِن بے لوث قربانیوں اور بے تحاشہ ثبات و استقامت کے ذریعے بالآخر رب العالمین نے وہ گھڑی بھی دکھائی جب “صبح کی چائے لاہور میں پینے” کا خواب دیکھنے والے منہ کی کھا کر مٹی میں ملیا میٹ ہو گئے اور ساتھ ہی انکے ناپاک عزائم بھی سپرد خاک ہوگئے ٬ اگر باقی بچا اور زندہ رہا تو وہ شہیدوں کا لہو تھا ٬ زخمیوں کی مسکراہٹ تھی ٬ ماں ٬ بیٹیوں کی دعائیں تھیں ٬ مملکت خدادا پاکستان کی بقاء تھی اور ایک عظیم فتح تھی جو ربِ ذوالجلال کی عظیم عطا تھی
اس دن کے بعد جب بھی 6 ستمبر کا دن آتا ہے دل سے ان شہیدوں کیلئے دعا نکلتی ہے ٬ ہاتھ بارگاہ ایزدی میں اٹھ جاتے ہیں اور زبان سے بے اختیار نکل پڑتا ہے
“اے راہِ حق کے شہیدوں!
وفا کی تصویرو!
وطن کی ہوائیں تمہیں سلام کہتی ہیں
سلام کہتی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

بقلمِ حقیر۔۔۔زید محسن

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply