سوچنا منع ہے۔۔۔عزیز خان

جس قوم میں ہاتھ دیکھنے والا اور سڑک پر طوطے سے فال نکالنے والا پروفیسر اور عامل کا بورڈ لگائے بیٹھا ہو۔

جس قوم میں پانی کے ٹیکے لگانے والا اپنی کلینک کے ماتھے پر اسپیشلسٹ کا اشتہاری بورڈ لگائے ہوئے ہو۔

جس قوم میں خون کی بوتلوں میں نارمل سلائن ملا کر حرام خوری کی جاتی ہو ۔

جس مُلک میں لیبارٹریاں غلط نتیجہ دیں

جس قوم کے جاہل اسمبلیوں میں پہنچا دئیے جائیں اور قاتل و مجرم قانون سازی کرتے ہوں۔

جس قوم میں ویگو ، پراوڈ ، جیسی گاڑیوں کو دیکھ کر ووٹ ڈالے جاتے ہوں ۔اور سائکل والے کو دھتکارا جاتا ہو ۔

جس قوم کے وزیر جعلی ڈگریاں لے کر اسمبلیوں میں وزیر تعلیم لگ جاتے ہوں۔

جس قوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری قابلیت کی بجائے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر دینے کا رواج ہو۔

جس قوم کے فراڈئیے، بہروپیے عالم دین کا ٹائٹل سجائے ہوئے ہوں۔

جس قوم کے مُلاں عید، شبرات کے چاند پر ایک دوسرے کی لتریشن کرتے ہوں۔

جس قوم میں جوان بیٹیوں والے غریب بھوکے کے گھر کی دیوار کے ساتھ کروڑوں کی مساجد بنائی جاتی ہوں۔

جس قوم کی فاحشہ دینی مسائل سمجھانے پر لگا دی جاتی ہوں اور نام نہاد عالم آن لائن لوگوں کے ایمان کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوں۔

جس قوم کے دہشت گرد خود کو مجاہد قرار دیتے ہوں۔

جس قوم کے حکمران پیسہ لگا کر اقتدار خریدتے ہوں۔

جس قوم کے منصف انصاف کے ترازو میں دولت کے وزن کے مطابق انصاف کرتے ہوں۔

جہان پولیس خدمت اور مدد کی بجائے رشوت کو ترجیح دے

جس قوم کے چوکیدار چوروں سے زیادہ لوٹتے ہوں اور جس قوم کے تاجر، دکاندار سو فیصد حرام کی کمائی سے حج عمرے کرتے ہوں۔

جس قوم میں بھوک اور افلاس ناچتے ہوں اور حکمران تماشہ دیکھتے ہوں۔

تو پھر یاد رکھیں ایسی قوم کو رونے دھونے اور شکوے شکایتیں کرنے کی بجائے اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ جب ہر کوئی کشتی میں اپنے حصے کا سوراخ کر رہا ہو تو پھر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ “فلاں کا سوراخ میرے سے بڑا تھا اس لئے کشتی ڈوب گئی۔۔!”

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سبھی قصوروار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سوچنا منع ہے۔۔۔عزیز خان

Leave a Reply