گولڈن ایج (1) ۔ بادشاہ کا خواب/وہاراامباکر

اپنے گنبد اور محرابوں سے پہچانے والا بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ روم، ایتھنز اور سکندریہ اپنے عروج پر بھی اس کے قریب نہیں پہنچے تھے۔ دس لاکھ سے زیادہ کی آبادی والے اس شہر میں شاہی خاندان، جنرلوں اور وزیروں کے درجنوں محل تھے۔ متمول لوگوں کے بڑے گھروں میں سنگِ مرمر کے ستون، زینہ جو دریا کی طرف اترتا تھا یا دالان کی طرف۔ پلستر والی دیواروں پر دبیز پردے، سرامک ٹائل والے فرش جن پر سردیوں میں قالین بچھا دئے جاتے اور گرمیوں میں ہتا لئے جاتے۔ فرش پر گاوٗ تکئے۔ نچلی منزل کی ایک دیوار مرکز میں صحن میں کھلتی تھی، جس میں چھوٹا فوارہ نصب ہوا کرتا تھا۔ اس سے نیچے کچن، جس میں لوہے کی جالیوں والا روشن دان، تا کہ ہوا کا گزر رہے۔ گرمیوں میں فیملی چھت پر سویا کرتی۔ ووپہر کو گرمی سے بچنے کے لئے تہہ خانے میں ٹھنڈے کمرے (سرداب) میں۔ اس کے مقابلے میں غریب لوگوں کے گھر کئی منزلہ گنجان آبادی میں ہوا کرتے تھے۔ کجھور کے درخت کے تنے کے شہتیر کی چھت اور گارے کی اینٹوں کی دیواریں۔ شہر کی کشادہ سڑکوں کی باقاعدہ صفائی ہوا کرتی۔ دجلہ سے نکالی گئی نہروں کا جال جس سے گھروں کو پانی مہیا کیا جاتا۔ بازار کی فضا میں مقامی اور درآمد شدہ مصالحوں اور عطر کی خوشبو ہوتی اور اور دریا سے پکڑی گئی مچھلی، شابوت کی مہک۔ بغداد کے شہری اس دریا کے قریب سیر سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

الف لیلہ کی داستانوں کے اس شہر کو کئی مرتبہ اجاڑا جا چکا ہے۔ اپنے بسنے سے چند ہی دہائیوں بعد اس شہر کی پہلی تباہی اسی کے فرزند کے ہاتھوں ہونا تھی۔ لیکن یہ کہانی اس شہر کو اجاڑنے کی نہیں۔ اسلامی گولڈن ایج کے سب سے اہم کردار ابو العباس عبداللہ کی ہے، جنہیں تاریخ میں المامون کے نام سے جانا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خراسان سے سیاہ جھنڈے بلند کئے آنے والے باغیوں نے بنوامیہ کی حکومت کا تخت 751 میں الٹ دیا۔ میدانِ جنگ میں شکست کھانے والے بنو امیہ کے خاندان کو صلح کے لئے ضیافت پر بلایا گیا اور اس خونی ضیافت کے وقت اس خاندان کے 80 افراد کو قتل کر کے نوے سالہ اموی دورِ خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بنوامیہ کا صرف ایک شہزادہ اس سے بچ پایا تھا۔ یہ خلافتِ عباسی کے پانچ سو سالوں کا آغاز تھا، جو اسلامی سنہرا دور کہلاتا ہے۔ اپنے دارالخلافہ کے لئے عباسی خلیفہ نے ایک نئے شہر کی بنیاد 30 جون 762 کو رکھی جس کو مدینة السلام کا نام دیا گیا، جو پھر بغداد کہلایا۔ یہ شہر سائنس، لٹریچر، فلسفہ، آرکیٹکچر، مصوری، شیشہ گری، ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی کا گڑھ رہا۔ یہاں کے باغوں میں ساسانیوں کی دانشگاہِ گندی شاپور کی طرز پر بسایا گیا بیت الحکمہ (دانائی کا گھر) اپنے وقت کی سائنس کا بڑا مرکز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید جس سال خلیفہ بنے، اسی سال المامون کا جنم ہوا۔ ان کی والدہ فارس کی بغاوت کو کچلنے کی مہم میں حاصل کردہ لونڈی مراجل تھیں۔ ہارون الرشید کے دوسرے بیٹے ان کی بیوی زبیدہ سے ہوئے جو الامین تھے۔ مامون کو تعلیم و تربیت کے لئے وزیر جعفر برمکی کے حوالے کیا گیا جہاں پر قرآن حفظ کیا، شاعری پڑھی، تاریخ پڑھی، عربی گرائمر اور ریاضی۔ لیکن ان کی سب سے زیادہ دلچسپی فلسفے اور علم الکلام میں تھی۔ بعد کی زندگی میں ان کا سائنس کا جنون شروع ہونے کی وجہ یہی رہی۔
جب ولی عہد چننے کی باری آئی تو خالص النسل الامین کی ترجیح دی گئی۔ 802 میں ہارون نے عمرے کا سفر اپنے ٹین ایج بیٹوں کے ساتھ کیا اور یہاں پر یہ اعلان رسمی طور پر کیا گیا۔ الامین کو خلافت ملنا تھی۔ المامون کو خراسان کی گورنر شپ۔ اپنے بیٹوں سے اس کی پاسداری کا حلف لیا اور اس دستاویز کو کعبے کے اندر ڈبے میں بند کر کے رکھوا دیا۔ (اس کو مکہ پروٹوکول کہتے ہیں)۔ ٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارون الرشید کے دور میں خراسان میں بغاوت ہوئی۔ ہارون اس سے نپٹنے کے لئے فوج لے کر گئے۔ مامون ان کے ساتھ تھے۔ ہارون کا راستے میں بیماری سے انتقال ہو گیا۔ 23 سالہ مامون نے جگہ سنبھالی، بغاوت ختم کی۔ خراسان کا کنٹرول حاصل کیا۔ اس میں ان کے وزیر الفضل نے مدد کی۔ بغاوت دبانے کے لئے ٹیکس کم کئے گئے۔ الفضل نے مامون کا اچھا امیج بنوانے، پاور بیس قائم کرنے میں بھی بڑی مدد کی۔ اس دوران امین اور مامون کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply