دولے شاہ دے چوہے(1)۔۔علی انوار بنگڑ

بچپن میں زیادہ تر   چھٹی کے وقت  سکول کے باہر ایک دبلی پتلی جسامت کا لڑکا گھوما کرتا تھا۔ اس کا سر نارمل لوگوں سے ذرا چھوٹا ہوتا تھا۔ وہ دیوانہ وار کبھی ادھر جاتا تھا کبھی اُدھر۔  سکول کے لڑکے  اسے گھیر کر اس کے گرد ایک دائرے کی صورت میں کھڑے ہوجاتے اور اسے تنگ کرتے تھے۔ وہ مجاوروں کی طرح حرکتیں کرتا اور بچے ہنسا کرتے تھے۔ وہ اتنا معصوم تھا کہ جو بھی بندہ اپنے شغل کے لیے اسے جدھر لگاتا تھا وہ بلا تردو وہی حرکت کرتا تھا۔ لوگ اس سے مٹھی میں چار سے پانچ سگریٹ دبوا کر سوٹے لگواتے، راہ چلتے لوگوں کو تھپڑ لگواۓ جاتے یا تھوک کی پچکاری پھنکوائی جاتی۔غرض نت نئے کام اسے دیے جاتے اور وہ دو روپے کے سکے یا لوگوں کی بچی ہوئی کھانے کی چیزوں کے عوض بغیر سوچے سمجھے   ہر کام کرتا تھا۔ وہ لوگوں کے لیے ایک چلتا پھرتا تفریح کا ایک ذریعہ ہوتا تھا۔ ردِعمل میں لوگوں سے گالیاں بھی کھاتا تھا۔ بعض لوگ تھپڑ بھی رسید کردیتے تھے۔ باقی تماشائی لوگ تھپڑ رسید کرنے والے کو برا بھلا کہتے، جس سے اس کا حوصلہ بنا رہتا اور وہ متواتر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہتا تھا۔

تھوڑے سے بڑے  ہوۓ تو اس جیسے اور بہت سے لڑکے دیکھنے کو ملے جن کے ساتھ زیادہ تر عورتیں ہوتیں  اور وہ اِن دولے شاہوں کی حالت دِکھا کر بھیک مانگتی تھیں  ۔ یہ سوال ہمیشہ سے دماغ میں چپکا رہا  کہ یہ ایسے کیوں ہوتے ہیں۔ بچپن میں ملنے والے جواب کچھ ایسے ہوتا کہ یہ اُن کے والدین کے لیے خدا کی طرف سے اُن کے کسی گناہ کی سزا ہے اور اس طرح کی اور بہت سی من گھڑت باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ بچپن کی ناسمجھی کی وجہ سے ایسے جوابات من میں ہونے والی سوالات کی ہلچل کو وقتی طور پر تو ختم کردیتے تھے۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ عقل کی پرتیں کھلیں  تو بچپن میں سنے جوابات کو عقل پھر سے دلیل کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنے لگ گئی۔

اس سلسلے میں کچھ آرٹیکلز پڑھے، یونیورسٹی میں جینیٹکس سے متعلقہ مضامین پڑھے اور کچھ ڈاکیومنٹریز دیکھیں ، تو پتا چلا کہ یہ بچے جینیاتی نقائص کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں۔ ان کے دماغ کی مکمل نشوونما نہیں ہوپاتی ہے۔ کروموسوم کے نقص کی وجہ سے بظاہر جسم تو توانا ہوتا ہے لیکن سر چھوٹا رہ جاتا ہے۔ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ایک عام چھوٹے بچے جتنی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے اچھے اور برے کو پہچاننے میں قدرے دوسرے عام بچوں سے سست ہوتے ہیں یا یہ صلاحیت ان میں سرے سے ہی نہیں ہوتی  ۔

اس بیماری کو مائیکرو سفیلی (Microcephaly) کہتے ہیں۔ مائیکرو سفیلی کا مطلب ہے چھوٹی کھوپڑی والے۔ بنیادی طور پر یہ جینیاتی بیماری ہے اور یہ ایک آٹو سومل ریسیسو ٹریٹ ہے یعنی اگر ماں باپ دونوں اس بیماری سے جڑے جینز رکھتے ہیں تب ہی ان کے بچوں میں اس بیماری کے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ کزنز کی جینیاتی ساخت ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی ہے اور جن خاندانوں میں نسل در نسل یہ بیماری یا دوسری جینیاتی بیماریاں منتقل ہورہی ہوتی ہیں انہیں ان بیماریوں سے بچنے کے لیے کزن میرج سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ حمل کے دوران غذائی قلت، نقصان دہ کیمیکلز کا استعمال یا زیکا وائرس کا حملہ بھی اس بیماری کا موجب بن سکتا ہے۔ ایسے بچے فکری معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سیکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ ان کو نظر اور بصارت سے جڑے مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اپنی نشوونما کے لیے دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے کیسز میں جن میں بیماری کی شدت زیادہ نہیں ہوتی ہے ایسے بچوں کی بہتر نگہداشت سے وہ نارمل زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

ان عوامل کے علاوہ ایک اور مفروضہ بھی ان بچوں کے متعلق ہمارے معاشرے میں مشہور ہے۔ بہت سے بچے ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ہیں جنہیں مصنوعی طور پر ایسے بنایا جاتا ہے۔ لیکن سائنسی حوالے سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ کہتے ہیں کہ کسی مزار پر کچھ بچوں کے سروں پر دھاتی خول چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے سر کی بڑھوتری رک جاۓ۔ ان کا جسم تو توانا رہے لیکن سر کی مکمل نشوونما نہ ہونے پاۓ جس کی وجہ سے سر کافی چھوٹا رہ جاتا ہے۔ جس کے اثرات اس کی دماغی حالت پر بھی پڑتے ہیں۔ ان کا جسم تو بڑھ جاتا ہے لیکن ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ایک بچے کے برابر رہ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک عام بالغ صحت مند انسان کی طرح اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں کرسکتے ہیں۔ اور ایک خاص سطح سے زیادہ سوچ سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ ان کے خیالات جمود کا شکار ہوتے ہیں اور اس لیے ایک خاص سطح سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ لیکن میڈیکل سائنس میں اس مفروضے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ حقیقت اس کی کچھ یوں ہے بہت سے لوگ غربت کی وجہ سے اپنے ایسے بچے جو مائیکرو سفیلی جیسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں معاشرے میں موجود چند ناسوروں کو بیچ دیتے ہیں یا ایسے ناسور انہیں اغواء کرکے لے جاتے ہیں۔ وہ کالی بھیڑیں انہیں گدا گری جیسے پیشے میں لگا دیتے ہیں۔ بدلے میں انہیں دو وقت کی روٹی دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ کی ان کو غرض بھی نہیں ہوتی ہے۔ دولے شاہ کے چوہے کہلاۓ جانے والے یہ انسان کٹھ پتلی کی طرح دوسروں کی ہلائی ہوئی ڈوروں سے ہی چل رہے ہوتے ہیں۔

اس سارے منظر کھینچنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی فکری صلاحیتوں کا اِن دولے شاہوں کے ساتھ تقابلی موازنہ کرنا ہے۔ اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھیں  تو بہت سے دولے شاہ نظر آۓ گئے، جو فکری لحاظ سے اور نظریاتی اعتبار سے جمود کا شکار ہیں۔ دراصل ہمارا معاشرہ ان دولے شاہوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم خود اپنی زندگی میں بہت سے معاملات میں دولے شاہ ہی بنے ہوتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں ہمارا کردار بھی دولے شاہ جتنا ہی ہے۔ اپنی فکری صلاحیتوں پر عقیدتوں کے چھلے لگا کر بیٹھے ہوۓ ہیں۔

جیسے یہ مفروضہ ہے کہ ایک نارمل بچے کو دولا شاہ بنانے کے لیے بچپن میں اس کے سر پر لوہے کا چھلہ لگا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی اپنے بچوں پر اور اپنے آپ پر مذہبی و سیاسی عقیدتوں کے چھلے لگا دیتے ہیں۔ جن سے ہمارے نظریات ارتقائی عمل سے گزر کر بہتر ہونے کی بجائے عقیدت کا طواف کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی حال اگلی نسل کا ہوتا ہے۔ عقیدت نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے اور ہر نسل میں عقیدت کے حوالے سے شدت بڑھتی رہتی ہے اور دلیل کے لیے جگہ کم ہوتی جاتی ہے۔ پیدا ہوتے ہی ہمیں گڑھتی کے ساتھ یہ سکھایا جاتا ہے پہلی محبت کس سے کرنی ہے اور نفرت کس سے کرنی ہے۔ کس ذات کو نیچ کہنا ہے اور کس قوم کو برا سمجھنا ہے۔ یہ ساری چیزیں ہمیں گھر اور ارد گرد کے ماحول سے ہی مل جاتی ہے۔ بچپن سے ہی گناہ و ثواب کے نام پر ہمارے اندر اٹھنے والے بہت سے سوالات کو عقیدت کا ڈھکن لگا کر بند کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً پوری زندگی گڑھتی میں ملی مخصوص طبقوں کے لیے محبت اور نفرت کے پرچار میں گزر جاتی ہے۔

عقیدت کے چھلے بھی مختلف قسم کے یوتے ہیں۔ مذہبی عقیدت کے چھلے، فرقہ واریت کے چھلے، ذات برادری کے چھلے، سیاسی راہنماؤں کے چھلے، شخصی عقیدت کے چھلے، قوم پرستی کے چھلے، سماجی تفریق کے چھلے اور لبرلزم کے چھلے۔ غرض کہ نت نئے اقسام کی عقیدتیں ملے گی۔ اور ان کو لگانے کا آغاز بھی گھر سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔

ہم بچے کو مذہبی نفرت سکھاتے ہیں۔ اپنے مذہب کو بہتر بتانے کے لیے دوسرے مذاہب میں نقائص نکال کر بتائیں گے۔ دوسرے مذاہب اور فرقوں کو ایسے پیش کرے گئے جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔ اسی رویے کی وجہ سے بچے کے لاشعور میں دوسرے مذاہب اور فرقے والوں کے لیے نفرت پنپنے لگ جاتی ہے۔ جو اس کے جوان ہونے تک شدت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے شخص کو آپ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف بآسانی استعمال کر سکتے ہیں۔

یہی حال فرقہ واریت کا ہے۔ فرقہ واریت کی ایسی گُھڑتی دی جاتی ہے ہم مرتے دم تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ لیکن کبھی کھلے دل سے اپنا اور دوسرے عقائد کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ ہر ایک کے نزدیک بس اپنے فقہ کا مولوی سچا اور باقی سب جھوٹے ہوتے ہیں۔ اسی عقیدت کے زیر اثر ہم اپنے فرقے میں موجود کالی بھیڑوں کا دفاع بھی کریں گے۔ دلیل کے ساتھ بات کرنے کی بجائے گالیوں کا بے دریغ استعمال کریں گے کیونکہ دلیل یا منطق تو ہمیں کبھی سکھائی ہی نہیں گئی۔ بلکہ اس کے بدلے ہمیں عقیدت سکھائی جاتی ہے جس کا اندھا دھند دفاع ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور تو اور ہم اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہم اپنے مذہب اور اپنے فرقے کی خدمت کررہے ہیں۔

یہ ہی صورتحال ذات برادری اور قوم پرستی کے حوالے سے ہے۔ قومیت اور برادریاں شناخت کے لئے ہوتی ہیں لیکن ہم نے اِنہیں دوسروں کے کردار جانچنے کا پیمانہ بنایا ہوا ہے۔ فلاں برادری والا تو ہے ہی کمین۔ یہ ہماری برابری نہیں کرسکتا۔ صرف میری ذات معتبر ہے۔ فلاں صوبے والے تو ہے ہی نیچ۔ ایسی لاتعداد منطقیں ہم نے گھڑی ہوئی ہیں اور نسل در نسل یہ نفرت آگے منتقل بھی کررہے ہیں۔

اسی طرح سیاسی عقیدت رکھنے والوں کا حال ہے۔ کبھی بھی غیر جانبداری کے ساتھ سیاسی راہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کا تقابلی معائنہ نہیں کریں گے۔ سیاسی راہنماؤں کے نظریات کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھیں  گے۔ بس اندھی تقلید کی وجہ سے اپنے راہنما کو فرشتہ ثابت کرنے پر تلے رہیں  گے۔ زیادہ تر ذات برادری، قوم و نسل، لسانیت، مذہبی عقائد یا پھر ایک آدھے ذاتی کام کی وجہ سے ہمیں اپنے سیاسی راہنما سے عقیدت ہوتی ہے اور پوری زندگی اسی عقیدت کی وجہ سے اپنے راہنماؤں کے ناجائز کاموں پر بھی ہم آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہتے ہیں۔

ہمارے ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیں۔ تمام سیاسی جماعتیں منشور کی بجائے سیاسی راہنماؤں کے لیے عوام پائی جانے والی عقیدتوں پر کھڑی ہیں۔ کسی بھی جماعت کا کوئی خاص منشور نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی راہنما اپنے مفادات کے لیے آۓ دن اپنا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں جو پہلے والے بیانیہ سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ کیا عوام ان کے خلاف جاتی ہے؟ جواب نہیں میں ہے۔ کیوں کہ عوام تو عقیدت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔

ایسے بہت سے عقائد اور عقیدتیں بچپن میں ہمیں اپنے گھر سے ہی مل جاتی ہیں۔ جن میں مذہبی، سیاسی تقریباً ہر طرح کے عقائد شامل ہیں اور مد مقابل عقائد کو ہم بنا پرکھے ہی اپنے شعور میں غلط کا درجہ دیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جس عقیدے کے   بارے میں ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور پوری زندگی محض ضد میں اپنے نظریے کو درست سمجھتے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ نظریات اور عقائد وراثت میں ملے ہوتے ہیں۔ پوری زندگی عقائد کے متعلق ہماری معلومات کنوئیں کے مینڈک جتنی رہتی ہیں۔ کیونکہ دوسری طرف کے دلائل کو ہم سنے اور سمجھے بغیر ہی پہلے سے ہی رد کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہی رویہ ہم سے غوروفکر کرنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ اس سے منطق ڈھونڈنے کی جستجو ختم ہوجاتی ہے۔ ہم لوگ سالہا سال وراثت میں ملے عقائد کو اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں اس لیے ان کی جانچ پڑتال کا عمل ہمیں اذیت ناک لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply