ٹارگٹ، ٹارگٹ، ٹارگٹ۔کرنل ضیا /قسط18

چُھٹی اور تعزیت
چُھٹی سے زیادہ دلفریب لفظ شاید فوجی ڈکشنری میں ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ چھٹی کی مثال عسکری زندگی کے صحرا میں ایک ہرے بھرے نخلستان کی مانند ہے جس کے تصور سے ہی روزمرہ کی کٹھنائیوں کی شدت کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ سپاہی کی زندگی چچا غالب کی طرح ہزاروں خواہشوں کا مرقع نہیں ہوتی بلکہ لے دے کر اس کی سوچ کا واحد محور چھٹی ہی  ہوا  کرتی  ہے جس  پہ اس کا دم بھی نکلتا ہے اور ارمان بھی ۔ جیسا کہ مرزا سے کسی نے ان کی پسند دریافت کی تو یکلخت بولے ’’آم ہوں اور عام ہوں‘‘ٹھیک ویسے ہی کسی فوجی سے اس کی دلی مراد پوچھیں تو فوراً نعرہ بلند کرے گا ’’چھٹی ہو اور کھلی ہو۔‘‘

چھٹی کا حصول ویسے تو اتنا مشکل نہیں ہوتا تاہم جب کبھی یونٹ کوئی اہم ذمہ داری سر انجام دے رہی ہویا جنگی مشقوں میں مصروف ہو تو اکثر یک انار صد بیمار والا معاملہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسے میں زیادہ ترلوگ تو صبر و شکر کا دامن تھام کر دن گزارتے ہیں لیکن کچھ مردانِ قلندر ایسے بھی ہوتے ہیں جوان بے جا پابندیوں کو خاطر میں لانا گوارا نہیں کرتے اور ہر قیمت پر چھٹی کے حصول کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ان کی جانب سے طرح طرح کے عذر بھی تراشے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ جب بات ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی، کوئی امید بر نہیں آتی‘‘تک جا پہنچے تو جھوٹ بول کر کسی قریبی رشتہ دار کو اس جہان فانی سے کوچ کرو انے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ایسی صورتِ حال میں مجاز افسران کو بھی گرہ ڈھیلی کر کے مذکورہ جوان کو چھٹی کا پروانہ عطا کرنا ہی پڑتا ہے۔

یہ 1998کے موسم گرما کا ذکر ہے۔ یونٹ ان دنوں سالانہ جنگی مشقوں کے لئے جہلم کے نزدیک ٹلہ فائرنگ رینج پر کیمپ کئے ہوئے تھی۔ ایک دن ہم معمول کے کاموں میں مصروف تھے کہ سپاہی بشیر نے ہمیں اپنے والد صاحب کے انتقال کی خبر سنائی۔سپاہی بشیر کافی دنوں سے چھٹی جانے کی درخواست کر رہا تھا لیکن فارمیشن کی ہدایت کے مطابق مشقوں کے اختتام تک چھٹی پر پابندی عائدتھی اس لئے اس کی درخواست کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ بہرحال والد کی وفات کی اطلاع ملتے ہی اس کی چھٹی فوراً منظور کرلی گئی ۔ یونٹ سے ایک گاڑی روانہ کی گئی جو اسے بس میں بٹھا کر واپس لوٹی۔ دو تین دن بعد مشغولیت قدرے کم ہوئی تو سی او کے ذہن میں خیال آیا کہ بشیر کا گاؤں قریب ہی واقع ہے چنانچہ اس کے گھر والوں سے تعزیت کے لئے کسی افسر کو بھیجا جانا چاہیے ۔  چونکہ اس کا تعلق ہماری کمپنی سے تھا اس لئے اس نیک کام کاقرعہ فال ہمارے نام نکلا۔ اگلے دن پروگرام کے مطابق ہم سپاہی بشیر کے گاؤں کی جانب روانہ ہوئے۔ پہلے سے اطلاع اس لئے نہیں کی جاسکی کہ اس کے لئے مطلوبہ ذرائع ہی میسر نہ تھے کیونکہ اس زمانے میں موبائل فون اس قدر عام نہیں ہوتے تھے۔

قصہ مختصر، رستہ پوچھتے پاچھتے دوپہر کے قریب بشیر کے گاؤں پہنچے ۔مطلوبہ گھر کے باہر ایک بزرگ بیٹھے ملے ۔ ہم نے ان سے بشیر کے والد کی وفات پر دلی تعزیت کی اور یونٹ کے سی او کی جانب سے سوگواران کے لئے ہمدردی کا پیغام بھی پہنچایا۔ پوری بات سن کر بابا جی نے فرمایا کہ بشیر تو میرا بیٹا ہے اور میں زندہ سلامت آ پ کے سامنے موجود ہوں۔ یہ جان کر ہمیں جو شرمندگی ہوئی، سو ہوئی لیکن ایک زندہ آدمی سے اسی کی وفات کی تعزیت کر کے ہم ایک انوکھے ریکارڈ کے حامل ضرور ہو گئے۔ ہم نے بابا جی سے بشیر کو حاضر کرنے کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگے کہ بشیر تو ابھی تک یونٹ سے گھر نہیں پہنچا۔یہ سن کر ہمارا غصہ دوچند ہوگیا۔ تلملاتے ہوئے واپس پہنچے اور بشیر کا انتظار شروع کردیا۔وہ ناہنجار پورے دس دن کی چھٹی گزار کر اٹھلاتا ہوا یونٹ واپس پہنچا۔ ہم بھی بھرے بیٹھے تھے لہٰذا اسے لے کر فی الفور سی او کے سامنے پہنچ گئے ۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی اس نے آناً فاناً سی او کے پاؤں پکڑ لئے اور کہنے لگا کہ سر! والد صاحب کی وفات کے بارے میں تو میں نے جھوٹ بولا تھا لیکن آپ یقین مانیں کہ میری والدہ بہت سخت بیمار ہیں۔ لہٰذا ان کی دیکھ بھال کے لئے مجھے دس دن کی چھٹی بھجوا دیں۔
ہمارے سی او بھی انتہائی خدا ترس انسان واقع ہوئے تھے انہوں نے نہ صرف بشیر کو معاف کردیا بلکہ اس کی بات پر یقین کرتے ہوئے مزید دس دن کی چھٹی بھی عنایت فرمادی۔

کس قیامت کی یہ کالیں
گئے وقتوں میں حضرتِ داغ کو ’’قیامت کے نامے‘‘ موصول ہوا کرتے تھے جبکہ فی زمانہ فوجی افسران کا واسطہ قیامت کی فون کالوں سے پڑتا ہے ۔آج سے بیس برس قبل موبائل فون اتنے عام نہیں ہوئے تھے اور گلشن کا تمام کاروبار یونٹ میں موجود اکلوتے سرکاری فون کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔ یہ فون دفتری اوقات میں ایڈجوٹنٹ کے تصرف میں ہوتا تھا لہٰذا نامہ بر کا کردار بھی اکثر و بیشتر وہی ادا کرتا تھا۔حسبِ روایت مرحلہ شوق کے طے ہونے تک دو چار مشکل مراحل سے گزرنا لازم تھا جن کے دوران نامہ بر کے رقیبِ روسیاہ کی صورت اختیار کرنے کا احتمال بھی ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔

یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب آتش جوان تھا اور پشاور چھاؤنی میں عسکری خدمات سر انجام دے رہا تھا جبکہ کیپٹن ندیم ان دنوں یونٹ ایڈجوٹنٹ کے عہدہ پر فائز تھے۔ جولائی 1999 کی ایک گرم دوپہر میں ہم ایک عدد ضروری کام کے سلسلے میں ان کے آفس میں موجود تھے ۔موصوف سی او سے تازہ تازہ عزت افزائی کروانے کے بعد دفتر لوٹے تھے اوراس کیفیت میں فوج سے استعفے دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔ اسی دوران فون کی گھنٹی بجی ، پتہ چلا کہ دوسری جانب ایک محترمہ موجود تھیں جو ان سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرنے کی خواہشمند تھیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اس قسم کی شریفانہ گفتگو کا وقت تھا نہ موقع لہٰذا انہوں نے شائستگی سے معذرت فرمائی اور سر جھکا کر اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد گھنٹی دوبارہ بجی اور اس مرتبہ بھی دوسری جانب وہی محترمہ موجود تھیں۔ کیپٹن ندیم نے ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے ذرا درشت لہجہ میں بات کی اور فون بند کردیا لیکن یہ سلسلہ اس کے باوجود بھی نہ رکا۔ تیسری بار گھنٹی بجی ، فون اٹھایا گیا اور کیپٹن ندیم کی جانب سے پہلے سے زیادہ سخت سست سنانے کے بعد فون رکھ دیا گیا۔

اس کے بعد کیپٹن ندیم نے ہمیں ہدایت دی کہ اب اگر فون آئے تو آپ اٹینڈ کریں اور ان خاتون کو سختی سے منع کیجئے کہ وہ بار بار فون کر کے ہمیں ڈسٹرب نہ کریں۔ مشکل یہ تھی کہ ایک تو ہمیں اس طرح کے معاملات کا خاطر خواہ تجربہ نہ تھا اور دوسرے کسی خاتون سے بے رخی سے بات کرنا ہماری طبیعت شاعرانہ کو گوارا نہ تھا۔ بہرحال ایک اچھے جونئیر کی طرح دل کڑا کر کے ہم نے سینئر کے حکم کی پاسداری کرنا ضروری خیال کیا۔حسب معمول کچھ ہی دیر کے بعد فون کی گھنٹی بجی ۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فون اٹھاتے ہی کھری کھری سنانا شروع کر دیں۔ہم اپنی دھن میں بولے چلے جا رہے تھے جبکہ دوسری جانب مکمل خاموشی طاری تھی۔ کچھ دیر بعدہم جیسے ہی سانس لینے کے لئے رکے تو ایک بھاری مردانہ آواز کانوں میں گونجی ’’بیٹا میں کمانڈر بول رہا ہوں۔ آپ فوراً سے پہلے میرے دفتر میں تشریف لے آئیں۔‘‘ اب ہماری یہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ہم نے انجانے میں کمانڈر کو بُرا بھلا کہہ کر گویا قیامت کو آواز دے لی تھی۔ بہرحال مرتے کیا نہ کرتے‘ کیپٹن ندیم کو ساتھ لے کر ڈرتے کانپتے کمانڈر کے آفس میں جاپہنچے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے ہم نے معافی مانگ کر تمام معاملہ ان کے گوش گزار کر دیا۔ اگرچہ کمانڈر عمر کے لحاظ سے بزرگ تھے لیکن ان کے سینے میں ایک جوان دل دھڑک رہا تھا۔ ہماری بات سن کر انہوں نے ایک زور دارقہقہہ لگایا اور مزید کچھ کہے بغیر ہمیں دفتر سے جانے کی اجازت دے دی۔ اس طرح غالب کے پرزے اڑنے سے بچ گئے ۔ اس دن کے بعد سے ہم فون پر بات کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح یقین کر لیتے ہیں کہ کہیں دوسری جانب کمانڈر یاکوئی خاتون تو موجودنہیں۔

فوجی گاڑیاں، ڈرائیور اور انسپکشن
فوجی گاڑیوں کو اونچے نیچے پہاڑی راستوں ، دریاؤں اور صحراؤں میں رواں دواں رکھنا انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ یہ پٹرول سے کم اور دعاؤں سے زیادہ چلتی ہیں۔ہماری نظر میں اگر کوئی طبقہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں جانے کا حقدار ہے تو وہ ہے فوجی ڈرائیور جو لاکھ مشکلات کے باوجود ان گاڑیوں کو صحیح سلامت منزل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ صحرا میں ہونیوالی ایک جنگی مشق کے دوران کسی فوجی گاڑی کا ایک درخت کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہو گیا۔یہ اس علاقے میں موجود تن تنہا درخت تھا اور اس کے قرب وجوار میں میلوں میل کسی اور درخت کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا تھا۔ ڈرائیور سے دریافت کیا گیا کہ بھلے آدمی تمہیں پورے صحرا میں گاڑی ٹکرانے کے لئے یہی اکیلا درخت ملا تھا تو اس نے جواب دیا کہ سر میں آخر تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اس درخت کے دائیں سے گزروں یا بائیں سے ۔ یہ سوچتے سوچتے وقت ہاتھ سے نکل گیا اور گاڑی درخت سے جا ٹکرائی۔ ایک مرتبہ ہمیں گاڑیوں کے ایک قافلے کے ہمراہ کشمیر کے بلند و بالاپہاڑوں میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ اونچی نیچی پہاڑیوں اور تنگ راستوں پر سفر خاموشی سے جاری تھا کہ ہم نے وقت گزاری کے لئے ڈرائیور سے گپ شپ لگانے کا سوچا۔ ڈرائیور سے اس کے گاؤں، خاندان، یونٹ اور ادھر ادھر کی دوسری چیزوں کے بارے میں سوالات پوچھے جن کے جواب وہ دیتا گیا۔ کچھ دیر بعد جب پوچھنے کے لئے کچھ اور باقی نہیں بچا تو ہم گویا ہوئے ’’بشیر!اورتو سب ٹھیک ٹھاک ہے ناں‘‘اس پر ستم ظریف بولا ’’سر!باقی سب تو ٹھیک ہے بس گاڑی کی بریکیں کام نہیں کر رہیں۔‘‘

فوجی گاڑیوں کی دیکھ بھال ای ایم ای کور کے ذمہ ہوا کرتی ہے۔ ہر سال ایک لگے بندھے شیڈول کے مطابق گاڑیوں کی ٹیکنیکل انسپکشن بھی ای ایم ای والے ہی کرتے ہیں۔ یعنی وہی ذبح کرے اور وہی لے ثواب الٹا۔ سال بھر میں گاڑیوں کے جو نقائص ٹھیک ہونے سے رہ جاتے ہیں وہ ای ایم ای کی انسپکشن ٹیم بے دھڑک اپنی رپورٹ میں درج کرتی ہے۔ یہ موقع عموماً یونٹ کے لئے سخت امتحان کا ہوتا ہے۔ یونٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ گاڑیوں کے نقائص انسپکشن سے پہلے کسی بھی طرح سے دور کروائے جائیں، چاہے اس کے لئے جتنا بھی خرچ یا جیسے بھی جتن کیوں نہ کرنے پڑیں۔لیکن لاکھ کوشش کے باوجود حضرت خضر کی ہم عمر کچھ گاڑیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی مسیحائی کے لئے جس ’پیمبرانہ‘ استعداد کی ضرورت ہوتی ہے وہ آج کل کے معمولی مستریوں اور مکینکوں میں کہاں مل سکتی ہے۔ اس طرح انسپکشن ٹیم کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا اور ان پیرانہ سال گاڑیوں کے نقائص کی صورت میں کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مطلوبہ مواد آسانی سے میسر آ جاتا ہے۔ یہ رپورٹ بعد میں برے بھلے ریمارکس کے ساتھ بالا ہیڈکوارٹر کو روانہ کر دی جاتی ہے جس کی سنگینی کی بنا پر بسا اوقات سی او کو کمانڈر کی جانب سے وارننگ کی صورت میں ’’خصوصی محبت نامہ‘‘بھی ارسال کر دیا جاتا ہے۔

ہم نے یونٹ کی کمانڈ سنبھالی تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ پرانی ٹیکنیکل انسپکشن رپورٹس نکلوا کر اپنے سامنے رکھ لیں۔ اس کے بعد جملہ ڈرائیوران کا اجلاس طلب کیا اور ان کو رپورٹس میں درج تمام نقائص دور کرنے پر آمادہ کیا۔ ڈرائیور حضرات نے ہمارے حکم پر دل و جان سے کام شروع کیا اور دو مہینے کے قلیل عرصے میں گاڑیوں میں موجود وہ تمام نقائص دور کرنے میں کامیاب ہو گئے جو کہ پرانی رپورٹوں میں درج تھے۔ اس کے بعد ہم نے نوٹ کیا کہ ایک پوائنٹ بڑے تواتر کے ساتھ چلا آر ہا تھا اوروہ یہ کہ یونٹ میں گاڑیاں کھڑی کرنے کے لئے شیڈ موجود نہیں جس کے باعث دھوپ، بارش اور موسم کی سختیاں گاڑیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت دن رات ایک کر کے نہ صرف تمام گاڑیوں کے لئے پکے شیڈ کھڑے کر دیئے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایک خوبصورت سی ورکشاپ بھی تعمیر کروادی۔ یہ سب کارنامے سرانجام دینے کے بعد ہم اپنے تئیں ایسے اترا رہے تھے کہ جیسے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔

انسپکشن کے لئے کمانڈرای ایم ای بنفس نفیس یونٹ میں تشریف لائے۔ ہم نے ان سے عرض گزاری کہ حضور ہم نے پچھلی رپورٹوں میں موجود تمام پوائنٹس جو کہ باوا آدم کے زمانے سے چلے آتے تھے، قلیل مدت میں ختم کر دیئے ہیں کیا اس کارنامے پر ہمیں کوئی شاباش ملنے کی توقع ہے؟ موصوف نے یہ سن کر کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی ،سگریٹ کا لمبا کش لیا اور فرمانے لگے ’’بھائی صاحب! ہمارے پرفارمے میں کسی قسم کی تعریف کا خانہ سرے سے موجودہی نہیں ہے اس لئے آپ کی فرمائش پوری کرنا ہمارے لئے یکسرممکن نہیں ۔ الٹا آپ نے یہ کام کر کے ہمیں ایک گھمبیر مشکل کا شکار کر دیا ہے ،وہ یہ کہ پہلے تو پرانے پوائنٹس سے ہمارا کام بخوبی چل جاتا تھا جبکہ اب ہمیں تازہ پوائنٹس ڈھونڈنے کے لئے نئے سرے سے محنت کرنا پڑے گی۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٹارگٹ، ٹارگٹ، ٹارگٹ۔کرنل ضیا /قسط18

Leave a Reply