فرسودہ روایات۔۔بشریٰ نواز

سنا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کے رنگ پکڑتا ہے اب خربوزے رنگ پکڑتے ہیں  یا نہیں ،لیکن  ہم  انسان فوری طور پے رنگ نہ صرف پکڑتے ہیں  بلکہ پورے کے پورے اس رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر  پڑوسیوں کے رنگ ہمیں  بہت بھا تے ہیں معاملہ خوشی کا ہو یا غمی کا، ہمارا استاد ہمارا ٹی وی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں  کہ تقسیم ِ ہند سے پہلے مسلمان  اور ہندو اکھٹے رہے، ساتھ  رہنے سے دونوں تہذیبیں   گُھل مل گئیں ، نظر آتا ہے کہ ہندوؤں  نے تو کوئی اثر نہیں  لیا مسلمانوں کی کسی بھی تہذیب یا رواج کا لیکن  مسلمان وہاں سے ہجرت کرتے وقت ان کے رسم و رواج ساتھ لانا نہیں بھولے ،ان رسومات میں رشتہ دیکھنے سے  لیکر ،منگنی ما یو ں مہندی شادی بیا ہ گود بھرا ئی اورمرتے وقت کی جانیوالی چند رسوم بھی شامل ہیں ۔

خوشی  ہو  یا غم ہمارا دین  ہمیں سادگی کا درس دیتا ہے، ہر کام میں ہمیں آسانی  عطا کرتا ہے لیکن ہم اپنے اللہ کی نہ مانتے ہیں  نہ ہی عمل کرتے ہیں، خود کو جان بوجھ کے پریشانی میں ڈال لیتے ہیں۔ اب شادی کو ہی لیں۔ ہمارا دین  ہمیں صرف نکاح کا حکم دیتا ہے ،بیٹی والوں  پر  کھانا کھلانے  تک کی بھی زبردستی نہیں۔ بس اپنی  استطا عت کے مطابق ولیمے  کا حکم  ہے اور والدین کا فرض پورا ہو گیا لیکن اسی شادی کو ہم نے خود بہت مشکل کر لیا ہے مہندی ما یو ں ڈھولکی ، ایک ہفتہ یا پندرہ دن ڈھو لکی مہندی  پر لوگوں کا آنا جانا پھر شادی  کے بعد مکلاو  ے، سب رسومات ہند وانہ ہیں۔ حدیث ہے جس نکاح میں کم خرچہ ہو گا وہ با برکت نکاح ہو گا ،لیکن ایسی شادی کرنے کو ہم تیار نہیں۔
لوگ کیا کہیں گے ؟ یہ ہم  سن نہیں سکتے
گودبھرا ئی ایک  فضول  رسم  ہے،پہلے ایسی باتیں  مردوں سے چھپائی جاتی تھیں بچوں کوبھی بھنک نہیں لگنے دی جاتی تھی لیکن ہمسا یوں کے ڈراموں نے یہ گندی اور بے شرم رسم ہمارے گھروں  میں داخل کر دی ہے اب بیٹی کا باپ بھائی سب ہی اس رسم میں شامل ہوتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پہلے کوئی فوتگی ہوتی  تو جو جیسے بیٹھا ہوتا اُٹھ کے افسوس کو  چل پڑتا لیکن ہمسا ے فوتگی پہ  سفید کپڑے پہنتے ہیں تو بھلا ہم کیوں پیچھے رہیں، اب سب نے سفید سوٹ سلوا رکھے ہیں کوئی پتا نہیں کب پہننا پڑ جاۓ۔
ہم نے اپنے دین تہذیب ، سادگی کا درس جیسے سب کچھ فراموش کر دیا ہے اللہ ہم پہ  رحم کرے ۔ اور اپنی دینی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فرسودہ روایات۔۔بشریٰ نواز

Leave a Reply