راولاکوٹ تب اور اب ۔۔کبیرخان

1-
ایک طرف ’’باوٗلی‘‘تا ’’ڈھٹّھاکھُوہ ‘‘ ، دوسری جانب نادوُ کی کسّی تا شہادوُ کی جوُہ ۔ ہمارے ہوش سنبھالنے سے ہوشیار ہونے تک یہ تھا کُل راولاکوٹ شہر۔ ہجیرہ روڈ پر واقع باوٗلی شاید اب بھی ہو۔۔۔۔۔ کہ جامع مسجد کے نمازی اسی پر جاکر ’’اُجّم تاجہ ‘‘کرتے تھے۔ کوہالہ روڈ پر البتّہ ’’کھوُہ نما ‘‘بند ہو گیا ہو گا۔۔۔۔ کہ اس کے سرہانے نیشنل بنک اور پائنتی میں کِرم خوردہ اور میک اپ یافتہ فرنیچر کی سہ منزلہ مارکیٹ معرضِ وجود میں آ چکی ہے۔
’’شہر‘‘ کی ایک شاخ ’’سلیمان چوک‘‘ سے متیالمیرہ کوجانا چاہتی تھی لیکن آگے ’’بھائیے کا ہوٹل‘‘(چائےخانہ) پڑتا تھا۔ جہاں سے راہی ہی نہیں راہ بھی اٹکے ٹھٹکے بغیر نہیں گذرتی تھی۔ کیا چائے اور کیا بند ہوتے تھے۔ بند تو اسقدر سائی دار ہوتا تھا کہ چائے مُک جاتی تھی،بند کے ایک دو چکّ پھر بھی روکھے رہ جاتے تھے۔ مگر بھیا اتنا اچھا میزبان تھا کہ بن مانگے ڈُلّو کے ذریعہ خالی پیالے میں چائے کی گریبی ڈال دیا کرتا تھا۔ بھیّے کے چائے خانہ میں ایک عقبی’’ہال‘‘ بھی تھا جس کا ایک دروازہ پیچھے کی طرف مکئی کے کھیت میں کھلتا (بلکہ کھلا ہی رہتا) تھا۔ اس ہال میں صرف ہائی اسکول اور انٹرکالج کے بھگوڑے طلبہ ’’ٹلّیاں گھُسا‘‘سکتے تھے۔ لیکن بگلے کے سگریٹ سے دوپیسی نکالنے کی اجازت کسی طالبعلم راہنما کو بھی نہیں تھی۔ یہ بھیّے کے اسی ’’ہوٹل‘‘ کا ایجاز تھا کہ متیالمیرہ روڈ (غالباً) اب تک وہیں کی وہیں رُکی کھڑی ہے۔ شاید ہماری طرح اُسے بھی علم نہیں کہ بھیّا کا ہوٹل بند ہو چکا ہے اور اب کبھی نہیں کھُلنے کا۔
ہوٹل مذکور سے چند قدم کے فاصلہ پر، قبرستان کے پہلو میں ایک تاریخی’’سیاسی ٹیکری‘‘ہوا کرتی تھی ۔جس پر کھڑے ہو کر پونچھ کے عوام نے ڈوگرہ رجیم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔ آج اُسی سیاسی ٹیکری کی جگہ ’’دارالجہاد‘‘ کے نام سے ایک یادگار سر اٹھا چکی ہے۔ جس کے مدارالمہام پرلے درجہ کے ایک شریف اور مخلص

انسان سردار عبدالخالق خان ہیں ۔ ہم صمیم قلب سے دعا گو ہیں کہ یہ منصوبہ اُنہی کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اور اس کا افتتاح بھی اُنہی کے ہاتھوں سے ہو۔اسی یادگار پر منہ طرف خانہ کعبہ شریف کر کے کھڑے ہوں تو آپ کو ناک کی سیدھ میں تھر تھر کانپتا ایک ’’جبّر‘‘دکھائی دے گا۔ اُسے ’’مورخا تپ‘‘ نہیں چڑھا،جمعہ کی نماز کے بعد اُس کے سینے پر راولاکوٹ اور پوٹھی کے سنڈوں کے بیچ گھمسان کا رنّ پڑنے والا ہے’’جبّر‘‘ کو سنڈوں کی مل دل سے نہیں سنڈے والوں کے جوش خروش سے ڈر لگتا ہے۔
جبّر سے لگ کر جو گہل سی کہیں جارہی ہے، وہ منگ روڈ ہے ۔ اور یقین کریں اس پر ٹرکوں اور بسوں کے علاوہ کبھی کبھی ٹھیکیدار سلیمان خان کا پھٹپھٹا بھی چلتا ہے۔ پھر بھی یہ سڑک اتنی نیبوری ہے کہ کہیں نہیں جاتی، یہیں لیٹی رہتی ہے۔
جبّر کے پہلو میں جو اُجاڑ بیبان سی عمارت کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے،حوالات ہے ۔ حوالات میں مِیسا بند ہے۔ اور چار ماہ سے بند ہے۔ وہ چھبّو چاچے کی پوُلیں پہنا کر اُنہی کے’’پہوُچر‘‘ کو اُڑا لے گیا ۔ اور پکڑا گیا اُس کی کھال کماتے ہوئے۔ مگر پولیس کو موقع واردات سے کوئی عینی شاہد ہتھّے چڑھا نہ ہی ثبوت جس سے ثابت ہوکہ کھال مال مسروقہ ہی کی ہے۔ حوالات کے دروازے پر بیٹھا گارڈ اونگھ رہا ہے اور مِیسا جھوم رہا ہے۔
حوالات کے پہلو میں کچہری ہے اور کچہری کے پہلو میں وکلا ’’کچہری ‘‘کر رہے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سندھ میں دائرے میں ،اجرک سے گھُٹنے باندھ کربیٹھتے ہیں ۔ ایک بولتا ہے باقی سُنتے ہیں ۔ ہمارے ہاں وکلا باقاعدہ اعلیٰ تعلیمیافتہ ہیں ،چنانچہ دوسرے کی نہیں سُنتے،اپنی سنائے جاتے ہیں ۔ اس گفت و شنید کو انگریزی میں ’’ڈسکشن‘‘اور پہاڑی میں ’’چلہا چلہا‘‘کہتے ہیں ۔ لیکن قربان جائیے اپنے مطلب کی کہیں سے بھی آئے، سُن لیتے ہیں ۔ اسی کو فریکونسی ملنا کہتے ہیں ۔


کچہری کے پچھواڑے ایک ’’ٹہاکہ‘‘ ہے ، جو بظاہر کسی کام کا نہیں ۔ چنانچہ وکلا کا پیچھا کرتے کرتے ’’موکّلا‘‘ بھی اُدھر جا نکلتے ہیں ۔ اور ڈھیلا خشک کرتے برآمد ہوتے ہیں ۔ مُڑ عدالت کا رُخ کرنے کی بجائے ہینڈ بریک آن کرکے مزید نیچے اُتریں تو ایک کسّی ملے گی۔ جو ہے توکسّی لیکن جب طغیانی پر آتی ہے تو سانڈوں کوبہا لے جاتی ہے۔ اور طغیانی پر آنے کے لئے وہ برسات کی محتاج نہیں ۔ سیاسی جلسہ میں ایک آدھ تقریر ہی اُنڈیل دی جائے تو کافی و شافی ہے۔ کچہری کے پچھواڑے ، منہ طرف کہنہ پڑاٹ کرکے کسّی کے اُس پار دیکھیں توآپ کو مدتّوں سے زیرِ تعمیر ایک عمارت نظر آئے گی۔ وہ مبیّنہ بوائز کالج ہے۔ ڈھیلا اُس کی طرف پھینک کر آپ پتلی گلی سے کھسک لیں،اسی میں بہتری ہے۔ کالج کے پہلو میں سپلائی بازار ہے بازار کے پہلو میں ’’مولویالوں‘‘ کا ٹبّر۔ آگے آپ خود سیانے ہیں۔
اگر آپ ہمارے ویلے کے بازار کی سیر کرنا چاہیں تو پائنچے احتیاطاً گھُٹنوں تک اُڑس لیں ۔ کیا جانیئے کہاں دھول ’’دھپہ‘‘ ہو، کہاں سوُکھے میں کیچڑاچھل پڑے ۔:
یہ چیک پوسٹ ہے۔۔۔۔ ، حالانکہ یہاں کوئی چیک پوسٹ نہیں ہے۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائیں تو جہاں کبھی چیک ہوسٹ ہو سکتی تھی ،وہاں جمن علی کی دُکّان ہے اور دُکان کھُلی چھوڑ کر وہ اُسترے سمیت کوسوں دور ’’اُوندھے نیں مَیرے ‘‘ اپنے ایک کلائنٹ کے نویں بچّے کو مسلمانی بٹھا نے گیا ہوا ہے۔ لیکن جائے اُستاد خالی نیست۔۔۔۔ کرُسی پر براجمان ایک گاہک سویرے سے زنگ آلود آئینے میں اپنا سراپا کھوجنے کی سعی لا حاصل کر رہا ہے۔ اس ’’دلیپ کمہارہیئر کٹنگ اینڈ ختنہ سیلون‘‘ کے پچھواڑے یہ جو ہنگامہ سا برپا ہے،جھگڑا ٹنٹا نہیں ،اپنا سردار عبدالکریم عرف پِنڈی بھائی ’’گراہکوں ‘‘ میں طارق بس کے راولاکوٹ تا پنڈی ٹکٹ بانٹ اور ڈانٹ رہا ہے۔ اس کے متصِّل وہ ’’فاروق ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ مدظلہ‘‘ہے۔ جو اس وقت بند ہے۔ مالک دو ڈوگے(کھیت) ’’ہل‘‘ کے ، بعد دوپہر کسی وقت آئے گا۔ پھر ’’دیکھیں گے بہاریں جھاڑو کی‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors


ہوٹل مدظلہ کی پسلی سے جُڑا یہ جو ’’چیچو باسا‘‘ ہے، ’’گورمنٹ مِنڈُل سکول ‘‘ہے۔ جس کے صحن میں اِس وقت جو دانے چُگتے دکھائی دیتے ہیں ، ’’چوُچے‘‘ نہیں ’’کُکڑی‘‘کے بچّے ہیں ۔ اور وہ دانے نہیں چُگتے، الف اُلّو،بے بکری یاد کر رہے ہیں ۔ اُن کے سامنے جو نیلوٹھ پتھّر پر ڈول رہے ہیں ، ہیڈماس ساب کے مہمان نہیں ،قاعدے والوں کے اُستاد ہیں ۔۔۔۔۔۔ ماشٹرراج ولی۔
اسکول کی چھوٹی کلاسیں سڑک کی جانب مختلف بنیروں اور کیاریوں میں اُگی ہوئی ہیں جبکہ بڑی پچھواڑے میں کہنہ سال پیڑتلے پھنسی ہوئی ہیں ۔ کمروں میں سے ایک میں دفتر صدرمعلم، دوسرے میں کھیلوں کا سامان مع پی ٹی آئی صاحب اسٹور ہے۔ تیسرے میں بوسیدہ ٹاٹ ، شکستہ بنچ ،ٹوٹی ہوئی گھنٹی ،وغیرہ جیسا اثاث البیت محفوظ ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی ایک حقّہ بھی اِنونٹری آٗٹم کے طور پر کسمپرسی کے عالم میں پڑا ہے۔ اس کی قسمت تب جاگتی ہے جب باری پرکبھی گردونواح کےاساتذہ تنخواہ لینے یہاں آتے ہیں ۔
سڑک کے اُس پار اسکول کا پلے گراوٗنڈ ہے جہاں یا تو ارد گرد کی بھینسیں چرتی ہیں یا سیاسی بھینسے ’’کھوروُ‘‘ کرتے ہیں ۔ اسکول کے سامنے جس اُگالے سے ریڑ کے ڈالوں کا کڑوا دھواں خارج ہو رہا ہے، قاضی عبدالکریم کا ہوٹل ہے۔ راولاکوٹ کا وہ واحد ریستوران جس میں ’’سپریٹ چائے‘‘ملتی ہے۔ قہوہ الگ، دودھ الگ اور چینی الگ۔ سردار مختار خان، سردار لطیف خان،سردار عنایت خان، مولانا عبدالعزیز تھوراڑوی، غازی محمد امیر خان، جناب سردار خان وغیرہم یعنی راولاکوٹ کی کریم قاضی عبدالکریم کے پاس بیٹھ کر کبھی چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتی کبھی اُٹھے ہوئے طوفان کو بٹھاتی رہتی ہے۔
اس سے چند قدم کے فاصلہ پر حاجی قاسم خان کی بزازی کی دُکان ہے۔جو دُکان کم اور اڈّا زیادہ ہے۔ سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات کا گڑھ ۔ سیانے کہتے ہیں ،راولاکوٹ کی قسمت اسی اڈّے پر بنتی بگڑتی ہے۔واللہ عالم۔ مبیّنہ اڈّہ کی پسلی میں

راولاکوٹ کا واحد بُک اسٹال ہے۔ جس پرپاکستان ٹائمز اور ڈان جیسے تازہ اخبارات صرف تین دن کے بعد دستیاب ہوتے ہیں ۔ جن کی کل تعداد آٹھ ہوتی ہے۔ جن میں سے دو ماسٹر نذیرخان لے جاتا ہے، باقی سرکاری دفاتر میں جاتے اور بھانڈے پیالے صاف کرنے کے کام آتے ہیں ۔ بُک اسٹال سے چند قدم آگے چلیں تو سلیمان چوک آتا ہے،جہاں سے کوئی مقتدر سواری صوبیدار سلیمان خان سے ہیلو ہائے کئے بغیر نہیں گذر سکتی۔
وہیں ایک برامدے میں راولاکوٹ کا واحد فوٹو اسٹڈیو ہے جہاں انٹرنیشنل فوٹو گرافر کیمرے میں موہنڈے تک بانہہ گھسیڑ کر فوٹو نکالتا،جسے ٹوپی یا بیڑے بٹن سے پہچان کر’’گراہک‘‘ کو سپلائی کرتا ہے۔ سپردم بتو خویش را
یہ تھا وہ راولاکوٹ جس کا کُل رقبہ اتنا تھا کہ رمضان میں جب صوبیدار سلیمان خان پھانٹ سے لیس ہو کر اُچّکے روزہ خوروں کو’’دکہاتے‘‘(ہانکتے؟) تھے تو شہر کے اِس سرے سے اُس کونے تک کُل ملا کر ۲۵ منٹ صرف ہوتے تھے ۔۔۔ اور خس کم جہاں پاک ہوجاتا تھا۔ (اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شہر بازار ’’صراطِ مستقیم‘‘پر آباد تھا۔ (ورنہ صوبیدار صاحب اتھلیٹ نہیں ، سیاسی و سماجی کارکن تھے)۔ اب راولاکوٹ رہاڑہ ، ڈار، چھوٹا گلہ، برمنگ، ٹوپی، شجاع آباد،پاک گلی اور ہورنہ میرہ تک بُرائی کی طرح پھیل چکا ہے۔ چنانچہ کسی صوبیدار سلیمان کو ’’بے پاوتوں‘‘ کا پیچھا کرنا پڑے تو ایک سو میٹر کے اندر گلیوں میں ہی ’’ہف‘‘ کر بیٹھ جائے۔ اس قدر بھِیڑ اور بقول ترنگلی چاچا،’’گیں بُچّھ‘‘ہے کہ اچھائی بُرائی کے پیروں تلے کُچلی جاتی ہے مگر اُف بھی نہیں کرپاتی۔
صاحبو! شہر ہمارے گاوں میں بہت دور تک گھُس آیا ہے۔ ہماری فرمائش پر بہن نے ’’لادرو‘‘، ’’گُنہار‘‘اور ’’پھواڑی‘‘ کا ساگ پکایا توبچّوں نے باجناعت احتجاج کیا کہ وہ گھاس پھوس نہیں کھاتے۔۔۔۔ اُن کے لئے سبزی پکائی جائے۔ جس اسکول میں ہم ننگے پاوں تختیاں لڑاتے، بستے جھلاتے جایا کرتے تھے،اُسی اسکول میں موجودہ بچّے ’’اسکول وین‘‘ میں جاتے ہیں ۔ ہمارے زمانہ طالبعلمی میں گاوں کا ہر بزرگ ذاتی طور

پرگاوں کے بچّوں کو ، اور بچّے بڑوں کو پہچانتے تھے۔ اب بزرگوں کو اپنے کُف قبیلہ کے بچّوں کو پہچاننے کے لئے اُن کے والدین سے تبادلہ شکوک کرنا پڑتا ہے۔ یارو! راولاکوٹ کو شہر نگل گیا۔۔۔۔ مقامی اچھائیاں اور اقدار بدیسی اطوار تلے کُچلی گئیں۔آج کا شہر کل کے راولاکوٹ کو مٹّی میں ملا گیا۔۔۔۔ اب کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply