اس وقت الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کو لیکر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ آپ سب حضرات اس بحث سے بخوبی واقف ہوں گے اور اس کے پس منظر سے بھی۔ جو بات ہے اس کو میں مختصرا ً بیان کر دیتا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ پرائم منسٹر عمران خان صاحب نے کرونا سے لڑنے کے لیے مخیّر حضرات سے فنڈ ریزنگ کے لیے ٹیلی تھون کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں بہت سارے نامور ٹیلی ویژن چینلز کے اینکر حضرات بھی شامل ہوئے۔ اس میٹنگ کے اختتام پر مولانا طارق جمیل صاحب کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ دعا فرمائیں۔ جب مولانا صاحب دعا فرمانےلگے تو انہوں نے کہا ہم باحیثیت قوم جھوٹے ہیں۔ جھوٹ ہم میں رچ بس گیا ہے۔ بہت سارے میڈیا سے اینکر حضرات یہاں پر موجود ہیں۔ میڈیا پر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ جھوٹ کو بیچا جاتا ہے۔ اس طرح جھوٹ بولنے سے ہم اپنے اللہ کو خوش نہیں کر سکتے۔
یہ تھی وہ بات جس پر اینکر حضرات کو بہت غصہ آیا۔ جس کے بعد انہوں نے مولانا طارق جمیل صاحب کو اپنے بیان کی وضاحت کرنے کو کہا۔ سبھی نام نہاد اینکر حضرات کو یہ لگ رہا تھا کہ مولانا طارق جمیل صاحب نے ان کو جھوٹ کی جو سند دی ہے اس کے ساتھ وہ اللہ تعالی کے حضور جب پیش ہوں گے تو ان کو جہنم واصل کر دیا جائے گا۔مولانا صاحب پر پریشر بڑھایا گیا، ان کو میڈیا پر آکر بیان دینے کے لیے کہا گیا ۔
اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے، مجھے اپنا ایک دوست یاد آ گیا۔ جو زمانہ طالب علمی میں میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ وہ غالباً کلاس میں سب سے زیادہ گالیاں بھی دیتا تھا، جھوٹ بھی بولتا تھا ،اور فلمیں بھی دیکھا کرتا تھا۔ لیکن موصوف کہا کرتے تھے نہ آج تک میں نے کبھی گالی دی ،نہ جھوٹ بولا اور نہ ہی کبھی کوئی فلم دیکھی ۔حالانکہ مجھے سینما سے پہلی بار روشناس کروانے والے بھی یہی صاحب تھے ( گو یہ بات وہ مذاق میں کیا کرتا تھا) ہم دوست بہت کوشش کرتے اس کو یاد دلاتے، تم نے کب گالیاں دی، کب جھوٹ بولا اور ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے کونسی فلم کی سٹوری ہمیں سنائی ہے، لیکن مجال ہے کہ صاحب نے ایک بار بھی یہ بات تسلیم کی ہو کہ ہاں آپ لوگ صحیح کہتے ہیں اور میں غلط ہوں ۔
اب پھر ذرا مولانا طارق جمیل اور ان اینکر حضرات کی طرف چلتے ہیں، جب انہوں نے مولانا صاحب کو یہ کہا کہ آپ میڈیا پر آکر اپنے بیان کی وضاحت کریں تو مولانا صاحب اسی وقت میڈیا پر چلے آئے ،انہوں نے سادہ الفاظ میں ان لوگوں سے معافی مانگی جن کی دل آزاری ہوئی تھی، مولانا نے کہا کہ جو لوگ سچ بولتے ہیں اور وہ صحافت کرتے ہیں، میں ان سے معافی چاہتا ہوں ،اگر میری وجہ سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اس وقت مولانا طارق جمیل کے اس اقدام کو بہت سراہا جا رہا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگ یہ بات بھی کرتے ہیں کہ یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ میڈیا پر جھوٹ بولا جاتا ہے جھوٹ بیچا جاتا ہے اور لوگوں کو جھوٹ سنایا جاتا ہے تو مولانا صاحب کو میڈیا سے معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی بلکہ انہیں اپنے بیان پر ڈٹے رہنا چاہیے تھا، مولانا صاحب کے ردِعمل کو دیکھتے ہوئے مجھے اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ایک حدیث یاد آتی ہے۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور عفو و درگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرما دیتا ہے“ (جامع ترمذی جلد ٢، حدیث ٢٠٢٩)
مولانا صاحب ایک بڑے عالم ِ دین ہیں ،یقینا ً انہوں نے یہ قدم بھی دین اسلام کی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اٹھایا ہوگا۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہمیں یہ بات سکھائی جاتی تھی کہ جھوٹ نہیں بولنا، نماز پڑھنی ہےاور بڑوں کی عزت کرنی ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو روز قیامت اللہ تعالی ہم پر اپنا عذاب نازل فرمائیں گے سو اس طرح دلوں کے اندر ایک ڈر اور خوف پیدا کیا جاتا تھا۔لیکن مولانا نے یہ بات سکھائی کہ اللہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکےاس پیار کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔
ایک اور بات ،کچھ دوست جن کی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی ہے وہ مولانا صاحب سے اس بات پر خفا نظر آتے ہیں کہ وہ عمران خان صاحب کو کیوں دعائیں دیتے ہیں تو ان کے لیے گزارش یہ ہے کہ عمران خان صاحب اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام نے انہیں یہ مینڈیٹ پانچ سال کے لیے دیا ہے اور حکمران کے لیے دعا کرنا تو کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
مزید بات کرتا چلوں کہ مولانا صاحب جب بھی محترمہ بے نظیر بھٹو ( مرحومہ) کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے لیے شہید کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح مولانا صاحب اس بات کا بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ جب زرداری صاحب حکومت میں تھے تو انہوں نے حرم کے اندر اللہ تعالی سے ان کے لئے دعا مانگی، اسی طرح مختلف موقعوں پر وہ نواز شریف صاحب کے لئے بھی دعا کر چکے ہیں۔اس لیے اس ساری بات کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہے ۔
مولانا صاحب آپ اس قوم کے محسن ہیں۔ یہ قوم آپ سے پیار کرنے والی قوم ہے۔ ہمارے درمیان آپ کی موجودگی باعث ِفخر ہے۔اللہ تعالی آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے ،اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ سچ بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سچی بات سن کر اس پر عمل کرنے والا بنائے۔آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں