تولیہ۔۔سلیم مرزا

گنجا ہونے کی کم ازکم ایک سہولت توہے،مجھے نہانے کیلئے شیمپو کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ کوئی سا بھی صابن سرف استعمال کرلوں , کوئی خطرہ نہیں۔میرا تجربہ ہے ایریل جیسی شائننگ کسی شیمپو سے نہیں آتی ۔صرف برتن دھونے والے صابن سے ہلکی سی جلن محسوس ہوتی ہے ۔
ایک طرح سے اچھا ہے کہ میرا شیمپو سے کچھ لینا دینا نہیں ورنہ میں نے اپنے گھر میں شیمپو کیلئے ایسی خوفناک جنگیں دیکھی ہیں کہ یقین ہوگیا ہم خاندانی مغل ہیں  ۔جو شیمپو کیلئے اپنے سگوں پہ چمچے کڑچھے نکال لیں وہ اقتدار کیلئے تلواریں نہیں نکالتے ہوں گے؟

میری شہزادی بیٹیاں جو مجھے لُوٹنے کے معاملے میں ہمیشہ ایک پیج پہ رہتی ہیں ۔ان کی بھی شیمپو کے معاملے پر  لڑائی یوتھیوں, نونیوں جیسی ہی ہوتی ہے۔اور یہ جنگ اس وقت مزید شدت اختیار کرلیتی ہے جب ریحان یا فیضان میں سے کوئی شیمپو چوری کرتے پکڑا جاتا ہے۔
وہ دونوں اتنے احمق،چور ہیں کہ نہانے کے بعد مال مسروقہ باتھ روم میں چھوڑ جاتے ہیں ۔
اپنی ماں سے بھی نہیں سیکھتے, وہ برسوں سے بیٹیوں کا شیمپو چرا رہی ہے آج تک نہیں پکڑی گئی ۔
آخر بیوی کس کی ہے ۔؟

میری جس بیٹی کو بھی اپنے شیمپو کی چوری شدہ بوتل باتھ روم سے ملتی ہے ۔
اس کی “پاپا۔ ۔”والی چیخ کی آواز مجھے گلی کی نکڑ پہ بھی آجاتی ہے ۔
میں جو چھت پہ احمد پور شرقیہ سے شاعرہ کی غربیہ شاعری پہ توصیفی کمنٹ لکھ رہا ہوتا ہوں ۔
دوڑ کر باتھ روم پہنچتا ہوں کہ اللہ خیر کرے؟

پتہ چلتا ہے کہ ابھی ابھی نہا کر جانے والا ناہنجار, رشتے میں صرف اور صرف میرا بیٹا ہے ۔اوروہ لڑکی اس وقت تک میری کچھ نہیں لگتی جب تک چور کا باپ اس برانڈ کا نیا شیمپو نہیں لاکر دیتا ۔
بوتل ہلا کر دیکھی
“۔اس میں ابھی ستر اسّی فیصد شیمپو باقی ہے “؟
“یہ آپ رکھ لیں ”
انتہائی روکھا لہجہ ۔
اگر آپ گنجے ہوں تو آپ کو پتہ چلے کہ ایسی بات سن کر دل پہ کیا گذرتی ہے ۔

پھر بھی پیار سے سمجھاتا ہوں
“میری دھی ,میں اس کا کیا کروں گا “؟
“اپنے لاڈلوں کو دے دیجئے گا, جو گندی شرٹیں زمین پہ پھینک کر جاتے ہیں ”
لیجئے اب ایک اور کیس تیار ہے ۔
گھر میں صرف گندی شرٹ ہی نہیں تولیے کا بھی مسئلہ ہے ۔جس طرح میرے لئے گھر میں کوئی چپل نہیں ہے ۔
اسی طرح میرے پاس کوئی تولیہ بھی نہیں ہے ۔
چپل۔مجھے ملتی نہیں ہے ۔کیونکہ بیگم کے پاس چھ چپلیں بھی ہوں تو اس نےمیری ہی پہننی ہے ۔
بیڈ کے دائیں طرف اپنی چپل اتار کر بائیں طرف سے اتریں گی ۔اور میری چپل پہن کر سارا گھر گھومیں گی۔
پھر کسی گمنام صوفے پہ بیٹھ کر اپنی دوسری چپل پہن کر واپس بیڈ پہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

صبح تک بیڈ کے اطراف میں چھ سات زنانہ جوڑے ہوں گے ،اور میں اکیلا مرد ۔ایمرجنسی میں واش روم اپنے سائز سے آدھی چپل میں شٹاپو کھیلتا جاتا ہوں ۔
اب رہ گیا تولیہ ۔وہ مجھے جو ملے اٹھا کر باتھ روم میں جاپہنچتا ہوں ۔
پرابلم اس وقت شروع ہوتی ہے جب اس کا مالک مجھے دیکھ لیتا ہے ۔
عموماً صابن لگاتے ہی دروازہ بجتا ہے ۔
“پاپا ۔میرا تولیہ واپس کریں ”
کتنی بار دل چاہا کہ ایک بڑا سا تولیہ ہو ۔جس طرح انگریزی فلموں میں ہوتا ہے ۔ہیروئین خالی تولیہ لپیٹے باتھ روم سے نکلتی ہے ۔
کیا سین ہوتا ہے ۔مگر خرید نہ سکا کہ مجھے شاپنگ میں صرف رنگ اور برش خریدنے اچھے لگتے ہیں ۔
لیکن اللہ اپنے مجبور بندوں کی سنتا ہے۔
راحیلہ خرم کے میاں تولیے ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔اس نیک بی بی کے دل میں خدا نے بات ڈال دی ۔
اس نے فل سائز تولیے مجھے بھیج دیے۔
اب نہانے کے بعد صرف تولیہ لپیٹ کر گھر میں پھرنے سے فارن فنڈنگ جیسی فارن فیلنگ آتی ہے ۔
بس ہلکا سا خوف رہتا ہے کہ اکبر ایس بابر جیسا کوئی نالائق،تولیہ کھینچ کر اثاثے نہ ظاہر کردے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply